صحيح البخاري
كتاب المحاربين -- کتاب: ان کفار و مرتدوں کے احکام میں جو مسلمانوں سے لڑتے ہیں
30. بَابُ الاِعْتِرَافِ بِالزِّنَا:
باب: زنا کا اقرار کرنا۔
حدیث نمبر: 6828
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَفِظْنَاهُ مِنْ فِي الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، وَزَيْدَ بْنَ خَالِدٍ، قَالَا: كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَامَ رَجُلٌ، فَقَالَ: أَنْشُدُكَ اللَّهَ إِلَّا قَضَيْتَ بَيْنَنَا بِكِتَابِ اللَّهِ، فَقَامَ خَصْمُهُ، وَكَانَ أَفْقَهَ مِنْهُ، فَقَالَ: اقْضِ بَيْنَنَا بِكِتَابِ اللَّهِ، وَأْذَنْ لِي، قَالَ:" قُلْ، قَالَ: إِنَّ ابْنِي كَانَ عَسِيفًا عَلَى هَذَا، فَزَنَى بِامْرَأَتِهِ فَافْتَدَيْتُ مِنْهُ بِمِائَةِ شَاةٍ وَخَادِمٍ، ثُمَّ سَأَلْتُ رِجَالًا مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ، فَأَخْبَرُونِي أَنَّ عَلَى ابْنِي جَلْدَ مِائَةٍ وَتَغْرِيبَ عَامٍ، وَعَلَى امْرَأَتِهِ الرَّجْمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَأَقْضِيَنَّ بَيْنَكُمَا بِكِتَابِ اللَّهِ جَلَّ ذِكْرُهُ، الْمِائَةُ شَاةٍ وَالْخَادِمُ رَدٌّ عَلَيْكَ، وَعَلَى ابْنِكَ جَلْدُ مِائَةٍ وَتَغْرِيبُ عَامٍ، وَاغْدُ يَا أُنَيْسُ عَلَى امْرَأَةِ هَذَا، فَإِنِ اعْتَرَفَتْ فَارْجُمْهَا" فَغَدَا عَلَيْهَا، فَاعْتَرَفَتْ فَرَجَمَهَا، قُلْتُ لِسُفْيَانَ: لَمْ يَقُلْ: فَأَخْبَرُونِي أَنَّ عَلَى ابْنِي الرَّجْمَ، فَقَالَ: الشَّكُّ فِيهَا مِنْ الزُّهْرِيِّ، فَرُبَّمَا قُلْتُهَا، وَرُبَّمَا سَكَتُّ.
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، کہا ہم نے اسے زہری سے (سن کر) یاد کیا، انہوں نے بیان کیا کہ مجھے عبیداللہ نے خبر دی، انہوں نے ابوہریرہ اور زید بن خالد رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے تو ایک صاحب کھڑے ہوئے اور کہا میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں آپ ہمارے درمیان اللہ کی کتاب سے فیصلہ کریں۔ اس پر اس کا مقابل بھی کھڑا ہو گیا اور وہ پہلے سے زیادہ سمجھدار تھا، پھر اس نے کہا کہ واقعی آپ ہمارے درمیان کتاب اللہ سے ہی فیصلہ کیجئے اور مجھے بھی گفتگو کی اجازت دیجئیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کہو، اس شخص نے کہا کہ میرا بیٹا اس شخص کے یہاں مزدوری پر کام کرتا تھا پھر اس نے اس کی عورت سے زنا کر لیا، میں نے اس کے فدیہ میں اسے سو بکری اور ایک خادم دیا، پھر میں نے بعض علم والوں سے پوچھا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ میرے لڑکے پر سو کوڑے اور ایک سال شہر بدر ہونے کی حد واجب ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں تمہارے درمیان کتاب اللہ ہی کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ سو بکریاں اور خادم تمہیں واپس ہوں گے اور تمہارے بیٹے کو سو کوڑے لگائے جائیں گے اور ایک سال کے لیے اسے جلا وطن کیا جائے گا اور اے انیس! صبح کو اس کی عورت کے پاس جانا اگر وہ (زنا کا) اقرار کر لے تو اسے رجم کر دو۔ چنانچہ وہ صبح کو اس کے پاس گئے اور اس نے اقرار کر لیا اور انہوں نے رجم کر دیا۔ علی بن عبداللہ مدینی کہتے ہیں میں نے سفیان بن عیینہ سے پوچھا جس شخص کا بیٹا تھا اس نے یوں نہیں کہا کہ ان عالموں نے مجھ سے بیان کیا کہ تیرے بیٹے پر رجم ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھ کو اس میں شک ہے کہ زہری سے میں نے سنا ہے یا نہیں، اس لیے میں نے اس کو کبھی بیان کیا کبھی نہیں بیان کیا بلکہ سکوت کیا۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 20  
´حدیث بھی کتاب اللہ ہے`
«. . . قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اما والذي نفسي بيده لاقضين بينكما بكتاب الله. اما غنمك وجاريتك فرد إليك . . .»
. . . رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس اﷲ کی قسم جس کی ہاتھ میں میری جان ہے، میں تم دونوں کے درمیان کتاب اﷲ کے مطابق فیصلہ کروں گا، تیری بکریاں اور تیری لونڈی تو تجھے واپس ملے گی . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 20]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 6633, 6634، من حديث ما لك به ورواه مسلم 1697/25, 1698 من حديث الزهري به]

