صحيح البخاري
كِتَاب اسْتِتَابَةِ الْمُرْتَدِّينَ وَالْمُعَانِدِينَ وَقِتَالِهِمْ -- کتاب: باغیوں اور مرتدوں سے توبہ کرانے کا بیان
2. بَابُ حُكْمِ الْمُرْتَدِّ وَالْمُرْتَدَّةِ:
باب: مرتد مرد اور مرتد عورت کا حکم۔
، وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ، وَالزُّهْرِيُّ، وَإِبْرَاهِيمُ: تُقْتَلُ الْمُرْتَدَّةُ، وَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ قَوْمًا كَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ وَشَهِدُوا أَنَّ الرَّسُولَ حَقٌّ وَجَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَاللَّهُ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ {86} أُولَئِكَ جَزَاؤُهُمْ أَنَّ عَلَيْهِمْ لَعْنَةَ اللَّهِ وَالْمَلائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ {87} خَالِدِينَ فِيهَا لا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلا هُمْ يُنْظَرُونَ {88} إِلا الَّذِينَ تَابُوا مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ وَأَصْلَحُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ {89} إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ ثُمَّ ازْدَادُوا كُفْرًا لَنْ تُقْبَلَ تَوْبَتُهُمْ وَأُولَئِكَ هُمُ الضَّالُّونَ {90} سورة آل عمران آية 86-90، وَقَالَ: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تُطِيعُوا فَرِيقًا مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ يَرُدُّوكُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ كَافِرِينَ سورة آل عمران آية 100، وَقَالَ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا ثُمَّ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا ثُمَّ ازْدَادُوا كُفْرًا لَمْ يَكُنِ اللَّهُ لِيَغْفِرَ لَهُمْ وَلا لِيَهْدِيَهُمْ سَبِيلا سورة النساء آية 137، وَقَالَ مَنْ يَرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ سورة المائدة آية 54، وَقَالَ وَلَكِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِنَ اللَّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ {106} ذَلِكَ بِأَنَّهُمُ اسْتَحَبُّوا الْحَيَاةَ الدُّنْيَا عَلَى الآخِرَةِ وَأَنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ {107} أُولَئِكَ الَّذِينَ طَبَعَ اللَّهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ وَسَمْعِهِمْ وَأَبْصَارِهِمْ وَأُولَئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ {108} لا جَرَمَ أَنَّهُمْ فِي الآخِرَةِ هُمُ الْخَاسِرونَ {109} سورة النحل آية 106-109 إِلَى لَغَفُورٌ رَحِيمٌ سورة النحل آية 110 وَلا يَزَالُونَ يُقَاتِلُونَكُمْ حَتَّى يَرُدُّوكُمْ عَنْ دِينِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُوا وَمَنْ يَرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُولَئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ وَأُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ. فِيهَا خَالِدُونَ سورة البقرة آية 217.
