صحيح البخاري
كِتَاب الْإِكْرَاهِ -- کتاب: زبردستی کام کرانے کے بیان میں
4. بَابُ إِذَا أُكْرِهَ حَتَّى وَهَبَ عَبْدًا أَوْ بَاعَهُ لَمْ يَجُزْ:
باب: اگر کسی کو مجبور کیا گیا اور آخر اس نے غلام ہبہ کیا یا بیچا تو نہ ہبہ صحیح ہو گا نہ بیع صحیح ہو گی۔
وَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ فَإِنْ نَذَرَ الْمُشْتَرِي فِيهِ نَذْرًا فَهُوَ جَائِزٌ بِزَعْمِهِ وَكَذَلِكَ إِنْ دَبَّرَهُ.
اور بعض لوگوں نے کہا اگر مکرہ سے کوئی چیز خریدے اور خریدنے والا اس میں کوئی نذر کر دے تو یہ مدبر کرنا درست ہو گا۔
حدیث نمبر: 6947
حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ" أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ دَبَّرَ مَمْلُوكًا وَلَمْ يَكُنْ لَهُ مَالٌ غَيْرُهُ، فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَنْ يَشْتَرِيهِ مِنِّي؟"، فَاشْتَرَاهُ نُعَيْمُ بْنُ النَّحَّامِ بِثَمَانِ مِائَةِ دِرْهَمٍ، قَالَ: فَسَمِعْتُ جَابِرًا، يَقُولُ: عَبْدًا قِبْطِيًّا مَاتَ عَامَ أَوَّلَ.
ہم سے ابونعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے کہ ایک انصاری صحابی نے کسی غلام کو مدبر بنایا اور ان کے پاس اس کے سوا اور کوئی مال نہیں تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس کی اطلاع ملی تو دریافت فرمایا۔ اسے مجھ سے کون خریدے گا چنانچہ نعیم بن النحام رضی اللہ عنہ نے آٹھ سو درہم میں خرید لیا۔ بیان کیا کہ پھر میں نے جابر رضی اللہ عنہ سے سنا انہوں نے بیان کیا کہ وہ ایک قبطی غلام تھا اور پہلے ہی سال مر گیا۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2513  
´مدبر غلام کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم میں سے ایک شخص نے غلام کو مدبر بنا دیا، اس کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی مال نہ تھا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بیچ دیا، اور قبیلہ بنی عدی کے شخص ابن نحام نے اسے خریدا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب العتق/حدیث: 2513]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مدبر سے مراد وہ غلام ہے جسے اس کا مالک یہ کہہ دے تو میرے مرنے کے بعد آزاد ہے۔ (فتح الباری: 531/4)

(2)
جب تک آقا زندہ ہے مدبر غلام ہی رہتا ہے اور اس پر غلاموں والے سب احکام لاگو ہوتے ہیں۔

(2)
مجبوری کی حالت مدبر غلام کی اس مشروط آزادی کو کالعدم قراردیا جا سکتا ہےجیسا کہ اس حدیث میں ہےکہ آزاد کرنے والے کے پاس کوئی مال نہیں تھا۔
صیحح بخاری میں ہے وہ محتاج تھا۔ (صیحح البخاري، البیوع، باب بیع المزايدۃ، حدیث: 2141)
  اس کے علاوہ مقروض بھی تھا۔ (فتح الباري، البیوع، باب بیع المدبر بحواله اسما عیلیي)

(4)
آزاد کرنے والے صحابی کا نام ابو مذکور بیان کیا جاتا ہے۔ (سنن أبي داود، العتق، باب فی بیع المدبر، حدیث: 3955)

(5)
خریدنے والے صحابی کا نام حضرت نعیم بن عبداللہ تھا۔ (صیحح البخاري، البیوع، باب بیع المزايدۃ حدیث: 2141)
انھی کو ابن نحام بھی کہاجاتا ہے کیونکہ رسول اللہﷺنے جنت میں ان کے کھنکھارنے کی آواز سنی تھی۔ (حاشہ صیحح المسلم از محمد فواد عبدالباقی الایمان باب جوازبیع المدبر)

(6)
اس غلام کا نام یعقوب تھا۔ (سنن أبي داود، العتق باب فی بیع المدبرۃ، حدیث: 997)

