صحيح البخاري
كِتَاب الْأَذَانِ -- کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
43. بَابُ إِذَا دُعِيَ الإِمَامُ إِلَى الصَّلاَةِ وَبِيَدِهِ مَا يَأْكُلُ:
باب: جب امام کو نماز کے لیے بلایا جائے اور اس کے ہاتھ میں کھانے کی چیز ہو تو وہ کیا کرے؟
حدیث نمبر: 675
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ، عَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي جَعْفَرُ بْنُ عَمْرِو بْنِ أُمَيَّةَ، أَنَّ أَبَاهُ، قَالَ:" رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْكُلُ ذِرَاعًا يَحْتَزُّ مِنْهَا، فَدُعِيَ إِلَى الصَّلَاةِ، فَقَامَ فَطَرَحَ السِّكِّينَ فَصَلَّى وَلَمْ يَتَوَضَّأْ".
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابراہیم بن سعد نے صالح بن کیسان سے بیان کیا، انہوں نے ابن شہاب سے، انہوں نے کہا کہ مجھ کو جعفر بن عمرو بن امیہ نے خبر دی کہ ان کے باپ عمرو بن امیہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بکری کی ران کا گوشت کاٹ کاٹ کر کھا رہے تھے۔ اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے بلائے گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور چھری ڈال دی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی اور وضو نہیں کیا۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1836  
´چھری سے گوشت کاٹنے کی رخصت کا بیان۔`
عمرو بن امیہ ضمری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے بکری کی دست کا گوشت چھری سے کاٹا، اور اس میں سے کھایا، پھر نماز کے لیے تشریف لے گئے اور وضو نہیں کیا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأطعمة/حدیث: 1836]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس سے معلوم ہواکہ چھری سے کاٹ کر گوشت کھایا جا سکتا ہے،
طبرانی اور ابوداؤد میں ہے کہ چھری سے گوشت کاٹ کر مت کھاؤ کیوں کہ یہ عجمیوں کا طریقہ ہے،
لیکن یہ روایتیں ضعیف ہیں،
ان سے استدلال درست نہیں،
نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ آگ سے پکی چیز کھانے سے وضوء نہیں ٹوٹتا،
کیوں کہ آپ ﷺ نے گوشت کھاکر وضو نہیں کیا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1836   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 675  
675. حضرت عمرو بن امیہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو شانے کا گوشت کاٹ کاٹ کر کھاتے ہوئے دیکھا، اتنے میں آپ کو نماز کے لیے بلایا گیا، آپ نے چھری کو وہیں پھینک دیا اور نماز کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے، چنانچہ آپ نے نماز پڑھائی اور وضو نہیں کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:675]
حدیث حاشیہ:
اس باب اور ا س کے تحت اس حدیث کے لانے سے حضرت امام بخاری ؒ کا یہ ثابت کرنا منظور ہے کہ پچھلی حدیث کا حکم استحباباً تھا وجوباً نہ تھا۔
ورنہ آنحضرت ﷺ کھانا چھوڑ کر نماز کے لیے کیوں جاتے بعض کہتے ہیں کہ امام کا حکم علیحدہ ہے۔
اسے کھانا چھوڑ کر نماز کے لیے جانا چاہئے۔
حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ گوشت کھانے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 675   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:675  
675. حضرت عمرو بن امیہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو شانے کا گوشت کاٹ کاٹ کر کھاتے ہوئے دیکھا، اتنے میں آپ کو نماز کے لیے بلایا گیا، آپ نے چھری کو وہیں پھینک دیا اور نماز کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے، چنانچہ آپ نے نماز پڑھائی اور وضو نہیں کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:675]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس عنوان اور حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تقدیم طعام کا حکم بطور استحباب ہے۔
بعض حضرات نے اس سلسلے میں اس طرح وضاحت کی ہے کہ تقدیم طعام کی اجازت اس شخص کے لیے ہے جس نے ابھی کھانا شروع نہیں کیا اور جس نے اقامت سے پہلے کھانا شروع کردیا تھا، پھر نماز کے لیے تکبیر ہوئی تو اسے نماز کے لیے اٹھ جانا چاہیے جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔
گویا امام بخاری ؒ کے نزدیک دونوں صورتوں کا حکم الگ الگ ہے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ امام بخاری کے نزدیک امام اور غیر امام کا حکم الگ الگ ہو، یعنی تقدیم طعام کا حکم عام لوگوں کےلیے ہے اور امام کے لیے یہ ہے کہ وہ پہلے نماز پڑھائے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اسی وقت کھانا چھوڑ دیا تھا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ عام آدمی اگر کھانے میں مشغول رہتا ہے تو اس کی وجہ سے لوگ پریشان ہوں گے اور انھیں بلاوجہ انتظار کی زحمت برداشت کرنا پڑے گی۔
(2)
علامہ سندھی لکھتے ہیں کہ تقدیم طعام اس صورت میں ہے جب بھوک شدید ہو اور کھانا چھوڑ کر نماز شروع کرنے میں خشوع کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ ؓ اور حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ وہ کھانا کھا رہے تھے اور تنور میں گوشت بھونا جا رہا تھا، اتنے میں مؤذن نے تکبیر کہنے کا ارداہ کیا تو حضرت ابن عباس ؓ نے اسے فرمایا:
جلدی مت کرو! مبادا دوران نماز میں ہمارا خیال ادھر رہے۔
البتہ جب نمازی اپنی اس قدر حاجت پوری کرچکا ہو کہ خشوع کے فوت ہونے کا اندیشہ نہ ہو تو نماز کو مقدم رکھنا چاہیے۔
(حاشیة السندي: 123/1)
کھانا کھانے کی رخصت کو انتہائی مجبوری کی صورت پر محمول کرنا چاہیے، اسے عادت اور معمول نہیں بنانا چاہیے۔
اور بلاوجہ نماز باجماعت ترک نہیں کرنی چاہیے۔
انسان کو دنیا میں زیادہ سے زیادہ اعمال خیر ذخیرہ کرنے چاہئیں تاکہ قیامت کے دن کام آئیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے ﴿وَلْتَنظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ﴾ ہر شخص کو سوچنا چاہیے کہ اس نے کل آخرت کے لیے کیا ذخیرہ کیا ہے؟
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 675