اور عبداللہ بن عمر اور زہری اور ابراہیم نخعی نے کہا مرتد عورت قتل کی جائے۔ اس باب میں یہ بھی بیان ہے کہ مرتدوں سے توبہ لی جائے اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ آل عمران) میں فرمایا اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو کیسے ہدایت دے لگا جو ایمان لا کر پھر کافر بن گئے۔ حالانکہ (پہلے) یہ گواہی دے چکے تھے کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سچے پیغمبر ہیں اور ان کی پیغمبری کی کھلی کھلی دلیلیں ان کے پاس آ چکیں اور اللہ تعالیٰ ایسے ہٹ دھرم لوگوں کو راہ پر نہیں لاتا۔ ان لوگوں کی سزا یہ ہے کہ ان پر اللہ اور فرشتوں کی اور سب لوگوں کی پھٹکار پڑے گی۔ اسی پھٹکار کی وجہ سے عذاب میں ہمیشہ پڑے رہیں گے کبھی ان کا عذاب ہلکا نہ ہو گا نہ ان کو مہلت ملے گی البتہ جن لوگوں نے ایسا کرنے کے بعد توبہ کی اپنی حالت درست کر لی تو اللہ ان کا قصور بخشنے والا مہربان ہے۔ بیشک جو لوگ ایمان لائے اور پھر کافر ہو گئے پھر ان کا کفر بڑھتا گیا ان کی تو توبہ بھی قبول نہ ہو گی اور یہی لوگ تو (پرے سرے کے) گمراہ ہیں اور فرمایا مسلمانو! اگر تم اہل کتاب کے کسی گروہ کا کہا مانو گے تو وہ ایمان لانے کے بعد تم کو کافر بنا کر چھوڑیں گے اور سورۃ نساء کے بیسویں رکوع میں فرمایا جو لوگ اسلام لائے پھر کافر بن بیٹھے پھر اسلام لائے پھر کافر بن بیٹھے پھر کفر بڑھاتے چلے گئے ان کو تو اللہ تعالیٰ نہ بخشے گا نہ کبھی ان کو راہ راست پر لائے گا اور سورۃ المائدہ کے آٹھویں رکوع میں فرمایا جو کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر جائے تو اللہ تعالیٰ کو کچھ پرواہ نہیں وہ ایسے لوگوں کو حاضر کر دے گا جن کو وہ چاہتا ہے اور وہ اس کو چاہتے ہیں۔ مسلمانوں پر نرم دل کافروں پر کڑے اخیر آیت تک اور سورۃ النحل چودہویں رکوع میں فرمایا لیکن جو لوگ ایمان لائے اور دل کھول کر یعنی خوشی اور رغبت سے کفر اختیار کریں ان پر تو اللہ کا غضب اترے گا اور ان کو بڑا عذاب ہو گا اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں نے دنیا کی زندگی کے مزوں کو آخرت سے زیادہ پسند کیا اور یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کافر لوگوں کو راہ پر نہیں لاتا۔ یہی لوگ تو وہ ہیں جن کے دلوں اور کانوں اور آنکھوں پر اللہ نے مہر لگا دی ہے وہ اللہ سے بالکل غافل ہو گئے ہیں تو آخرت میں چار و ناچار یہ لوگ خسارہ اٹھائیں گے۔ اخیر آیت «إن ربك من بعدها لغفور رحيم» تک۔ اور سورۃ البقرہ ستائیسویں رکوع میں فرمایا یہ کافر تو سدا تم سے لڑتے رہیں گے جب تک ان کا بس چلے تو وہ اپنے دین سے تم کو پھیر دیں (مرتد بنا دیں) اور تم میں جو لوگ اپنے دین (اسلام) سے پھر جائیں اور مرتے وقت کافر مریں ان کے سارے نیک اعمال دنیا اور آخرت میں گئے گزرے۔ وہ دوزخی ہیں ہمیشہ دوزخ میں ہی رہیں گے۔ (امام بخاری رحمہ اللہ نے یہاں ان سب آیات کو جمع کر دیا جو مرتدوں کے بارے میں قرآن مجید میں آئی تھیں)۔
حدیث نمبر: 6922
حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ مُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، قَالَ: أُتِيَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِزَنَادِقَةٍ، فَأَحْرَقَهُمْ، فَبَلَغَ ذَلِكَ ابْنَ عَبَّاسٍ، فَقَالَ: لَوْ كُنْتُ أَنَا لَمْ أُحْرِقْهُمْ، لِنَهْيِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" لَا تُعَذِّبُوا بِعَذَابِ اللَّهِ، وَلَقَتَلْتُهُمْ، لِقَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَنْ بَدَّلَ دِينَهُ فَاقْتُلُوهُ".
