صحيح البخاري
كِتَاب الْحِيَلِ -- کتاب: شرعی حیلوں کے بیان میں
15. بَابُ احْتِيَالِ الْعَامِلِ لِيُهْدَى لَهُ:
باب: عامل کا تحفہ لینے کے لیے حیلہ کرنا۔
حدیث نمبر: 6980
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الشَّرِيدِ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْجَارُ أَحَقُّ بِصَقَبِهِ، وَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ: إِنِ اشْتَرَى دَارًا بِعِشْرِينَ أَلْفَ دِرْهَمٍ، فَلَا بَأْسَ أَنْ يَحْتَالَ حَتَّى يَشْتَرِيَ الدَّارَ بِعِشْرِينَ أَلْفَ دِرْهَمٍ، وَيَنْقُدَهُ تِسْعَةَ آلَافِ دِرْهَمٍ وَتِسْعَ مِائَةِ دِرْهَمٍ وَتِسْعَةً وَتِسْعِينَ وَيَنْقُدَهُ دِينَارًا بِمَا بَقِيَ مِنَ الْعِشْرِينَ الْأَلْفَ، فَإِنْ طَلَبَ الشَّفِيعُ أَخَذَهَا بِعِشْرِينَ أَلْفَ دِرْهَمٍ، وَإِلَّا فَلَا سَبِيلَ لَهُ عَلَى الدَّارِ، فَإِنِ اسْتُحِقَّتِ الدَّارُ، رَجَعَ الْمُشْتَرِي عَلَى الْبَائِعِ بِمَا دَفَعَ إِلَيْهِ، وَهُوَ تِسْعَةُ آلَافِ دِرْهَمٍ وَتِسْعُ مِائَةٍ وَتِسْعَةٌ وَتِسْعُونَ دِرْهَمًا وَدِينَارٌ، لِأَنَّ الْبَيْعَ حِينَ اسْتُحِقَّ انْتَقَضَ الصَّرْفُ فِي الدِّينَارِ، فَإِنْ وَجَدَ بِهَذِهِ الدَّارِ عَيْبًا وَلَمْ تُسْتَحَقَّ فَإِنَّهُ يَرُدُّهَا عَلَيْهِ بِعِشْرِينَ أَلْفَ دِرْهَمٍ، قَالَ: فَأَجَازَ هَذَا الْخِدَاعَ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ، وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بَيْعُ الْمُسْلِمِ لَا دَاءَ، وَلَا خِبْثَةَ، وَلَا غَائِلَةَ".
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا ‘ ان سے ابراہیم بن میسرہ نے ‘ ان سے عمرو بن شرید نے اور ان سے ابورافع رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پڑوسی اپنے پڑوسی کا زیادہ حقدار ہے۔ اور بعض لوگوں نے کہا اگر کسی شخص نے ایک گھر بیس ہزار درہم کا خریدا (تو شفعہ کا حق ساقط کرنے کے لیے) یہ حیلہ کرنے میں کوئی قباحت نہیں کہ مالک مکان کو نو ہزار نو سو ننانوے درہم نقد ادا کرے اب بیس ہزار کے تکملہ میں جو باقی رہے یعنی دس ہزار اور ایک درہم اس کے بدل مالک مکان کو ایک دینار (اشرفی) دیدے۔ اس صورت میں اگر شفیع اس مکان کو لینا چاہے گا تو اس کو بیس ہزار درہم پر لینا ہو گا ورنہ وہ اس گھر کو نہیں لے سکتا۔ ایسی صورت میں اگر بیع کے بعد یہ گھر (بائع کے سوا) اور کسی کا نکلا تو خریدار بائع سے وہی قیمت واپس لے گا جو اس نے دی ہے یعنی نو ہزار نو سو ننانوے درہم اور ایک دینار (بیس ہزار درہم نہیں واپس سکتا) کیونکہ جب وہ گھر کسی اور کا نکلا تو اب وہ بیع صرف جو بائع اور مشتری کے بیچ میں ہو گئی تھی بالکل باطل ہو گئی (تو اصل) دینار پھرنا لازم ہو گا نہ کہ اس کے ثمن (یعنی دس ہزار اور ایک درہم) اگر اس گھر میں کوئی عیب نکلا لیکن وہ بائع کے سوا کسی اور کی ملک نہیں نکلا تو خریدار اس گھر کو بائع کو واپس اور بیس ہزار درہم اس سے لے سکتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا تو ان لوگوں نے مسلمانوں کے آپس میں مکر و فریب کو جائز رکھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرمایا ہے کہ مسلمان کی بیع میں جو مسلمان کے ساتھ ہو نہ عیب ہونا چاہئیے یعنی (بیماری) نہ خباثت نہ کوئی آفت۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6980  