(7)
غلام کی قیمت آٹھ سو درہم ادا كى گئی۔ (صیحح البخاري، الأحکام، باب بیع الإمام علی الناس أموالھم وضیاعھم، حدیث: 7186)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2513   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 653  
´بیع کی شرائط اور بیع ممنوعہ کی اقسام`
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما ہی سے مروی ہے کہ ہم میں سے کسی شخص نے اپنا غلام مدبر کر دیا۔ اس غلام کے سوا اس کے پاس اور کوئی مال نہیں تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غلام کو بلوایا اور اسے فروخت کر دیا۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 653»
تخریج:
«أخرجه البخاري، البيوع، باب بيع المزايدة، حديث:2141، ومسلم، الأيمان، باب جواز بيع المدبر، حديث:997، بعد حديث:1668.»
تشریح:
1. صحیح بخاری وغیرہ میں ہے کہ آپ نے اسے آٹھ سو درہم میں فروخت کر دیا اور حضرت نعیم بن عبداللہ بن نحام نے اسے خرید لیا۔
دیکھیے: (صحیح البخاري‘ کفارات الأیمان‘ حدیث:۶۷۱۶) 2. سنن نسائی کی روایت میں ہے کہ وہ مقروض تھا‘ اس لیے آپ نے اسے فروخت کیا تاکہ اس کا قرض اتار دیا جائے۔
دیکھیے: (سنن النسائي‘ آداب القضاء‘ حدیث:۵۴۲۰) 3.اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مدبر غلام کو ضرورت و حاجت کے وقت فروخت کرنا جائز ہے۔
امام شافعی رحمہ اللہ ‘ اہل حدیث اور عام فقہاء اس کی مطلقاً فروخت کے قائل ہیں۔
4. حدیث سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ ضرورت کے موقع پر فروخت کرنا جائز ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 653   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1219  
´مدبر غلام کے بیچنے کا بیان۔`
جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انصار کے ایک شخص نے ۱؎ اپنے غلام کو مدبر ۲؎ بنا دیا (یعنی اس سے یہ کہہ دیا کہ تم میرے مرنے کے بعد آزاد ہو)، پھر وہ مر گیا، اور اس غلام کے علاوہ اس نے کوئی اور مال نہیں چھوڑا۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بیچ دیا ۳؎ اور نعیم بن عبداللہ بن نحام نے اسے خریدا۔ جابر کہتے ہیں: وہ ایک قبطی غلام تھا۔ عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہما کی امارت کے پہلے سال وہ فوت ہوا۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1219]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس شخص کا نام ابومذکورانصاری تھا اورغلام کا نام یعقوب۔

2؎:
مدبروہ غلام ہے جس کا مالک اس سے یہ کہہ دے کہ میرے مرنے کے بعد تو آزاد ہے۔

3؎:
بعض روایات میں ہے کہ وہ مقروض تھا اس لیے آپ نے اسے بیچا تاکہ اس کے ذریعہ سے اس کے قرض کی ادائیگی کردی جائے اس حدیث سے معلوم ہواکہ مدبرغلام کوضرورت کے وقت بیچنا جائزہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1219   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3955  
´مدبر (یعنی وہ غلام جس کو مالک نے اپنی موت کے بعد آزاد کر دیا ہو) کو بیچنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنے غلام کو اپنے مرنے کے بعد آزاد کر دیا اور اس کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور مال نہ تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بیچنے کا حکم دیا تو وہ سات سویا نو سو میں بیچا گیا۔ [سنن ابي داود/كتاب العتق /حدیث: 3955]
فوائد ومسائل:
غلام کے بارے میں یہ وصیت کرنا کہ یہ میری وفات کے بعد آزاد ہوگا بالکل مباح اور جائز ہے۔
مگر وارثوں کے حالات کے پیش نظر اگر وہ بالکل ہی مفلوک الحال ہوں توایسی وصیت کو فسخ بھی کیا جاسکتا ہے۔
قاضی اور حاکم کو اختیار ہے کہ وہ اس کو فسخ کردیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3955   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6947  
6947. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ ایک انصاری آدمی نے اپنے ایک غلام کو مدبر کردیا جبکہ اس کے پاس غلام اور کوئی مال نہ تھا۔ رسول اللہ ﷺ کو اس کی اطلاع ملی تو آپ نے فرمایا: مجھ سے یہ غلام کون خریدتا ہے؟ نعیم بن نحام نے اسے آٹھ سو درہم میں خرید لیا۔ حضرت جابر ؓ نے فرمایا: وہ غلام حبشی قبطی تھا جو پہلے ہی سال فوت ہو گیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6947]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے باب کا مطلب یوں نکالا کہ جب غلام کا مدبر کرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لغو کر دیا حالانکہ اس کے مالک نے اپنی خوشی سے اس کو مدبر کیا تھا اور وجہ یہ ہوئی کہ وارثوں کے لیے اور کوئی مال اس شخص کے پاس نہ تھا تو گویا وارثوں کی ناراضی کی وجہ سے جن کی ملک اس غلام سے متعلق بھی نہیں ہوئی تھی تدبیر ناجائز ٹھہری پس وہ تدبیر یا بیع کیوں کر جائز ہو سکتی ہے جس میں خود مالک ناراض ہو اور وہ جبر سے کی جائے۔
مہلب نے کہا اس پر علماء کا اجماع ہے کہ مکرہ کا بیع اور یہ صحیح نہیں ہے لیکن حنفیہ نے یہ کہا ہے کہ اگر مکرہ سے خریدے ہوئے غلام یا لونڈی کوئی آزاد کر دے یا مدبر کر دے تو خریدار (یہ تصرف جائز ہوگا۔
امام بخاری کے اعراض کا۔
)