ہم سے ابوالنعمان محمد بن فضل سدوسی نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے، انہوں نے ایوب سختیانی سے، انہوں نے عکرمہ سے، انہوں نے کہا علی رضی اللہ عنہ کے پاس کچھ بےدین لوگ لائے گئے۔ آپ نے ان کو جلوا دیا۔ یہ خبر ابن عباس رضی اللہ عنہما کو پہنچی تو انہوں نے کہا اگر میں حاکم ہوتا تو ان کو کبھی نہ جلواتا (دوسری طرح سے سزا دیتا) کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آگ میں جلانے سے منع فرمایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آگ اللہ کا عذاب ہے تم اللہ کے عذاب سے کسی کو مت عذاب دو میں ان کو قتل کروا ڈالتا کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جو شخص اپنا دین بدل ڈالے اسلام سے پھر جائے اس کو قتل کر ڈالو۔
  الشيخ غلام مصطفٰے ظهير امن پوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6922  
´مرتد عورت کی شرعی سزا`
«. . . أُتِيَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِزَنَادِقَةٍ، فَأَحْرَقَهُمْ . . .»
. . . سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس کچھ بےدین لوگ لائے گئے۔ آپ نے ان کو جلوا دیا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب اسْتِتَابَةِ الْمُرْتَدِّينَ وَالْمُعَانِدِينَ وَقِتَالِهِمْ: 6922]

فوائد و مسائل:
اگر کوئی مسلمان دین اسلام سے منحرف ہو جائے، تو اسے مرتد کہا جاتا ہے۔ اس کی سزا شریعت اسلامیہ میں یہ ہے کہ اسے قتل کر دیا جائے۔
حنفی مقلدین نے اس عمومی حکم سے بلا جواز عورت کو مستثنیٰ کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مرد مرتد ہو جائے، تو اس کو قتل کیا جائے گا، لیکن عورت مرتد ہو، تو اسے قتل نہیں کیا جائے گا۔ بلکہ اسے قید کر دیا جائے گا۔ احناف کا یہ مذہب مذکورہ بالا فرمان نبوی کے خلاف ہے جیسا کہ:
◈ شارح صحیح بخاری، علامہ، ابوالحسن، علی بن خلف بن عبدالملک، ابن بطال رحمہ اللہ (م: 449 ھ) مذکورہ بالا حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:
لفظ «من» مرد و عورت دونوں کے لیے مستعمل ہے۔ اس عموم میں مرد و عورت دونوں شامل ہیں، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کو خاص کر کے عورتوں کو اس حکم سے مستشنٰی قرار نہیں دیا۔ امام ابن منذر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کفر مسلمان مردوں اور عورتوں کی طرف سے کیا جانے والا سب سے بڑا گناہ اور سب سے عظیم جرم ہے اور اللہ تعالیٰ کی کتاب میں بہت سے احکام اور کفر سے کم جرائم پر حدود مذکورہ ہیں، مثلاً زنا، چوری، شراب نوشی، قذف کی حد اور قصاص، یہ سب احکام و حدود جو کہ ارتداد سے کم درجہ کے ہیں، یہ مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے لازم ہیں (پھر ارتداد میں عورت مستشنٰی کیسے ہوگئی؟)۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم بھی عام ہے کہ جو بھی اپنا دین بدلے، اسے قتل کر دو۔ اس صورت حال میں کسی کے لیے کیسے جائز ہے کہ وہ اس سب سے بڑے گناہ میں مردوں اور عورتوں کی سزا میں فرق کرے اور اس سے عورتوں کو مستشنیٰ کر دے، جبکہ دیگر چھوٹے گناہوں میں اس پر سزا لازم کر دے؟ یہ واضح غلطی ہے۔ [شرح صحيح البخاري: 573/8، 574]

◈ شارح صحیح بخاری، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اس حدیث سے استدلال کیا گیا ہے کہ مرتد مرد کی طرح مرتد عورت کو بھی قتل کر دیا جائے گا۔ البتہ احناف نے اس حدیث کو مرد کے ساتھ خاص کیا ہے اور عورتوں کو قتل کرنے سے ممانعت والی حدیث کو اپنی دلیل بنانے کی کوشش کی ہے، جبکہ جمہور فقہاء کرام نے اس ممانعت کو اس عورت پر محمول کیا ہے، جو اصلاً کافر ہو اور اس نے جنگ میں قتل و قتال میں حصہ نہ لیا ہو، کیونکہ اس حدیث کی بعض سندوں میں یہ الفاظ بھی آتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مقتولہ عورت کو دیکھا، تو فرمایا: یہ تو لڑائی نہیں کر سکتی تھی، (پھر اسے کیوں قتل کیا گیا؟)، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو قتل کرنے سے منع فرمایا۔ [فتح الباري فى شرح صحيح البخاري: 272/12]
   ماہنامہ السنہ جہلم، شمارہ 69، حدیث/صفحہ نمبر: 26   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1032  
´مجرم (بدنی نقصان پہنچانے والے) سے لڑنے اور مرتد کو قتل کرنے کا بیان`
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اپنا دین بدل لے اسے قتل کر دو۔ (بخاری) «بلوغ المرام/حدیث: 1032»
تخریج:
«أخرجه البخاري، استتابة المرتدين.....، باب حكم المرتد والمرتدة.....، حديث:6922.»