6980. حضرت ابو رافع ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: پڑوسی اپنی ہمسائیگی کی وجہ سے زیادہ حق دار ہے۔ (اس کے باوجود) بعض لوگوں نے کہا ہے: اگر کسی نے بیس ہزار درہم میں مکان خریدا تو (اسقاط حق شفعہ کے لیے) کرنے میں کوئی قباحت نہیں کہ بیس ہزار درہم کا سودا کرے لے، پھر مکان کے مالک نو ہزار نو سو ننانوے درہم نقد دے دے اور بیس ہزار میں سے باقی (دس ہزار ایک درہم کے عوض اسے ایک دینار دے۔ اس صورت میں اگر شفعہ کرنے والا اس مکان کے سلسلے میں کوئی اختیار نہیں ہوگا۔ پھر اگر مکان اور حق دار نکل آیا تو خریدار، فروخت کرنے والے سے وہی رقم واپس لے گا جو اس نے دی ہے اور نو ہزار سو ننانوے درہم اور ایک دینار ہے کیونکہ اس گھر کا جب اور کوئی حق دار نکل آیا تو بیع صرف جو دینار کے متعلق ہوئی تھی ختم ہو گئی۔ اور اگر اس گھر میں کوئی عیب ثابت ہوا اور اس کا کوئی دوسرا حق دار۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6980]
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث کتاب البیوع میں غداء بن خادل کی روایت سے گزر چکی ہے۔
امام بخاری نے اس مسئلہ میں ان بعض لوگوں پر دو اعتراض کئے ہیں ایک تو مسلمانوں کے آپس میں فریب اور دغا بازی کو جائز رکھنا دوسرے ترجیح بلا مرحج کہ استحقاق کی صورت میں تو مشتری صرف نو ہزار نو سو ننانوے درہم اور ایک دینار پھیر سکتا ہے اور عیب کی صورت میں پورے بیس ہزار پھیر سکتا ہے۔
حالانکہ بیس ہزار اس نے دئیے ہی نہیں۔
صحیح مذہب اس مسئلہ میں اہل حدیث کا ہے کہ مشتری عیب یا استحقاق ہر دو صورتوں میں بائغ سے وہی ثمن پھیر لے گا جو اس نے بائع کو دیا ہے یعنی نو ہزار نو سو نناونے درہم اور ایک درہم اور شفیع بھی اس قدر رقم دے کر اس جائداد کو مشتری سے لے سکتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6980   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6980  
6980. حضرت ابو رافع ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: پڑوسی اپنی ہمسائیگی کی وجہ سے زیادہ حق دار ہے۔ (اس کے باوجود) بعض لوگوں نے کہا ہے: اگر کسی نے بیس ہزار درہم میں مکان خریدا تو (اسقاط حق شفعہ کے لیے) کرنے میں کوئی قباحت نہیں کہ بیس ہزار درہم کا سودا کرے لے، پھر مکان کے مالک نو ہزار نو سو ننانوے درہم نقد دے دے اور بیس ہزار میں سے باقی (دس ہزار ایک درہم کے عوض اسے ایک دینار دے۔ اس صورت میں اگر شفعہ کرنے والا اس مکان کے سلسلے میں کوئی اختیار نہیں ہوگا۔ پھر اگر مکان اور حق دار نکل آیا تو خریدار، فروخت کرنے والے سے وہی رقم واپس لے گا جو اس نے دی ہے اور نو ہزار سو ننانوے درہم اور ایک دینار ہے کیونکہ اس گھر کا جب اور کوئی حق دار نکل آیا تو بیع صرف جو دینار کے متعلق ہوئی تھی ختم ہو گئی۔ اور اگر اس گھر میں کوئی عیب ثابت ہوا اور اس کا کوئی دوسرا حق دار۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6980]
حدیث حاشیہ:

حیلہ سازوں کی طرف سے حیلے کے ذریعے سے کسی کا حق شفعہ ختم کرنے کے لیے یہ چوتھی صورت ہے جس کا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بڑی شدت سے نوٹس لیا ہے اور اسے مکرو فریب سے تعبیر کیا ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حیلے کی صورت پر دو اعتراض کیے ہیں جوناقابل تردید ہیں۔
ان حضرات نے رد استحقاق اور ردعیب میں فرق روا رکھا ہے۔
حالانکہ دونوں صورتوں میں اس قیمت کا واپس کرنا ضروری ہے جو فروخت کرنے والے نے خریدار سے وصول کی ہے۔
اسی طرح شفعہ کرنے والے کے لیے بھی اس قدر قیمت سے شفعہ ہونا چاہیے جو خریدار نے نقد ادا کی ہے یعنی نو ہزار نو صد ننانوے درہم اور ایک دینار اور اصل عقد والا ثمن حیلہ یعنی بیس ہزار درہم اس کے ذمے ہر گز نہیں ہونی چاہیے۔
لیکن ان حضرات نے استحقاق اور عیب میں فرق کیا ہے کہ اگرخریدار نے کسی کے استحقاق کی وجہ سے گھر واپس کیا ہے تو فروخت کرنے والے کے ذمے صرف وہی رقم واپس کرنا لازم آتا ہے جو اس نے نقد وصول کی ہے لیکن اگر عیب کی وجہ سے بیع ختم کی ہے تو پھر بیچنے والے کے ذمے پوری کی پوری رقم واجب الادا ہوگی جو سودا کرتے وقت طے ہوئی تھی۔
اسی طرح اگر شفعہ کرنے والا اس گھر کو لینا چاہے تو وہ بھی پوری طے شدہ قیمت یعنی بیس ہزار درہم ادا کر کے اس مکان کو لے سکے گا۔
اور یہ صریح تناقص ہے۔

ان حضرات نے شفعہ کرنے والے اور فروخت کرنے والے کے درمیان دھوکا فریب اور حیلہ سازی کو جائز قرار دیا ہے کہ بیچنے والے نے حق شفعہ ختم کرنے کے لیے فروخت شدہ مکان کی قیمت میں ظاہری طور پر اضافہ کر دیا۔
پھر کچھ رقم تو نقد لے لی اور باقی میں سے ایک دینار کے بدلے عقد صرف کر لیا۔
جس کی وجہ سے شفعہ کرنے والے کو مکان کی اصل مالیت کے اعتبار سے انتہائی اضافے کی وجہ سے شفعہ ترک کرنا پڑا۔
حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ مسلمانوں کی خریدو فروخت میں نہ تو بیماری کا عیب ہو اور نہ کوئی خباثت و شرارت کا پہلو ہو اور نہ وہاں فریب و دھوکے ہی کا اندیشہ ہو لہٰذا حق شفعہ ختم کرنے کے لیے حیلہ سازوں کی طرف سے یہ حیلہ سراسر حدیث نبوی کے خلاف ہے۔
پھر ان حضرات کا جب ہر طرف سے راستہ بند ہوا تو جواز حیلہ کا چور دروازہ کھولا یعنی ان کے نزدیک جواز حیلہ اور نفاذ حیلہ دو الگ الگ چیزیں ہیں یعنی عدم جواز حیلہ کے باوجود اگر کوئی حماقت کی بنا پر ایسا کرے تو یہ حیلہ ہو جائے گا۔
حالانکہ جو چیز ناجائز ہے وہ سرے سے نافذ ہی نہیں ہوتی۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا یہی موقف ہے جسے انھوں نے شروع ہی سے اختیار کیا ہے۔

بہر حال یہ حیلہ شفعہ کرنے والے کا حق غیر مؤثر کرنے کے لیے کیا گیا ہے جو اثبات حق کے بجائے ابطال حق کے لیے ہے لہٰذا ایسا کرنا ناجائز اور حرام ہے۔
ہمارے رجحان کے مطابق راجح موقف یہ ہے کہ خریدار عیب یا استحقاق دونوں صورتوں میں بیچنے والے سے وہی رقم لینے کا حق دار ہوگا جو اس نے بیچنے والے کودی ہے اور وہ نو ہزار نو سو ننانوے درہم اور ایک دینار ہے اور اسی طرح شفعہ کرنے والا بھی یہی رقم دے کر اس مکان کو خریدارسے لے سکتا ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6980