مسند احمد
مسنَد المكثِرِینَ مِنَ الصَّحَابَةِ -- 0
35. مُسْنَدُ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ
0
حدیث نمبر: 14417
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ ، أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ: كَسَفَتْ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ ذَلِكَ الْيَوْمَ الَّذِي مَاتَ فِيهِ إِبْرَاهِيمُ ابْنُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّاسُ: إِنَّمَا كَسَفَتْ الشَّمْسُ لِمَوْتِ إِبْرَاهِيمَ، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى بِالنَّاسِ سِتَّ رَكَعَاتٍ فِي أَرْبَعِ سَجَدَاتٍ، كَبَّرَ ثُمَّ قَرَأَ، فَأَطَالَ الْقِرَاءَةَ، ثُمَّ رَكَعَ نَحْوًا مِمَّا قَامَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَرَأَ دُونَ الْقِرَاءَةِ الْأُولَى، ثُمَّ رَكَعَ نَحْوًا مِمَّا قَامَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَقَرَأَ دُونَ الْقِرَاءَةِ الثَّانِيَةِ، ثُمَّ رَكَعَ نَحْوًا مِمَّا قَامَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، فَانْحَدَرَ لِلسُّجُودِ، فَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ، ثُمَّ قَامَ فَرَكَعَ ثَلَاثَ رَكَعَاتٍ قَبْلَ أَنْ يَسْجُدَ، لَيْسَ فِيهَا رَكْعَةٌ إِلَّا الَّتِي قَبْلَهَا أَطْوَلُ مِنَ الَّتِي بَعْدَهَا، إِلَّا أَنَّ رُكُوعَهُ نَحْوٌ مِنْ قِيَامِهِ، ثُمَّ تَأَخَّرَ فِي صَلَاتِهِ، وَتَأَخَّرَتْ الصُّفُوفُ مَعَهُ، ثُمَّ تَقَدَّمَ فَقَامَ فِي مَقَامِهِ، وَتَقَدَّمَتْ الصُّفُوفُ، فَقَضَى الصَّلَاةَ وَقَدْ طَلَعَتْ الشَّمْسُ، فَقَالَ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَإِنَّهُمَا لَا يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ بَشَرٍ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ، فَصَلُّوا حَتَّى تَنْجَلِيَ، إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ شَيْءٍ تُوعَدُونَهُ، إِلَّا قَدْ رَأَيْتُهُ فِي صَلَاتِي هَذِهِ، وَلَقَدْ جِيءَ بِالنَّارِ، فَذَلِك حِينَ رَأَيْتُمُونِي تَأَخَّرْتُ، مَخَافَةَ أَنْ يُصِيبَنِي مِنْ لَفْحِهَا، حَتَّى قُلْتُ: أَيْ رَبِّ، وَأَنَا فِيهِمْ؟ وَرَأَيْتُ فِيهَا صَاحِبَ الْمِحْجَنِ يَجُرُّ قُصْبَهُ فِي النَّارِ، كَانَ يَسْرِقُ الْحَاجَّ بِمِحْجَنِهِ، فَإِنْ فُطِنَ بِهِ، قَالَ: إِنَّمَا تَعَلَّقَ بِمِحْجَنِي، وَإِنْ غُفِلَ عَنْهُ ذَهَبَ بِهِ، وَحَتَّى رَأَيْتُ فِيهَا صَاحِبَةَ الْهِرَّةِ الَّتِي رَبَطَتْهَا، فَلَمْ تُطْعِمْهَا، وَلَمْ تَتْرُكْهَا، تَأْكُلُ مِنْ خَشَاشِ الْأَرْضِ، حَتَّى مَاتَتْ جُوعًا، وَجِيءَ بِالْجَنَّةِ، فَذَلِكَ حِينَ رَأَيْتُمُونِي تَقَدَّمْتُ حَتَّى قُمْتُ فِي مَقَامِي، فَمَدَدْتُ يَدِي وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أَتَنَاوَلَ مِنْ ثَمَرِهَا لِتَنْظُرُوا إِلَيْهِ، ثُمَّ بَدَا لِي أَنْ لَا أَفْعَلَ".