صحيح البخاري
كتاب المحاربين -- کتاب: ان کفار و مرتدوں کے احکام میں جو مسلمانوں سے لڑتے ہیں
25. بَابُ الرَّجْمِ بِالْمُصَلَّى:
باب: عیدگاہ میں رجم کرنا (عیدگاہ کے پاس یا خود عیدگاہ میں)۔
حدیث نمبر: 6820
حَدَّثَنِي مَحْمُودٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ جَابِرٍ،" أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَسْلَمَ، جَاءَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاعْتَرَفَ بِالزِّنَا، فَأَعْرَضَ عَنْهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى شَهِدَ عَلَى نَفْسِهِ أَرْبَعَ مَرَّاتٍ، قَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَبِكَ جُنُونٌ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: أُحْصَنْتَ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَأَمَرَ بِهِ، فَرُجِمَ بِالْمُصَلَّى، فَلَمَّا أَذْلَقَتْهُ الْحِجَارَةُ، فَرَّ، فَأُدْرِكَ فَرُجِمَ حَتَّى مَاتَ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: خَيْرًا وَصَلَّى عَلَيْهِ" لَمْ يَقُلْ يُونُسُ، وَابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ:" فَصَلَّى عَلَيْهِ". سُئِلَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ:" فَصَلَّى عَلَيْهِ يَصِحُّ". قَالَ: رَوَاهُ مَعْمَرٌ، قِيلَ لَهُ رَوَاهُ غَيْرُ مَعْمَرٍ، قَالَ: لَا.
مجھ سے محمود نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے اور انہیں جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہ قبیلہ اسلم کے ایک صاحب (ماعز بن مالک) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور زنا کا اقرار کیا۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف سے اپنا منہ پھیر لیا۔ پھر جب انہوں نے چار مرتبہ اپنے لیے گواہی دی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کیا تم دیوانے ہو گئے ہو؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ پھر آپ نے پوچھا کیا تمہارا نکاح ہو چکا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ چنانچہ آپ کے حکم سے انہیں عیدگاہ میں رجم کیا گیا۔ جب ان پر پتھر پڑے تو وہ بھاگ پڑے لیکن انہیں پکڑ لیا گیا اور رجم کیا گیا یہاں تک کہ وہ مر گئے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں کلمہ خیر فرمایا اور ان کا جنازہ ادا کیا اور ان کی تعریف کی جس کے وہ مستحق تھے۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1429  
´مجرم اپنے اقرار سے پھر جائے تو اس سے حد ساقط کرنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں قبیلہ اسلم کے ایک آدمی نے آ کر زنا کا اعتراف کیا، تو آپ نے اس کی طرف سے منہ پھیر لیا، پھر اس نے اقرار کیا، آپ نے پھر منہ پھیر لیا، حتیٰ کہ اس نے خود چار مرتبہ اقرار کیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم پاگل ہو؟ اس نے کہا: نہیں، آپ نے پوچھا: کیا تم شادی شدہ ہو؟ اس نے کہا ہاں: پھر آپ نے رجم کا حکم دیا، چنانچہ اسے عید گاہ میں رجم کیا گیا، جب اسے پتھروں نے نڈھال کر دیا تو وہ بھاگ کھڑا ہوا، پھر اسے پکڑا گیا اور رج۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الحدود/حدیث: 1429]
اردو حاشہ:
وضاخت:


1؎:
بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرمﷺ نے اس کی صلاۃِ جنازہ پڑھی ہے،
تطبیق کی صورت یہ ہے کہ نفی کی روایت کو اس پر محمول کیا جائے گا کہ رجم والے دن آپ نے اس کی صلاۃِ جنازہ نہیں پڑھی،
جب کہ اثبات والی روایت کا مفہوم یہ ہے کہ دوسرے دن آپ نے اس کی صلاۃِ جنازہ پڑھی،
اس کی تائید صحیح مسلم کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو عمران بن حصین سے قبیلہ جہینہ کی اس عورت کے متعلق آئی ہے جس سے زنا کا عمل ہوا پھراسے رجم کیا گیا،
اور نبی اکرمﷺ نے اس کی صلاۃِ جنازہ پڑھی تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:
أَتُصَلِّي عَلَيْهَا وَقَدْ زَنَتْ؟ کیا اس زانیہ عورت کی صلاۃِ جنازہ آپ پڑھیں گے؟ آپﷺ نے فرمایا:
  «لَقَدْ تَابَتْ تَوْبَة لَوْ قُسِمَتْ بَيْنَ سَبْعِيْنَ لَوَسعَتْهُم» یعنی اس نے جو توبہ کی ہے اسے اگر ستر افراد کے درمیان بانٹ دیا جائے تووہ ان سب کے لیے کافی ہوگی،
