صحيح البخاري
كِتَاب اسْتِتَابَةِ الْمُرْتَدِّينَ وَالْمُعَانِدِينَ وَقِتَالِهِمْ -- کتاب: باغیوں اور مرتدوں سے توبہ کرانے کا بیان
3. بَابُ قَتْلِ مَنْ أَبَى قَبُولَ الْفَرَائِضِ وَمَا نُسِبُوا إِلَى الرِّدَّةِ:
باب: جو شخص اسلام کے فرض ادا کرنے سے انکار کرے اور جو شخص مرتد ہو جائے اس کا قتل کرنا۔
حدیث نمبر: 6925
قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَاللَّهِ لَأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ، فَإِنَّ الزَّكَاةَ حَقُّ الْمَالِ، وَاللَّهِ لَوْ مَنَعُونِي عَنَاقًا كَانُوا يُؤَدُّونَهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَقَاتَلْتُهُمْ عَلَى مَنْعِهَا، قَالَ عُمَرُ: فَوَاللَّهِ مَا هُوَ إِلَّا أَنْ رَأَيْتُ أَنْ قَدْ شَرَحَ اللَّهُ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ لِلْقِتَالِ فَعَرَفْتُ أَنَّهُ الْحَقُّ".
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا میں تو اللہ کی قسم اس شخص سے لڑوں گا جو نماز اور زکوٰۃ میں فرق کرے، اس لیے کہ زکوٰۃ مال کا حق ہے (جیسے نماز جسم کا حق ہے) اللہ کی قسم! اگر یہ لوگ مجھ کو ایک بکری کا بچہ نہ دیں گے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا کرتے تھے تو میں اس کے نہ دینے پر ان سے لڑوں گا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا قسم اللہ کی اس کے بعد میں سمجھ گیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دل میں جو لڑائی کا ارادہ ہوا ہے یہ اللہ نے ان کے دل میں ڈالا ہے اور میں پہچان گیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے حق ہے۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6925  
6925. حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں تو اس شخص سے ضرور بالضرور جنگ کروں گا جو نماز اور زکاۃ میں فرق کرے گا کیونکہ زکاۃ مال کا حق ہے۔ اللہ کی قسم! اگر یہ لوگ مجھس سے بکری کا بچہ لیں جو رسول اللہ ﷺ کو دیا کرتے تھے تو میں اسکے نہ دینے پھر بھی ان سے جنگ کروں گا، حضرت عمر ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! اس بات کے بعد میں سمجھ گیا کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے دل میں جو لڑائی کا ارادہ پیدا ہوا ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور میں نے پہچان لیا کہ ابو بکر ؓ کی رائے برحق ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6925]
حدیث حاشیہ:
(1)
جو شخص فرائض، مثلاً:
زکاۃ وغیرہ دینے سے انکار کرتا ہے، اس کے متعلق تحقیق کی جائے، اگر وہ وجوب کا قائل ہے لیکن دینے سے انکار کرتا ہے تو اس سے جبراً زکاۃ وصول کی جائے اور اس جنگ نہ کی جائے اور اگر انکار کرنے کے ساتھ ساتھ لڑائی کرنے پر آمادہ ہے تو پھر ایسے شخص کو معاف نہ کیا جائے بلکہ ایسے شخص سے قتال کیا جائے۔
(2)
دراصل حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں مرتدین کی تین قسمیں حسب ذیل تھیں:
٭ایک وہ لوگ تھے جو بتوں کی پوجا پاٹ میں لگ گئے اور اسلام کو خیر باد کہہ دیا۔
٭ایک وہ گروہ تھا جنھوں نے مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی کی پیروی اختیار کرلی۔
٭ ایسی جماعت بھی تھی جو اسلام کا اقرار کرتے تھے لیکن زکاۃ کی ادائیگی سے انکار کر دیا اور انھوں نے خیال کیا کہ زکاۃ کی ادائیگی صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے خاص تھی۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس آخری قسم کے متعلق بحث کی کہ ان سے لڑائی جائز نہیں۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے زکاۃ نہ دینے والوں سے اس لیے جنگ کرنے کا ارادہ کیا کہ انھوں نے بزور شمشیر زکاۃ روکی تھی اور مسلمانوں کے خلاف محاذ جنگ کھول دیا تھا۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا موقف تھا کہ نماز اور زکاۃ کا معاملہ ایک ہے۔
اگر کوئی دانستہ نماز تارک ہے تو اس سے جنگ کی جائے گی اسی طرح اگر کوئی زکاۃ نہ دے تو اس سے جبراً وصول کی جائے گی۔
اگر وہ اس کے لیے جنگ کرے تو اس سے جنگ کی جائے گی۔
آخر کار حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی قائم کردہ دلیل سے حق کو پہچان لیا اور پوری طرح حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے موقف سے متفق ہو گئے۔
(فتح الباري: 347/12)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6925