تفقه:
➊ شادی شدہ زانی کی سزا رجم سنگسار کرنا ہے۔ نیز دیکھئے: [الموطأ ح: 41، البخاري 6749، ومسلم 1457]
➋ رجم کا صریحاً ذکر قرآن مجید میں نہیں ہے البتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد میں تم دونوں کے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کروں گا سے معلوم ہوا کہ حدیث بھی کتاب اللہ ہے لہٰذا رجم کا منکر گویا کتاب الله کا منکر ہے۔
➌ تمام اختلافات کا فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق کرنا چاہئے۔ امام سفیان بن عینیہ مکی رحمہ الله فرماتے تھے:
«إن رسول الله صلَّى اللهُ عَليهِ وسَلمَ هو الميزان الأكبر، فعليه تعرض الأشياء، على خلقه وسيرته وهديه فما وافقها فهو الحق وما خالفها فهو الباطل»
بےشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میزان اکبر ہیں۔ پس ہر چیز کو آپ پر پیش کیا جائے گا۔ آپ کے اخلاق پر، آپ کی سیرت پر اور آپ کے طریقے پر، پس جو کچھ اس کے مطابق ہے تو وہی حق ہے اور جو کچھ اس کے خلاف ہے تو وہی باطل ہے۔ [الجامع لاخلاق الراوي و آداب السامع للخطيب 79/1 ح 8 وسنده حسن]
➍ غیر شادی شدہ زانی کو کوڑے لگانے کے ساتھ ایک سال جلا وطنی کی سزا بھی دی جا سکتی ہے۔ سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ دونوں نے زنا کرنے والے (غیر شادی شدہ) کو کوڑے بھی لگائے اور جلا وطن بھی کیا۔ دیکھئے: [السنن الكبريٰ للبيهقي 223/8 وسنده صحيح، والجامع للترمذي 1438، وقال: غريب وسنده صحيح]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ایک (زانی) آدمی کو جلا وطن کیا۔ [سنن الكبريٰ للبيهقي 223/8 وسنده صحيح]
سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
«البكران يجلدان وينفيان و الثيبان يرجمان»
غیر شادی شدہ زانیوں کو کوڑے لگائے جاتے ہیں اور جلا وطن کیا جاتا ہے اور شادی شدہ زانیوں کو سنگسار کیا جا تا ہے۔ [اسنن الكبريٰ للبيهقي 223/8 وسنده صحيح]
➎ حافظ ابن عبد البر فرماتے تھے:
«وأما أهل البدع فأكثرهم ينكر الرجم ويدفعه ولا يقول به فى شي من الزناة ثيباً ولا غير ثيب»
اہل بدعت کی اکثریت رجم کا انکار کرتی ہے اور اسے تسلیم نہیں کرتی۔ یہ لوگ (اہل بدعت) ہر قسم کے زانیوں کے بارے میں سنگسار کے قائل نہیں ہیں چاہے وہ شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ۔ [التمهيد 83/9]
◄ معلوم ہوا کہ شادی شدہ زانی کے بارے میں رجم (سنگسار) کی سزا کا انکار بدعت ہے۔
➏ بعض علماء فتنے کے خوف کی وجہ سے زنا کرنے والی عورت کو جلا وطن کرنے کے خلاف ہیں۔ دیکھئے: [التمهيد 883/9]
➐ اقامت حد کے لئے مرتکب زنا کا چار مرتبہ اعتراف ضروری نہیں بلکہ اس کا ایک دفعہ کا اقرار بھی کافی ہے۔
➑ خبر واحد حجت ہے۔
➒ قاضی کا فیصلہ احکام میں نافذ ہوتا ہے۔
➓ کتاب و سنت کے خلاف ہر فیصلہ باطل اور مردود ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 54   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2549  
´زنا کی حد کا بیان۔`
ابوہریرہ، زید بن خالد اور شبل رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے کہ ایک شخص آپ کے پاس آیا، اور بولا: میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں، اللہ کی کتاب کے مطابق آپ ہمارا فیصلہ کر دیجئیے، اس کا فریق (مقابل) جو اس سے زیادہ سمجھ دار تھا، بولا: آپ ہمارا فیصلہ اللہ کی کتاب کے مطابق فرمائیے لیکن مجھے کچھ کہنے کی اجازت دیجئیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہو اس نے بیان کیا کہ میرا بیٹا اس آدمی کے یہاں مزدور تھا، اس نے اس کی بیوی سے زنا کر لیا، میں نے اس کی جانب سے سو بکریاں اور ایک نوکر فدیہ میں دے دیا ہے، پھر میں ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الحدود/حدیث: 2549]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
کتاب اللہ سے مراد قرآن مجید اورحدیث شریف دونوں ہیں کیونکہ یہ دونوں اللہ کی طرف سے ہیں اس ليے ہم نے کتاب اللہ کا ترجمہ اللہ کا قانون کیا ہے۔

