صحيح البخاري
كِتَاب الْإِكْرَاهِ -- کتاب: زبردستی کام کرانے کے بیان میں
7. بَابُ يَمِينِ الرَّجُلِ لِصَاحِبِهِ إِنَّهُ أَخُوهُ، إِذَا خَافَ عَلَيْهِ الْقَتْلَ أَوْ نَحْوَهُ:
باب: اگر کوئی شخص دوسرے مسلمان کو اپنا بھائی کہے۔
حدیث نمبر: 6952
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَان، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ الله بْنُ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَنْصُرْ أَخَاكَ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُومًا، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولُ اللهِ، أَنْصُرُهُ إِذَا كَانَ مَظْلُومًا، أَفَرَأَيْتَ إِذَا كَانَ ظَالِمًا كَيْفَ أَنْصُرُهُ؟، قَالَ: تَحْجُزُهُ أَوْ تَمْنَعُهُ مِنَ الظُّلْمِ، فَإِنَّ ذَلِكَ نَصْرُهُ".
ہم سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سعید بن سلیمان واسطی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہشیم نے بیان کیا، کہا ہم کو عبیداللہ بن ابی بکر بن انس نے خبر دی اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ ایک صحابی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! جب وہ مظلوم ہو تو میں اس کی مدد کروں گا لیکن آپ کا کیا خیال ہے جب وہ ظالم ہو گا پھر میں اس کی مدد کیسے کروں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس وقت تم اسے ظلم سے روکنا کیونکہ یہی اس کی مدد ہے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6952  
6952. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ نے فرمایا: اپنے بھائی کی مدد کرو،خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ ایک آدمی نے پوچھا: اللہ کے رسول! جب وہ مظلوم ہوگا تو میں اس کی مدد کروں گا آپ کے خیال کے مطابق میں ظالم کی مدد کیسے کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اس وقت اسے ظلم سے باز رکھنا ہی اس کی مدد کرنا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6952]
حدیث حاشیہ:
ان جملہ احادیث میں مختلف طریقوں سے اکراہ کا ذکر پایا جاتا ہے اس لیے حضرت مجتہد اعظم ان کو یہاں لائے۔
دنیا میں مسلمان کے سامنے کبھی نہ کبھی اکراہ کی صورت پیش آ سکتی ہے اور آج کل تو قدم قدم پر ہر مسلمان کے سامنے یہ صورت حال درپیش ہے۔
لہٰذا سوچ سمجھ کر اس نازک صورت سے گزرنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے، وما توفیقي إلا باﷲ۔
کتاب الاکراہ ختم ہوئی۔
اب کتاب الحیل کو خوب غور سے مطالعہ کریں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6952   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6952  
6952. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ نے فرمایا: اپنے بھائی کی مدد کرو،خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ ایک آدمی نے پوچھا: اللہ کے رسول! جب وہ مظلوم ہوگا تو میں اس کی مدد کروں گا آپ کے خیال کے مطابق میں ظالم کی مدد کیسے کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اس وقت اسے ظلم سے باز رکھنا ہی اس کی مدد کرنا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6952]
حدیث حاشیہ:

پہلی حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر مسلمان کو دوسرے مسلمان کا بھائی قرار دیا ہے۔
اس اخوت کا تقاضا ہے کہ وہ اسے کسی دوسرے کے رحم و گرم پر نہ چھوڑے بلکہ خود اس کی مدد اور نصرت کے لیے آگے بڑھے۔
اس حدیث سے پتا چلتا ہے کہ کسی صورت میں اپنے مسلمان بھائی کو خواہ وہ قریبی ہو یا اجنبی اسے دشمن کے حوالے نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اسے قتل کر دے بلکہ اے ہر صورت میں بچانا ضروری ہے جیسا کہ اپنی جان بچانا ضروری ہے قریبی کے حق میں اکراہ کا اعتبار کر کے اس کی بیع کو غیر لازم قرار دینا اور اجنبی کے حق میں اکراہ کو غیر معتبر خیال کر کے اس کی بیع کو لازم قرار دینا اسلامی اخوت کے خلاف ہے جس کا ان احادیث میں حکم دیا گیا ہے۔

اسی طرح دوسری حدیث کا تقاضا ہے کہ ایک مسلمان اپنے قریبی اور غیر قریبی بھائی کی مدد کرے۔
اگر وہ ظالم ہے تو اسے ظلم سے روکے اور اگر مظلوم ہے تو اسے ظلم سے بچائے چونکہ اس حدیث میں مظلوم کی مدد کا حکم ہے اس لیے ہر ممکن طریقےسے اس کی مدد کرنی چاہیے قریبی اور اجنبی کی تفریق کر کے مظلوم کو اپنے تعاون سے محروم کرنا بےانصافی ہے۔

علامہ کرمانی نے لکھا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مباحث میں جو مثالیں ذکر کی ہیں وہ اس کتاب کے اسلوب کے مطابق نہیں ہیں کیونکہ یہ مثالیں فن حدیث سے غیر متعلق ہیں۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا جواب ان الفاظ میں دیا ہے کہ علامہ کرمانی کا یہ اعتراض انتہائی عجیب ہے کیونکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صرف احادیث کو جمع کرنے کے لیے یہ کتاب تصنیف نہیں کی بلکہ انھوں نے مسائل و احکام کو ثابت کرنے کے لیے اس کتاب کو مرتب کیا ہے بلکہ یہ مقولہ محدثین کے ہاں ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر گیا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی فقاہت ان کے قائم کردہ عنوانات میں ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس سلسلے میں اپنے مقتدمین کے نقش قدم پر چلتے ہیں ان کے ہاں مسائل کے اختیار کا یہی طریقہ ہے جو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اختیار کیا ہے۔
(فتح الباري: 406/12)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6952