صحيح البخاري
كِتَاب الْحِيَلِ -- کتاب: شرعی حیلوں کے بیان میں
11. بَابٌ في النِّكَاحِ:
باب: نکاح پر جھوٹی گواہی گزر جائے تو کیا حکم ہے۔
حدیث نمبر: 6968
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا تُنْكَحُ الْبِكْرُ حَتَّى تُسْتَأْذَنَ، وَلَا الثَّيِّبُ حَتَّى تُسْتَأْمَرَ، فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ إِذْنُهَا؟، قَالَ: إِذَا سَكَتَتْ"، وَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ: إِنْ لَمْ تُسْتَأْذَنِ الْبِكْرُ وَلَمْ تَزَوَّجْ، فَاحْتَالَ رَجُلٌ فَأَقَامَ شَاهِدَيْ زُورٍ أَنَّهُ تَزَوَّجَهَا بِرِضَاهَا، فَأَثْبَتَ الْقَاضِي نِكَاحَهَا، وَالزَّوْجُ يَعْلَمُ أَنَّ الشَّهَادَةَ بَاطِلَةٌ، فَلَا بَأْسَ أَنْ يَطَأَهَا وَهُوَ تَزْوِيجٌ صَحِيحٌ.
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی کنواری لڑکی کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ لے لی جائے اور کسی بیوہ کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کا حکم نہ معلوم کر لیا جائے۔ پوچھا گیا: یا رسول اللہ! اس (کنواری) کی اجازت کی کیا صورت ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی خاموشی اجازت ہے۔ اس کے باوجود بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر کنواری لڑکی سے اجازت نہ لی گئی اور نہ اس نے نکاح کیا۔ لیکن کسی شخص نے حیلہ کر کے دو جھوٹے گواہ کھڑے کر دئیے کہ اس نے لڑکی سے نکاح کیا ہے اس کی مرضی سے اور قاضی نے بھی اس کے نکاح کا فیصلہ کر دیا۔ حالانکہ شوہر جانتا ہے کہ وہ جھوٹا ہے کہ گواہی جھوٹی تھی اس کے باوجود اس لڑکی سے صحبت کرنے میں اس کے لیے کوئی حرج نہیں ہے بلکہ یہ نکاح صحیح ہو گا۔
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 837  
´(نکاح کے متعلق احادیث)`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیوہ عورت کا نکاح اس سے مشورہ لئے بغیر نہ کیا جائے اور کنواری کا نکاح اس سے اجازت لئے بغیر نہ کیا جائے۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس کی اجازت کیسے ہے؟ فرمایا اس کا خاموش رہنا۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 837»
تخریج:
«أخرجه البخاري، النكاح، باب لا ينكح الأب وغيره البكر والثيب إلا برضاهما، حديث:5136، ومسلم، النكاح، باب استئذان الثيب في النكاح بالنطق.....، حديث:1419.»
تشریح:
1. اس حدیث سے ثابت ہو رہا ہے کہ شریعت کی نظر میں عورت کی بہت اہمیت ہے۔
وہ عورت جسے اسلام سے پہلے معاشرے میں کوئی خاص مقام نہیں دیا جاتا تھا‘ اسلام نے اسے پستی سے اٹھا کر بلند مقام پر پہنچایا ہے اور اس کی اہمیت کو دوبالا کیا ہے۔
شادی بیاہ کے معاملے میں اس سے مشورہ لینا تو کجا اسے اپنے بارے میں کچھ کہنے کی اجازت تک نہ تھی۔
سربراہ و ولی اپنی مرضی سے جس سے چاہتے نکاح کر دیتے تھے۔
2.شریعت محمدیہ نے عورت کو اس کا صحیح معاشرتی مقام و منصب دیا اور سرپرستوں کو حکم دیا کہ شوہر دیدہ سے مشورہ ضرور کیا جائے اور کنواری سے اس کی اجازت حاصل کی جائے۔
3. شوہر دیدہ کی رضا ومشورے کے بغیر اس کا نکاح نہ کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ بغیر ولی کے اپنا نکاح کر سکتی ہے بلکہ اس سے مقصود یہ ہے کہ ولی اپنی سرپرستی میں اس کے مشورے اور اس کی رضامندی کے ساتھ اس کا نکاح کرے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 837   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1107  
´کنواری اور ثیبہ (شوہر دیدہ) سے اجازت لینے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «ثیبہ» (شوہر دیدہ عورت خواہ بیوہ ہو یا مطلقہ) کا نکاح نہ کیا جائے جب تک کہ اس کی رضا مندی ۱؎ حاصل نہ کر لی جائے، اور کنواری ۲؎ عورت کا نکاح نہ کیا جائے جب تک کہ اس کی اجازت نہ لے لی جائے اور اس کی اجازت خاموشی ہے ۳؎۔ [سنن ترمذي/كتاب النكاح/حدیث: 1107]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
رضامندی کا مطلب اذن صریح ہے۔