(2)
قتل وغیرہ کے مقدمات میں فریقین میں صلح ہو سکتی ہے خواہ ہدیت دینے کی شرط پر صلح ہو یا ویسے معاف کر دیا جائے۔
لیکن زنا کا مقدمہ قابل مصالحت نہیں۔

(3)
غیر شادی شدہ زانی کی سزا سو کوڑے اور ایک سال جلا وطنی ہے۔

(4)
شادی شدہ زانی کی سزا رجم یعنی سنگسارکرنا ہے۔

(5)
زنا کا جرم جس طرح چشم دید گواہ کی گواہی سے ثابت ہوتا ہے اس طرح اقرارجرم سے بھی ثابت ہوجاتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2549   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1433  
´شادی شدہ کو رجم (سنگسار) کرنے کا بیان۔`
ابوہریرہ، زید بن خالد اور شبل رضی الله عنہم سے روایت ہے کہ یہ لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے، اسی دوران آپ کے پاس جھگڑتے ہوئے دو آدمی آئے، ان میں سے ایک کھڑا ہوا اور بولا: اللہ کے رسول! میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں! آپ ہمارے درمیان کتاب اللہ کے موافق فیصلہ کیجئے (یہ سن کر) مدعی علیہ نے کہا اور وہ اس سے زیادہ سمجھدار تھا، ہاں، اللہ کے رسول! ہمارے درمیان آپ کتاب اللہ کے موافق فیصلہ کیجئے، اور مجھے مدعا بیان کرنے کی اجازت دیجئیے، (چنانچہ اس نے بیان کیا) میرا لڑکا اس کے پاس مزدور تھا، چنانچہ وہ اس کی بیوی کے ساتھ زنا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الحدود/حدیث: 1433]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس لڑکے کا کام صرف اپنے مالک کے کاموں اور اس کی ضرورتوں کو پورا کرنا ہی نہیں تھا بلکہ وہ مالک کی اجازت سے اس کی بیوی کے کاموں میں بھی معاون تھا،
چنانچہ اس کے ساتھ جو یہ حادثہ پیش آیا اس کا سبب یہی تھا۔
اس لیے تنہائی میں عورت کے پاس غیر محرم مرد کا دخول منع ہے۔

