صحيح البخاري
كِتَاب الْفَرَائِضِ -- کتاب: فرائض یعنی ترکہ کے حصوں کے بیان میں
19. بَابُ الْوَلاَءُ لِمَنْ أَعْتَقَ، وَمِيرَاثُ اللَّقِيطِ:
باب: غلام لونڈی کا ترکہ وہی لے گا جو اسے آزاد کرے اور جو لڑکا راستہ میں پڑا ہوا ملے اس کی وراثت کا بیان۔
حدیث نمبر: 6752
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" إِنَّمَا الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ".
ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے مالک نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ولاء اسی کے ساتھ قائم ہوتی ہے جو آزاد کر دے۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2915  
´ولاء (آزاد کیے ہوئے غلام کی میراث) کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک لونڈی خرید کر آزاد کرنا چاہا تو اس کے مالکوں نے کہا کہ ہم اسے اس شرط پر آپ کے ہاتھ بیچیں گے کہ اس کا حق ولاء ۱؎ ہمیں حاصل ہو، عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس بات کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا: یہ خریدنے میں تمہارے لیے رکاوٹ نہیں کیونکہ ولاء اسی کا ہے جو آزاد کرے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الفرائض /حدیث: 2915]
فوائد ومسائل:

آقا اور اس کی زیر ملکیت غلام کے مابین تعلق (ولاء) کہلاتا ہے۔
غلام کو آزاد کر دینے کے بعد بھی یہ تعلق قائم رہتا ہے۔
آزاد کرنے والے کو مولیٰ (معتق) (ت کے نیچے زیریعنی آزاد کرنے والا) اور آزاد شدہ کو مولیٰ (معتق) (ت پرزبر یعنی آزاد کیا ہوا) کہتے ہیں۔
اور ان کے مابین نسبت وقرابت کو ولاء کہتے ہیں۔
اور اس تعلق کو کسی طور تبدیل فروخت یا ہبہ نہیں کیا جاسکتا۔


غیر شرعی شرطیں لغو محض ہوتی ہیں۔
اور ان کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2915   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6752  
6752. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں آپ نےفرمایا: ولا تو اسی کے لیے ہے جس نے آزاد کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6752]
حدیث حاشیہ:
(1)
ولا کے لغوی معنی نصرت ومحبت کے ہیں شرعی اصطلاح میں اس سے مراد وہ تعلق ہے جو غلام اور اس کے آزاد کرنے والے کے درمیان قائم ہوتا ہے۔
اس کا فائدہ یہ ہے کہ اگر آزاد کردہ غلام مر جائے اور اس کا کوئی نسبی وارث نہ ہو تو اس کا ترکہ آزاد کرنے والے کو ملتا ہے۔
(2)
حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کا شوہر مغیث تھا جو حضرت بریرہ رضی اللہ عنہما کی آزادی کے وقت غلام تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کو اختیار دیا کہ تو چاہے تو اپنے شوہر مغیث کی زوجیت کو اختیار کرے اور چاہے تو اس سے علیحدگی اختیار کر لے، چنانچہ اس نے علیحدگی کو اختیار کیا تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کو اختیار دینا اس امر کی دلیل ہے کہ مغیث غلام تھا۔
(3)
بہرحال آزاد شدہ غلام کا ترکہ آزاد کرنے والے کو ملتا ہے اور راستے سے ملنے والا لاوارث بچہ اگر فوت ہو جائے تو اس کا ترکہ بیت المال میں جمع ہو جاتا ہے کیونکہ وہ آزاد ہے، اگر غلام ہوتا تو اس شخص کو اس کا ترکہ ملتا جس نے اسے اٹھایا تھا۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے پیش کردہ حدیث سے لقیط کی وراثت کا حکم بھی بیان کیا ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6752