صحيح البخاري
كتاب المحاربين -- کتاب: ان کفار و مرتدوں کے احکام میں جو مسلمانوں سے لڑتے ہیں
29. بَابُ سُؤَالِ الإِمَامِ الْمُقِرَّ هَلْ أَحْصَنْتَ:
باب: زنا کا اقرار کرنے والے سے امام کا پوچھنا کہ کیا تم شادی شدہ ہو؟
حدیث نمبر: 6826
قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: أَخْبَرَنِي مَنْ سَمِعَ جَابِرًا، قَالَ: فَكُنْتُ فِيمَنْ رَجَمَهُ، فَرَجَمْنَاهُ بِالْمُصَلَّى، فَلَمَّا أَذْلَقَتْهُ الْحِجَارَةُ، جَمَزَ حَتَّى أَدْرَكْنَاهُ بِالْحَرَّةِ، فَرَجَمْنَاهُ.
ابن شہاب نے بیان کیا کہ جنہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے حدیث سنی تھی انہوں نے مجھے خبر دی کہ جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں بھی ان لوگوں میں شامل تھا جنہوں نے انہیں رجم کیا تھا جب ان پر پتھر پڑے تو وہ بھاگنے لگے۔ لیکن ہم نے انہیں حرہ (حرہ مدینہ کی پتھریلی زمین) میں جا لیا اور انہیں رجم کر دیا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6826  
6826. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: میں بھی ان لوگوں میں شامل تھا جنہوں نے اسے سنگسار کیا۔ ہم نے اسے عیدگاہ میں رجم کیا۔ جب اس پر پتھروں کی بارش ہوئی تو بھاگ کھڑا ہوا لیکن ہم نے اسے مدینہ منورہ کی پتھریلی زمین میں جا لیا اور وہیں اس کو سنگسار کر دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6826]
حدیث حاشیہ:
باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے حضرت ماعز اسلمی رضی اللہ عنہ ہی مراد ہیں۔
اس حدیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بہت سے مسائل کا استنباط فرمایا ہے۔
تعجب ہے ان معاندین پر جو اتنے بڑے مجتہد کو درجہ اجتہاد سے گرا کر اپنے اندرونی عناد کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6826   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6826  
6826. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: میں بھی ان لوگوں میں شامل تھا جنہوں نے اسے سنگسار کیا۔ ہم نے اسے عیدگاہ میں رجم کیا۔ جب اس پر پتھروں کی بارش ہوئی تو بھاگ کھڑا ہوا لیکن ہم نے اسے مدینہ منورہ کی پتھریلی زمین میں جا لیا اور وہیں اس کو سنگسار کر دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6826]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ کسی شخص کے بارے میں فتویٰ پوچھنے نہیں آئے تھے بلکہ ان کے آنے کی غرض یہ تھی کہ میں نے زنا کیا ہے اور میرے متعلق شریعت کے تقاضے پورے کیے جائیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ست ڈھیروں سوال کیے جن میں ایک اہم سوال یہ تھا کہ کیا تو شادی شدہ ہے؟ کیونکہ رجم کے لیے شادی شدہ ہونا بنیادی شرط ہے۔
(2)
احصان یہ ہے کہ کسی عورت سے نکاح صحیح کے بعد جماع کر لیا جائے۔
یہ سوال اس وقت کرنا چاہیے جب اس کا شادی شدہ ہونا معروف نہ ہو۔
اگر اس کے شادی شدہ ہونے کی شہرت ہے تو اس قسم کا سوال کرنے کی ضرورت نہیں۔
بہرحال امام کو چاہیے کہ حد قائم کرنے سے پہلے مکمل تحقیق وتفتیش کے تقاضے اچھی طرح پورے کرے۔
سعودی عرب میں ایسا ہی کیا جاتا ہے۔
جب راقم الحروف تھانہ جیاد مکہ مکرمہ میں مترجم تھا تو اس چیز کا کئی مرتبہ مشاہدہ کیا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6826