2؎:
کیوں کہ یہ غیر شادی شدہ ہے۔

3؎:
کیوں کہ یہ شادی شدہ ہے۔

4؎:
یہ انیس بن ضحاک اسلمی ہیں۔

5؎:
عورت چونکہ شادی شدہ تھی اس لیے اسے پتھر مارمار کر ہلاک کردیا گیا،
اور لڑکا شادی شدہ نہیں تھا اس لیے اس کے لیے ایک سال کی جلاوطنی اور سوکوڑوں کی سزا متعین کی گئی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1433   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4445  
´قبیلہ جہینہ کی ایک عورت کا ذکر جسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کرنے کا حکم دیا۔`
ابوہریرہ اور زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ دو آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جھگڑا لے گئے، ان میں سے ایک نے کہا: اللہ کے رسول! ہمارے مابین اللہ کی کتاب کی روشنی میں فیصلہ فرما دیجئیے، اور دوسرے نے جو ان دونوں میں زیادہ سمجھ دار تھا کہا: ہاں، اللہ کے رسول! ہمارے درمیان اللہ کی کتاب سے فیصلہ فرمائیے، لیکن پہلے مجھے کچھ کہنے کی اجازت دیجئیے، آپ نے فرمایا: اچھا کہو اس نے کہنا شروع کیا: میرا بیٹا اس کے یہاں «عسیف» یعنی مزدور تھا، اس نے اس کی بیوی سے زنا کر لیا تو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الحدود /حدیث: 4445]
فوائد ومسائل:
1) قاضی کو یہ حق حاصل ہے کہ مقدمے کے فریقین میں سے کسی سے بھی مقدمہ سننے کی ابتدا کر سکتا ہے۔

2) جب کسی ادنی درجے کے مفتی نےفتویٰ دیا ہو تو اس سے بڑھ کر اعلی صاحب علم سے رجوع کرلینا کوئی معیوب نہیں ہے اور پہلے کا فتوی دینا بھی کوئی عیب نہیں.
3) رسول اللہﷺ کےسب فیصلے اور فرامین کتاب اللہ کی تفسیر ہونے کی بنا پر کتاب اللہ کی تفسیر ہونے کی بنا پر کتاب اللہ ہی کا حصہ ہے، بشرطیکہ صحیح سند سے ثابت ہوں۔

4) ہر ایسی صلح یا بیع جو غیر شرعی اصولوں پر ہوئی ہو ٹوٹ جاتی ہےاور اس سلسلے میں لیا گیا تاوان بھی واپس کر نا ہوتا ہے۔

5) غیر شادی شدہ زانی پر سوکوڑے ایک سال شہر بدری ہے۔

6) شادی شدہ زانی پر صرف رجم ہے کوڑے نہیں۔

7) زنا کی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان فرقت نہیں آجاتی۔

8) حاکم یا قاضی کا نائب حدود کی تنقیذ کرسکتا ہے۔
(خطابی)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4445   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6828  
6828 [صحيح بخاري، حديث نمبر:6828]
حدیث حاشیہ:
(1)
جس لڑکے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سو کوڑے لگانے اور جلاوطن کرنے کا فیصلہ فرمایا وہ اپنے والد کے ہمراہ وہاں موجود تھا، چنانچہ والد نے کہا کہ میرے اس بیٹے نے اس کی بیوی سے زنا کیا ہے اور والد کے کلام کرتے وقت اس کا خاموش رہنا اپنے جرم کا اعتراف کرنا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے غیر شادی شدہ ہونے کا بھی علم تھا کیونکہ بعض روایات میں ہے کہ اس کے والد نے اس کے متعلق وضاحت کی تھی کہ وہ شادی شدہ نہیں ہے۔
(2)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلۂ اسلم کے ایک شخص کو اس عورت کے پاس بھیجا کیونکہ اس آدمی نے اس عورت پر زنا کی تہمت لگائی تھی، لہٰذا اسے حق پہنچتا ہے کہ تہمت لگانے والے پر حد کا مطالبہ کرے یا اسے معاف کردے یا زنا کا اعتراف کرے۔
(3)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حد زنا کے لیے مطلق اقرار کافی ہے، اس کے لیے تکرار کی ضرورت نہیں ہے۔
(فتح الباري: 172/12)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ پردہ دار خاتون جو باہر نکلنے کی عادی نہیں اسے حاکم کی مجلس میں حاضر ہونے کی تکلیف نہ دی جائے بلکہ اس کے پاس کوئی آدمی بھیج دیا جائے جو حالات کا جائزہ لے کر کوئی فیصلہ کرے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6828