تشریح:
یہ حدیث بھی صریح اور واضح دلیل ہے کہ شرعاً مرتد کی سزا قتل ہے‘ خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔
اب اگر کوئی علی الاعلان مرتد ہو جائے تو عدالت اس کے ثبوت کے بعد قتل کی سزا دے گی اور اسے قتل کر دیا جائے گا۔
البتہ اگر وہ ظاہری نہیں بلکہ اندرونی طور پر مرتد ہے اور اس کے ارتداد کا علم نہیں تو اسے قتل کی سزا نہیں دی جائے گی۔
اور اگر کسی شخص کو جبراً کلمۂکفر کہنے پر مجبور کیا جائے تو ایسی صورت میں بھی وہ مستوجب سزا نہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1032   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4351  
´مرتد (دین اسلام سے پھر جانے والے) کے حکم کا بیان۔`
عکرمہ سے روایت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے کچھ لوگوں کو جو اسلام سے پھر گئے تھے آگ میں جلوا دیا، ابن عباس رضی اللہ عنہما کو یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے کہا: مجھے یہ زیب نہیں دیتا کہ میں انہیں جلاؤں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: تم انہیں وہ عذاب نہ دو جو اللہ کے ساتھ مخصوص ہے میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کی رو سے انہیں قتل کر دیتا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: جو اسلام چھوڑ کر کوئی اور دین اختیار کر لے اسے قتل کر دو پھر جب علی رضی اللہ عنہ کو یہ بات پہنچی تو انہوں نے کہا: اللہ ابن عباس ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الحدود /حدیث: 4351]
فوائد ومسائل:
1) آگ سے عذاب دینا اللہ عزوجل کے لیے خاص ہے۔
کسی بھی شخص کوجائز نہیں کہ کسی مجرم کو آگ سے سزا دے خواہ اس کا جرم کس قدر بڑا ہو۔
اور دین اسلام سے مرتد ہوجانے والےکی سزاقتل ہے۔

2) آیت کریمہ (لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ) (البقرۃ 256) دین جبروا کراہ نہیں۔
۔
۔
۔
کے معنی یہ ہیں کہ کسی شخص کو جبرا اسلام میں داخل نہیں کیا جائے گا۔
جہاد وقتال اسلام کے غلبہ اور اس کی راہ میں موجود رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے ہے۔
اگرکوئی شخص مسلمان نہیں ہونا چاہتا تواسے جزیہ دے کر مسلمانوں کے ماتحت رہنا ہوگا۔
لیکن اگر کوئی اسلام قبول کرلیتا ہے تواس پر اسلام کے تمام احکام و فرائض لازم آتے ہیں اور واپسی کا دروازہ بند ہوجاتا ہے۔
اگر یہ راہ کھلی رکھی جائے تو یہ دین نہیں بچوں کا کھیل بن کر رہ جائے گا اس لیے اسلام قبول کرنے والے کو سوچ سمجھ کر یہ اقدام کرنا چاہئے کہ اب واپسی نہ ممکن ہے اور اس حقیقت سے مشرکین مکہ اور تمام اہل جاہلیت آگاہ تھے کہ اسلام قبول کر نے کے معنی یہ ہیں کہ اپنی سابقہ طرز زندگی کے بالکل برعکس ایک نیا طرز زندگی اپنانا پڑے گا۔
اس مسئلے کو دوسرے انداز سے بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ مرتد ہونا بغاوت ہے اور بغاوت کسی بھی مذہب وملت قانون اور حکومت میں ناقابل معافی جرم سمجھا جاتا ہے.
