صحيح البخاري
كِتَاب الْفَرَائِضِ -- کتاب: فرائض یعنی ترکہ کے حصوں کے بیان میں
23. بَابُ مَا يَرِثُ النِّسَاءُ مِنَ الْوَلاَءِ:
باب: ولاء کا تعلق عورت کے ساتھ قائم ہو سکتا ہے۔
حدیث نمبر: 6759
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" أَرَادَتْ عَائِشَةُ أَنْ تَشْتَرِيَ بَرِيرَةَ، فَقَالَتْ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّهُمْ يَشْتَرِطُونَ الْوَلَاءَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اشْتَرِيهَا فَإِنَّمَا الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ".
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہمام نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بریرہ رضی اللہ عنہا کو خریدنا چاہا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ یہ لوگ ولاء کی شرط لگاتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خرید لو، ولاء تو اسی کے ساتھ قائم ہوتی ہے جو آزاد کرے (آزاد کرائے)۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2915  
´ولاء (آزاد کیے ہوئے غلام کی میراث) کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک لونڈی خرید کر آزاد کرنا چاہا تو اس کے مالکوں نے کہا کہ ہم اسے اس شرط پر آپ کے ہاتھ بیچیں گے کہ اس کا حق ولاء ۱؎ ہمیں حاصل ہو، عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس بات کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا: یہ خریدنے میں تمہارے لیے رکاوٹ نہیں کیونکہ ولاء اسی کا ہے جو آزاد کرے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الفرائض /حدیث: 2915]
فوائد ومسائل:

آقا اور اس کی زیر ملکیت غلام کے مابین تعلق (ولاء) کہلاتا ہے۔
غلام کو آزاد کر دینے کے بعد بھی یہ تعلق قائم رہتا ہے۔
آزاد کرنے والے کو مولیٰ (معتق) (ت کے نیچے زیریعنی آزاد کرنے والا) اور آزاد شدہ کو مولیٰ (معتق) (ت پرزبر یعنی آزاد کیا ہوا) کہتے ہیں۔
اور ان کے مابین نسبت وقرابت کو ولاء کہتے ہیں۔
اور اس تعلق کو کسی طور تبدیل فروخت یا ہبہ نہیں کیا جاسکتا۔


غیر شرعی شرطیں لغو محض ہوتی ہیں۔
اور ان کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2915