2؎:
کنواری سے مراد بالغہ کنواری ہے۔

3؎:
اس میں اذن صریح کی ضرورت نہیں خاموشی کافی ہے کیونکہ کنواری بہت شرمیلی ہوتی ہے،
عام طور سے وہ اس طرح کی چیزوں میں بولتی نہیں خاموش ہی رہتی ہے۔ 4؎:
ان لوگوں کی دلیل ابن عباس کی روایت «أن جارية بكراً أتت النبي ﷺ فذكرت أن أباها زوجها وهي كارهة فخيرها النبي ﷺ»  ہے۔

5؎:
ان لوگوں نے ابن عباس کی حدیث جوآگے آرہی ہے «الأیم أحق بنفسہامن ولیہا»  کے مفہوم مخالف سے استدلال کیا ہے،
اس حدیث کا مفہوم مخالف یہ ہوا کہ باکرہ (کنواری) کا ولی اس کے نفس کا اس سے زیادہ استحقاق رکھتاہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1107   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6968  
6968. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: کنواری لڑکی کا نکاح اس وقت نہ كيا جائے جب تک اس سے اجازت نہ لی جائے اور کسی بیوہ کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس امر نہ معلوم کر لیا جائے۔ پوچھا گیا: اللہ کے رسول! کنواری لڑکی کی اجازت کیسے ہوگی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اس کی خاموشی اس کی اجازت ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں: اگر کنواری لڑکی سے اجازت نہ لی گئی اور نہ اس کا نکاح ہی کیا گیا لیکن کسی شخص نے حیلہ سازی کر کے دو جھوٹے گواہ بنا لیے کہ اس نے لڑکی سے اس کی رضا مندی سے نکاح کر لیا ہے اور قاضی نے اس نکاح کے متعلق فیصلہ دے دیا،حالانکہ شوہر جانتا ہے کہ گواہی جھوٹ پر مبنی اور باطل ہے، اس کے باوجود اس لڑکی سے جماع کرنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ نکاح صحیح ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6968]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان میں حیلہ سازوں کی مکاری اورفریب کاری اور دھوکا دہی سے پردہ اٹھایا ہے کہ ان کے نزدیک ایک معصوم کنواری لڑکی کے متعلق جھوٹے گواہ پیش کر دینے کے بعد اگر کسی نے عدالت سے اپنے حق میں فیصلہ لے لیا تو وہ کنواری لڑکی اس کی بیوی بن جائے گی اور اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی اس حرام کاری پر اس کا کوئی مواخذہ نہیں ہو گا، حالانکہ حدیث کی رو سے نکاح کے لیے لڑکی کی اجازت ضروری ہے اس کے علاوہ سرپرست کی رضا مندی اور اجازت کی حیثیت بھی تسلیم شدہ ہے۔
لیکن حیلہ سازی کے ذریعے سے فریب کاری پر مبنی نکاح میں نہ سرپرست کی اجازت حاصل کی گئی اور نہ لڑکی ہی کی اجازت کو پیش نظر رکھا گیا، صرف دو جھوٹے گواہوں کی گواہی سے عدالت سے فیصلہ حاصل کر کے معصوم لڑکی کو بیوی بنا لیا گیا۔
شاید ان کے ہاں اس قسم کے ضمنی نکاح کے لیے سرپرست کی اجازت اور لڑکی کی رضامندی ضروری نہیں ہے۔
انھوں نے شمس الائمہ سرخسی کی المبسوط کے حوالے سے ایک روایت کا بھی کھوج لگایا ہے جس کی تفصیل یہ ہے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے کسی شخص نے دو جھوٹے گواہ پیش کر دیے کہ میرا فلاح عورت سے نکاح ہے، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گواہوں کی گواہی سے اس کے نکاح کا فیصلہ دے دیا، عورت نے بغرض عفت عرض کی:
امیر المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ! میرا قطعاً اس آدمی سے نکاح نہیں ہے بلکہ یہ گواہ بالکل جھوٹے ہیں، لیکن اگر آپ کا یہی فیصلہ ہے تو میں آپ کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے یہ مطالبہ کرتی ہوں کہ اب آپ میرا عقد نکاح اس سے کر دیں تاکہ میں حقیقی طور پر اس کے لیے حلال ہو جاؤں۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
ان دونوں گواہوں کی بنا پر میں نے جو نکاح کا فیصلہ دیا ہے یہی نکاح کے قائم مقام ہے لہذا نئے نکاح کی ضرورت نہیں۔
مذکورہ روایت کے متعلق حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فیصلہ دیا ہے کہ یہ ثابت ہی نہیں۔
اگر ثابت بھی ہو تو موقوف ہے۔
(فتح الباري: 428/12)
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی مرفوع حدیث کے مقابلے میں اس موقوف اثر کی کیا حیثیت ہے۔

بہرحال حیلہ سازوں کے یہ تمام سہارے مکڑی کے جالے کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ان کا حقیقت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔
واللہ المستعان۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6968