صحيح البخاري
كِتَاب الْحُدُودِ -- کتاب: حد اور سزاؤں کے بیان میں
9. بَابُ ظَهْرُ الْمُؤْمِنِ حِمًى، إِلاَّ فِي حَدٍّ أَوْ حَقٍّ:
باب: مسلمان کی پیٹھ محفوظ ہے ہاں جب کوئی حد کا کام کرے تو اس کی پیٹھ پر مار لگا سکتے ہیں۔
حدیث نمبر: 6785
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ وَاقِدِ بْنِ مُحَمَّدٍ، سَمِعْتُ أَبِي، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ:" أَلَا أَيُّ شَهْرٍ تَعْلَمُونَهُ أَعْظَمُ حُرْمَةً؟ قَالُوا: أَلَا شَهْرُنَا هَذَا، قَالَ: أَلَا أَيُّ بَلَدٍ تَعْلَمُونَهُ أَعْظَمُ حُرْمَةً؟ قَالُوا: أَلَا بَلَدُنَا هَذَا، قَالَ: أَلَا أَيُّ يَوْمٍ تَعْلَمُونَهُ أَعْظَمُ حُرْمَةً؟ قَالُوا: أَلَا يَوْمُنَا هَذَا، قَالَ: فَإِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى قَدْ حَرَّمَ عَلَيْكُمْ دِمَاءَكُمْ، وَأَمْوَالَكُمْ، وَأَعْرَاضَكُمْ، إِلَّا بِحَقِّهَا، كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا، فِي بَلَدِكُمْ هَذَا، فِي شَهْرِكُمْ هَذَا، أَلَا هَلْ بَلَّغْتُ، ثَلَاثًا، كُلُّ ذَلِكَ يُجِيبُونَهُ، أَلَا نَعَمْ، قَالَ: وَيْحَكُمْ أَوْ وَيْلَكُمْ لَا تَرْجِعُنَّ بَعْدِي كُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ".
مجھ سے محمد بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عاصم بن علی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم عاصم بن محمد نے بیان کیا، ان سے واقد بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے اپنے والد سے سنا کہ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا ہاں تم لوگ کس چیز کو سب سے زیادہ حرمت والی سمجھتے ہو؟ لوگوں نے کہا کہ اپنے اسی مہینہ کو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں، کس شہر کو تم سب سے زیادہ حرمت والا سمجھتے ہو؟ لوگوں نے جواب دیا کہ اپنے اسی شہر کو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا ہاں، کس دن کو تم سب سے زیادہ حرمت والا خیال کرتے ہو؟ لوگوں نے کہا کہ اپنے اسی دن کو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اب فرمایا پھر بلاشبہ اللہ نے تمہارے خون، تمہارے مال اور تمہاری عزتوں کو حرمت والا قرار دیا ہے، سوا اس کے حق کے، جیسا کہ اس دن کی حرمت اس شہر اور اس مہینہ میں ہے۔ ہاں! کیا میں نے تمہیں پہنچا دیا۔ تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور ہر مرتبہ صحابہ نے جواب دیا کہ جی ہاں، پہنچا دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا افسوس میرے بعد تم کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6785  
6785. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا: تم کس مہینےکو حرمت میں عظیم تر جانتے ہو؟ صحابہ نے کہا: اسی مہینے (ذوالحجہ) کو۔ آپ نے فرمایا: بتاؤ تم کس شہر کو سے زیادہ حرمت والا خیال کرتے ہو؟ لوگوں نے جواب دیا: اسی شہر (مکہ) کو۔ پھر آپ نے دریافت فرمایا: تم کس دن کو سب سے زیادہ عزت والا سمجھتے ہو؟ صحابہ کرام نے کہا: اپنے اسی دن (یوم نحر) کو۔ آپ ﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ تعالٰی نے حق شرع کے سوا تمہارے خون تمہارے مال اور تمہاری عزتیں تم پر حرام کر دی ہیں جیسا کہ اس دن کی حرمت اس شہر اور اس مہینے میں ہے۔ پھر آپ نے تین مرتبہ فرمایا: کیا میں نے تمہیں اللہ کا پیغام پہنچا دیا ہے؟ صحابہ کرام نے ہر مرتبہ یہی جواب دیا کہ ہاں پہنچا دیا ہے۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: تمہاری خرابی ہو! میرے بعد تم کفار جیسے نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں اڑانے لگو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6785]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے ظاہر ہے کہ مسلمان کا عنداللہ کتنا بڑا مقام ہے۔
جس کا لحاظ ہر مسلمان کا اہم فریضہ ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6785   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6785  
6785. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا: تم کس مہینےکو حرمت میں عظیم تر جانتے ہو؟ صحابہ نے کہا: اسی مہینے (ذوالحجہ) کو۔ آپ نے فرمایا: بتاؤ تم کس شہر کو سے زیادہ حرمت والا خیال کرتے ہو؟ لوگوں نے جواب دیا: اسی شہر (مکہ) کو۔ پھر آپ نے دریافت فرمایا: تم کس دن کو سب سے زیادہ عزت والا سمجھتے ہو؟ صحابہ کرام نے کہا: اپنے اسی دن (یوم نحر) کو۔ آپ ﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ تعالٰی نے حق شرع کے سوا تمہارے خون تمہارے مال اور تمہاری عزتیں تم پر حرام کر دی ہیں جیسا کہ اس دن کی حرمت اس شہر اور اس مہینے میں ہے۔ پھر آپ نے تین مرتبہ فرمایا: کیا میں نے تمہیں اللہ کا پیغام پہنچا دیا ہے؟ صحابہ کرام نے ہر مرتبہ یہی جواب دیا کہ ہاں پہنچا دیا ہے۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: تمہاری خرابی ہو! میرے بعد تم کفار جیسے نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں اڑانے لگو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6785]
حدیث حاشیہ:
(1)
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مومن کی پیٹھ ہر قسم کی ایذا رسانی سے محفوظ ہے لیکن اگر اس پر حد واجب ہوتو محفوظ نہیں۔
اسی طرح اگر کسی کا حق اس کے ذمے ہوتو اسے وصول کر لینے کے لیے اس کی پیٹھ کو مارا جا سکتا ہے، اس کے سوا مومن کا خون، مال اور اس کی آبرو محفوظ ہے۔
کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس کے جان ومال کو اپنے لیے مباح اور حلال خیال کرے یا اس کی آبرو کو اپنے لیے جائز سمجھے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں مسلمان کا مقام بہت بلند ہے جس کا لحاظ رکھنا ہر مسلمان کا اہم فریضہ ہے۔
(فتح الباري: 104/12) (2)
میرے بعد تم کافر نہ بن جانا اس جملے کے کئی ایک مفہوم شارحین نے بیان کیے ہیں:
٭حق کے بغیر کسی کے قتل کو حلال خیال کرنا کفر ہے۔
٭اس سے مراد کفران نعمت ہے۔
٭یہ فعل کفر کے قریب کر دیتا ہے۔
٭یہ فعل کافروں کے فعل جیسا ہے۔
٭اس سے حقیقت کفر مراد ہے، یعنی کفرنہ کرو اور ہمیشہ اسلام پر قائم رہو۔
٭ یہ جملہ ان کے لیے ہے جو ہتھیار پہن کر خود کو ڈھانپ لیتے ہیں، ہتھیار لگانے والے کو کافر کہا جاتا ہے۔
ایک دوسرے کو کافر نہ کہو ورنہ ایک دوسرے کو قتل کرنے لگو گے۔
ان تمام اقوال میں سے چوتھا قول زیادہ قرین قیاس ہے۔
(عمدة القاري: 66/16)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6785