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں سورج گرہن ہوا یہ وہی دن تھا جس دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے سیدنا ابراہیم کا انتقال ہوا اور لوگ آپس میں کہنے لگے کہ ابراہیم کی موت کی وجہ سے سورج کو بھی گرہن لگ گیا، ادھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم تیار ہوئے اور لوگوں کو چھ رکوع کے ساتھ چار سجدے کرائے، چنانچہ پہلی رکعت میں تکبیر کہہ کر طویل قرأت کی پھر اتنا ہی طویل رکوع کیا پھر سر اٹھا کر پہلے کچھ کم طویل قرأت کی پھر بقدر قیام رکوع کیا پھر رکوع سے سر اٹھا کر دوسری قرأت سے کچھ کم طویل قرأت کی پھر بقدر قیام رکوع کیا پھر سر اٹھا کر سجدے میں چلے گئے دو سجدے کئے اور پھر کھڑے ہو کر دوسری رکعت کے سجدے میں جانے سے قبل حسب مذکور تین مرتبہ رکوع کیا جس میں پہلا رکوع بعد والے کی نسبت زیادہ لمبا تھا البتہ ہر رکوع بقدر قیام ہوتا تھا، پھر دوران نماز ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیچھے ہٹنے لگے جس پر لوگوں کی صفیں بھی پیچھے ہٹنے لگیں کچھ دیر بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھ کر اپنی جگہ پر کھڑے ہو گئے اور لوگوں کی صفیں بھی آگے بڑھ گئیں جب نماز مکمل ہوئی تو سورج گرہن ختم ہو چکا تھا اور سورج نکل آیا تھا۔ اس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگو چاند اور سورج اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں جو کسی انسان کی موت سے نہیں گہن ہوتیں جب تم کوئی ایسی چیز دیکھا کرو تو اس وقت نماز پڑھتے رہا کرو جب تک گہن ختم نہ ہو جائے کیونکہ تم سے جس جس چیز کا وعدہ کیا گیا ہے، وہ سب چیزیں میں نے اپنی اس نماز کے دوران دیکھی ہیں چنانچہ جہنم کو بھی لایا گیا ہے یہ وہی وقت تھا جب تم نے مجھے پیچھے ہٹتے ہوئے دیکھا تھا کیونکہ اندیشہ تھا کہ کہیں اس کی لپٹ مجھے نہ لگ جائے حتی کہ میں نے عرض کیا: پروردگار ابھی تو میں ان کے درمیان موجود ہوں پھر جہنم کا اتنا زیادہ قرب؟ میں نے جہنم میں ایک لاٹھی والے کو بھی دیکھاجو جہنم میں اپنی لاٹھی گھسیٹ رہا تھا یہ اپنی لاٹھی کے ذریعے حجاج کرام کا مال چراتا تھا اگر کسی کو پتہ چل جاتا تو یہ کہہ دیتا کہ یہ سامان میری لاٹھی سے چپک کر آگیا ہے اور اگر کوئی غافل ہوتا تو یہ اس پر سامان اس طرح لے جاتا میں نے اس میں اس بلی والی عورت کو بھی دیکھا ہے جس نے اسے باندھ دیا تھا خود اسے نہ کچھ کھلایا اور نہ ہی اسے چھوڑا کہ وہ خود ہی زمین کے کیڑے مکوڑے کھا کر اپنا پیٹ پالتی حتی کہ اس حال میں وہ مر گئی اسی طرح میرے سامنے جنت کو بھی لایا گیا۔ یہ وہی وقت تھا جب تم نے مجھے آگے بڑھتے ہوئے اپنی جگہ کھڑے ہوئے دیکھا تھا میں نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور ارادہ کیا کہ اس کے کچھ پھل توڑ لوں تاکہ تم بھی دیکھ سکو لیکن پھر مجھے ایسا کرنا مناسب نہ لگا۔