صحيح البخاري
كِتَاب الْأَذَانِ -- کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
46. بَابُ أَهْلُ الْعِلْمِ وَالْفَضْلِ أَحَقُّ بِالإِمَامَةِ:
باب: امامت کرانے کا سب سے زیادہ حقدار وہ ہے جو علم اور (عملی طور پر بھی) فضیلت والا ہو۔
حدیث نمبر: 682
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ حَمْزَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:" لَمَّا اشْتَدَّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَعُهُ قِيلَ لَهُ فِي الصَّلَاةِ، فَقَالَ: مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ، قَالَتْ عَائِشَةُ: إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ رَقِيقٌ إِذَا قَرَأَ غَلَبَهُ الْبُكَاءُ، قَالَ: مُرُوهُ فَيُصَلِّي، فَعَاوَدَتْهُ، قَالَ: مُرُوهُ فَيُصَلِّي، إِنَّكُنَّ صَوَاحِبُ يُوسُفَ"، تَابَعَهُ الزُّبَيْدِيُّ، وَابْنُ أَخِي الزُّهْرِيِّ، وَإِسْحَاقُ بْنُ يَحْيَى الْكَلْبِيُّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، وَقَالَ عُقَيْلٌ، وَمَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ حَمْزَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یونس بن یزید ایلی نے ابن شہاب سے بیان کیا، انہوں نے حمزہ بن عبداللہ سے، انہوں نے اپنے باپ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے خبر دی کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری شدت اختیار کر گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز کے لیے کہا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوبکر سے کہو کہ وہ نماز پڑھائیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ ابوبکر کچے دل کے آدمی ہیں۔ جب وہ قرآن مجید پڑھتے ہیں تو بہت رونے لگتے ہیں۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان ہی سے کہو کہ نماز پڑھائیں۔ دوبارہ انہوں نے پھر وہی عذر دہرایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ ان سے نماز پڑھانے کے لیے کہو۔ تم تو بالکل صواحب یوسف کی طرح ہو۔ اس حدیث کی متابعت محمد بن ولید زبیدی اور زہری کے بھتیجے اور اسحاق بن یحییٰ کلبی نے زہری سے کی ہے اور عقیل اور معمر نے زہری سے، انہوں نے حمزہ بن عبداللہ بن عمر سے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 682  
682. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ کی بیماری شدت اختیار کر گئی، اس دوران میں آپ سے نماز کا کہا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا: ابوبکر سے کہو، وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں۔ حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے عرض کیا: ابوبکر صدیق ؓ بہت نرم دل آدمی ہیں، جب قراءت کریں گے تو شدت غم سے رونے لگیں گے۔ آپ نے فرمایا: انہی سے کہو، وہ نماز پڑھائیں۔ حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے پھر وہی بات دہرائی۔ اس پر آپ نے فرمایا: ان سے کہو، وہ نماز پڑھائیں، تم تو بالکل یوسف ؑ کے ساتھ والی عورتیں معلوم ہوتی ہو۔ اس حدیث کی متابعت محمد بن ولید زبیدی، زہری کے بھتیجے اور اسحاق بن یحییٰ کلبی نے زہری سے کی ہے۔ اور عقیل اور معمر نے بھی زہری سے، انہوں نے حمزہ بن عبداللہ بن عمر سے، انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے بیان کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:682]
حدیث حاشیہ:
ان جملہ احادیث سے امام بخاری ؒ کا مقصد یہی ہے کہ امامت اس شحص کو کرانی چاہئے جو علم میں ممتاز ہو۔
یہ ایک اہم ترین منصب ہے جو ہر کس و ناکس کے لیے مناسب نہیں۔
حضرت صدیقہ کا خیال تھا کہ والد محترم حضور کی جگہ کھڑے ہوں اور حضور کی وفات ہو جائے تو لوگ کیا کیا خیالات پیدا کریں گے۔
اس لیے بار بار وہ عذر پیش کرتی رہیں مگر اللہ پاک کو یہ منظور تھا کہ آنحضرت ﷺ کے بعد اولین طور پر اس گدی کے مالک حضرت صدیق اکبر ؓ ہی ہو سکتے ہیں، اس لیے آپ ہی کا تقرر عمل میں آیا۔
زبیدی کی روایت کو طبرانی نے اور زہری کے بھتیجے کی روایت کو ابن عدی نے اور اسحاق کی روایت کو ابوبکر بن شاذان نے وصل کیا۔
عقیل اور معمر نے اس حدیث کو مرسلاً روایت کیا کیوں کہ حمزہ بن عبداللہ نے آنحضرت ﷺ کو نہیں پایا۔
عقیل کی روایت کو ابن سعد اور ابولیلیٰ نے وصل کیا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 682   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:682  
682. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ کی بیماری شدت اختیار کر گئی، اس دوران میں آپ سے نماز کا کہا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا: ابوبکر سے کہو، وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں۔ حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے عرض کیا: ابوبکر صدیق ؓ بہت نرم دل آدمی ہیں، جب قراءت کریں گے تو شدت غم سے رونے لگیں گے۔ آپ نے فرمایا: انہی سے کہو، وہ نماز پڑھائیں۔ حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے پھر وہی بات دہرائی۔ اس پر آپ نے فرمایا: ان سے کہو، وہ نماز پڑھائیں، تم تو بالکل یوسف ؑ کے ساتھ والی عورتیں معلوم ہوتی ہو۔ اس حدیث کی متابعت محمد بن ولید زبیدی، زہری کے بھتیجے اور اسحاق بن یحییٰ کلبی نے زہری سے کی ہے۔ اور عقیل اور معمر نے بھی زہری سے، انہوں نے حمزہ بن عبداللہ بن عمر سے، انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے بیان کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:682]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ اور حضرت حفصہ ؓ سے فرمایا کہ تم تو یوسف ؑ کے ساتھ والی عورتیں معلوم ہوتی ہو۔
شارحین نے اس جملے کے متعدد مفہوم بیان کیے ہیں:
٭جس طرح حضرت یوسف ؑ سے مصر کی عورتیں ان کی مرضی کے خلاف گفتگو کرتی تھیں تم نے بھی وہی کردار ادا کیا ہے٭ حضرت یوسف ؑ اور خیال میں تھے اور خواتین مصر دوسرے خیال میں تھیں، اسی طرح تمھارے اور میرے خیالات میں ہم آہنگی اور یکسانیت نہیں۔
٭یوسف ؑ کے وقت کی عورتیں اپنی ہی بات چلایا کرتیں تھیں تم نے بھی وہی وتیرہ اپنایا ہوا ہے۔
(2)
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ خود حضرت ابو بکر ؓ نے اپنی بیٹی حضرت عائشہ ؓ سے کہا تھا کہ وہ رسول اللہ ﷺ سے اس سلسلے میں گفتگو کرے کیونکہ میں اس بار گراں کا متحمل نہیں ہوں۔
اتنے میں حضرت ابو بکر ؓ کے پاس حضرت بلال آئے اور انھیں جماعت کے لیے کہا تو انھوں نے حضرت عمر ؓ سے فرمایا کہ اے عمر!آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔
حضرت عمر ؓ نے جواب دیا کہ آپ ہی اس منصب کے حق دار ہیں۔
(فتح الباري: 199/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 682