کا حاصل یہ ہے کہ حنفیہ کے کلام میں مناقضہ ہے اگر مکرہ کی بیع صحیح اور مفید ملک ہے تو سب تصرفات خریدار کے درست ہونے چاہئیں اگر صحیح اور مفید ملک نہیں ہے تب نہ نذر صحیح ہونی چاہئے نہ مدبر کرنا اور نذر اور تدبیر کی صحت کا قائل ہونا اور پھر مکرہ کی بیع صحیح نہ سمجھنا دونوں میں مناقفہ ہے۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6947   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6947  
6947. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ ایک انصاری آدمی نے اپنے ایک غلام کو مدبر کردیا جبکہ اس کے پاس غلام اور کوئی مال نہ تھا۔ رسول اللہ ﷺ کو اس کی اطلاع ملی تو آپ نے فرمایا: مجھ سے یہ غلام کون خریدتا ہے؟ نعیم بن نحام نے اسے آٹھ سو درہم میں خرید لیا۔ حضرت جابر ؓ نے فرمایا: وہ غلام حبشی قبطی تھا جو پہلے ہی سال فوت ہو گیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6947]
حدیث حاشیہ:

تدبیر یہ ہے کہ مالک اپنے غلام سے کہہ دے "میرے مرنے کے بعد تو آزاد ہے" اس طرح کے غلام کو مدبر کہتے ہیں۔
اس حدیث کے مطابق جس شخص نے اپنے غلام کو مدبر کیا تھا اس کے پاس غلام کے علاوہ اور کوئی چیز نہ تھی۔
چونکہ اس کے پاس ذاتی اخراجات پورے کرنے کے لیے کوئی چیز نہ تھی اور غلام کو مدبرکرنا اس کی بے وقوفی تھی، نیز اس آدمی کے ورثاء بھی اس پر ناراض ہو سکتے تھے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بے وقوفی اور ورثاء کی ناراضی کی وجہ سے غلام کے مدبر کرنے کو ناجائز ٹھہرایا اور اسے فروخت کر دیا۔
اس بنا پر اس شخص کی خریدوفروخت اور ہبہ کیونکر صحیح ہو سکتا ہے جس کا مالک اسے فروخت کرنا یا ہبہ کرنا نہ چاہتا ہو بلکہ اس پر جبر کر کے فروخت کیا جائے یا کسی دوسرے کو ہبہ کر دیا جائے۔

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ابن بطال کے حوالے سے لکھا ہے کہ جس شخص نے اپنے غلام کو مدبر کیا تھا جبکہ اس کا کوئی اور مال نہ تھا گویا اس نے کم عقلی کی وجہ سے اپنے غلام کو مدبر کر دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے مدبر کرنے کو مسترد کر دیا اگرچہ وہ اس کا مالک تھا، تو جس شخص نے فاسد بیع سے غلام خریدا اور اس کی ملک بھی صحیح نہ تھی جب وہ اس ذخرید کردہ غلام کو مدبر کر دے یا آزاد کر دے تو اس کی تدبیر اور آزاد کرنا کیونکر صحیح ہو سکتا ہے جبکہ اس کی ملک ہی صحیح نہیں ہے۔
(فتح الباري: 400/12)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6947