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4351   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6922  
6922. حضرت عکرمہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: حضرت علی ؓ کے پاس زندیق لائے گئے تو انہوں نے انہیں جلایا۔ یہ بات حضرت ابن عباس ؓ تک پہنچی تو انہوں نے فرمایا: اگر میں ہوتا تو انہیں نہ جلاتا کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اس کے متعلق حکم امتناعی جاری کرتے ہوئے فرمایا ہے: اللہ کے عذاب کے ساتھ کسی کو عذاب نہ دو بلکہ میں انہیں قتل کرتا کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: جو شخص اپنا دین بدل دے اسے قتل کر دو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6922]
حدیث حاشیہ:
ایسے مذکورہ لوگوں کو عربی میں زندیق کہتے ہیں جیسے نیچری طبعی دہری وغیرہ جو خدا کے قائل نہیں ہیں یا جو شریعت اور دین کو مذاق سمجھتے ہیں جہاں جیسا موقع ہوا ویسے بن گئے۔
مسلمانوں میں مسلمان، ہندوؤں میں ہندو، نصاریٰ میں نصرانی۔
بعضوں نے کہا یہ لوگ جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سامنے لائے گئے تھے سبائی فرقہ کے تھے جن کا رئیس عبداللہ بن سبا ایک یہودی تھا جو بظاہر مسلمان ہو گیا تھا لیکن دل میں مسلمانوں کو تباہ و برباد اور گمراہ کرنا اس کو منظور تھا اس نے ان لوگوں کو یہ سمجھایا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ خدا کے اوتار ہیں جیسے ہندومشرک سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں آدمی یا جانور کے بھیس میں آتا ہے اور اس کو اوتار کہتے ہیں۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ جب ان لوگوں کے اعتقاد پر مطلع ہوئے تو ان کو گرفتار کیا اور آگ میں جلوا دیا۔
لعنهم اﷲ
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6922   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6922  
6922. حضرت عکرمہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: حضرت علی ؓ کے پاس زندیق لائے گئے تو انہوں نے انہیں جلایا۔ یہ بات حضرت ابن عباس ؓ تک پہنچی تو انہوں نے فرمایا: اگر میں ہوتا تو انہیں نہ جلاتا کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اس کے متعلق حکم امتناعی جاری کرتے ہوئے فرمایا ہے: اللہ کے عذاب کے ساتھ کسی کو عذاب نہ دو بلکہ میں انہیں قتل کرتا کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: جو شخص اپنا دین بدل دے اسے قتل کر دو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6922]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو مسلمان اپنا دین بدل لے اسے قتل کر دیا جائے، خواہ وہ مرد ہویا عورت۔
(2)
اس حدیث میں زندیق سے مراد وہ شخص ہے جو کتاب وسنت اور اجماع امت سے ثابت شدہ حقائق کی فاسد تاویل کرے، مثلاً:
شفاعت، یوم آخرت، رؤیت باری تعالیٰ (دیدار الہٰی)
، عذاب قبر، پل صراط اور حساب کتاب کا انکار کرتے ہوئے ایسی فاسد تاویل کرے جو پہلے کبھی نہ سنی گئی ہو۔
ایسے شخص کو زندیق کہا جاتا ہے۔
ایسے شخص کی سزا قتل ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایسے لوگوں کو ہی کیفر کردار تک پہنچایا تھا۔
واللہ أعلم. (3)
واضح رہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جن آدمیوں کو آگ میں جلایا تھا وہ ان کے متعلق الوہیت کا عقیدہ رکھتے لیکن دور حاضر میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق حاجت روا اور مشکل کشا ہونے کا عقیدہ رکھنے والوں کو کون اس قسم کی سزا دے گا۔
واللہ المستعان
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6922