عمران بن حصین کی یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے،
دیکھئے:
كتاب الحدود،
باب تربص الرجم بالحبلى حتى تضع،
حدیث رقم 1435۔

2؎:
اس سلسلہ میں صحیح قول یہ ہے کہ چار مرتبہ اقرار کی نوبت اس وقت پیش آتی ہے جب اقرار کرنے والے کی بابت عقلی وذہنی اعتبار سے کسی قسم کا اشتباہ ہوبصورت دیگر حد جاری کرنے کے لئے صرف ایک اقرار کافی ہے،
پوری حدیث باب الرجم علی الثیب کے تحت آگے آرہی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1429   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4420  
´ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ کے رجم کا بیان۔`
محمد بن اسحاق کہتے ہیں کہ میں نے عاصم بن عمر بن قتادہ سے ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ کے واقعہ کا ذکر کیا تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ مجھ سے حسن بن محمد بن علی بن ابی طالب نے بیان کیا ہے وہ کہتے ہیں: مجھے قبیلہ اسلم کے کچھ لوگوں نے جو تمہیں محبوب ہیں اور جنہیں میں متہم نہیں قرار دیتا بتایا ہے کہ «فهلا تركتموه» رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے، حسن کہتے ہیں: میں نے یہ حدیث سمجھی نہ تھی، تو میں جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کے پاس آیا، اور ان سے کہا کہ قبیلہ اسلم کے کچھ لوگ بیان کرتے ہیں کہ لوگوں نے پتھر پڑنے سے ماعز کی گھبراہٹ کا جب رسول الل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الحدود /حدیث: 4420]
فوائد ومسائل:
احادیث رسول میں کسی ایک متن کولے کرحکم لگانے سے پیشتر اس کی تمام روایات کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے اور طلبہ حدیث کو اس کا بہت زیادہ اہتمام کرنا چاہئے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4420   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6820  
6820. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ قبیلہ اسلم کا ایک آدمی نبی ﷺ کے پاس آیا اور زنا کا اقرار کیا۔ نبی ﷺ نے اس سے منہ پھیر لیا حتیٰ کہ اس نے اپنے خلاف چار بار گواہی دی تو نبی ﷺ نے اس سے پوچھا: کیا تو دیوانہ ہوگیا ہے۔ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا کیا تو شادی شدہ ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں۔ پھر آپ نے اس کے متعلق حکم دیا تو اسے عیدہ گاہ میں سنگسار کر دیا گیا۔ جب اس پر پتھر پڑے تو بھاگ نکلا لیکن اسے پکڑ لیا گیا اور رجم کیا گیا یہاں تک کہ وہ مر گیا۔ نبی ﷺ نے اس کے متعلق کلمہ خیر کیا اور اس کا جنازہ بھی پڑھا۔ یونس اور ابن جریج نے امام زہری سے نماز جنازہ پڑھنے کے الفاظ بیان نہیں کیے۔ ابو عبداللہ (امام بخاری ؓ) سے پوچھا گیا کہ نماز جنازہ پڑھنے کے الفاظ ثابت ہیں یا نہیں؟ تو انہوں نے فرمایا: معمر نے انہیں بیان کیا ہے پھر ان سے پوچھا گیا: معمر کے علاوہ کسی دوسرے راوی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6820]
حدیث حاشیہ:
(1)
مدینہ طیبہ کے قرب وجوار میں بقیع الغرقد کے پاس ایک مخصوص میدانی علاقہ تھا جہاں عیدین اور جنازے پڑھے جاتے تھے۔
عیدین کے موقع پر مخصوص ایام والی عورتیں بھی ایک طرف جمع ہوتی تھیں۔
تقدس واحترام میں یہ میدان مسجد کے حکم میں نہ تھا۔
بعض اوقات زنا کاروں کو حد لگانے کے لیے اسی میدانی علاقے کا انتخاب کیا جاتا تھا کیونکہ سنگسار کرنے کی سزا مسجد میں نہیں دی جا سکتی، اس لیے کہ اس سے مسجد خون یا پیشاب کی وجہ سے گندی ہوسکتی ہے۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ کا اس عنوان اور پیش کردہ حدیث سے مقصود یہی ہے کہ عید گاہ اور جنازہ گاہ کا حکم مسجد جیسا نہیں ہے کیونکہ اگر ان کا حکم مسجد جیسا ہوتا تو ان کے متعلق بھی ایسی چیزوں سے اجتناب کیا جاتا جن سے مسجد کو دور رکھا جاتا ہے۔
واللہ أعلم (فتح الباري: 158/12) (3)
واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے معمر بن راشد کی روایت یقین ووثوق کے ساتھ بیان کی ہے کیونکہ حضرت معمر بہت بڑے فقیہ، متقی اور قابل اعتماد ہیں۔
ایسے شخص کا اضافہ قابل قبول ہوتا ہے۔
بہرحال جسے رجم کیا جائے اس کا جنازہ پڑھا جا سکتا ہے۔
اس کی تفصیل پہلے کہیں بیان ہو چکی ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6820