صحيح البخاري
كِتَاب التَّعْبِيرِ -- کتاب: خوابوں کی تعبیر کے بیان میں
9. بَابُ رُؤْيَا أَهْلِ السُّجُونِ وَالْفَسَادِ وَالشِّرْكِ:
باب: قیدیوں اور اہل شرک و فساد کے خواب کا بیان۔
لِقَوْلِهِ تَعَالَى وَدَخَلَ مَعَهُ السِّجْنَ فَتَيَانِ قَالَ أَحَدُهُمَا إِنِّي أَرَانِي أَعْصِرُ خَمْرًا وَقَالَ الآخَرُ إِنِّي أَرَانِي أَحْمِلُ فَوْقَ رَأْسِي خُبْزًا تَأْكُلُ الطَّيْرُ مِنْهُ نَبِّئْنَا بِتَأْوِيلِهِ إِنَّا نَرَاكَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ {36} قَالَ لا يَأْتِيكُمَا طَعَامٌ تُرْزَقَانِهِ إِلا نَبَّأْتُكُمَا بِتَأْوِيلِهِ قَبْلَ أَنْ يَأْتِيَكُمَا ذَلِكُمَا مِمَّا عَلَّمَنِي رَبِّي إِنِّي تَرَكْتُ مِلَّةَ قَوْمٍ لا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَهُمْ بِالآخِرَةِ هُمْ كَافِرُونَ {37} وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبَائِي إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ مَا كَانَ لَنَا أَنْ نُشْرِكَ بِاللَّهِ مِنْ شَيْءٍ ذَلِكَ مِنْ فَضْلِ اللَّهِ عَلَيْنَا وَعَلَى النَّاسِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَشْكُرُونَ {38} يَا صَاحِبَيِ السِّجْنِ أَأَرْبَابٌ مُتَفَرِّقُونَ سورة يوسف آية 36-39 وَقَالَ الْفُضَيْلُ عِنْدَ قَوْلِهِ يَا صَاحِبَيِ السِّجْنِ أَأَرْبَابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ {39} مَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلا أَسْمَاءً سَمَّيْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمْ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ بِهَا مِنْ سُلْطَانٍ إِنِ الْحُكْمُ إِلا لِلَّهِ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلا إِيَّاهُ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَعْلَمُونَ {40} يَا صَاحِبَيِ السِّجْنِ أَمَّا أَحَدُكُمَا فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْرًا وَأَمَّا الآخَرُ فَيُصْلَبُ فَتَأْكُلُ الطَّيْرُ مِنْ رَأْسِهِ قُضِيَ الأَمْرُ الَّذِي فِيهِ تَسْتَفْتِيَانِ {41} وَقَالَ لِلَّذِي ظَنَّ أَنَّهُ نَاجٍ مِنْهُمَا اذْكُرْنِي عِنْدَ رَبِّكَ فَأَنْسَاهُ الشَّيْطَانُ ذِكْرَ رَبِّهِ فَلَبِثَ فِي السِّجْنِ بِضْعَ سِنِينَ {42} وَقَالَ الْمَلِكُ إِنِّي أَرَى سَبْعَ بَقَرَاتٍ سِمَانٍ يَأْكُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَسَبْعَ سُنْبُلاتٍ خُضْرٍ وَأُخَرَ يَابِسَاتٍ يَأَيُّهَا الْمَلأُ أَفْتُونِي فِي رُؤْيَايَ إِنْ كُنْتُمْ لِلرُّؤْيَا تَعْبُرُونَ {43} قَالُوا أَضْغَاثُ أَحْلامٍ وَمَا نَحْنُ بِتَأْوِيلِ الأَحْلامِ بِعَالِمِينَ {44} وَقَالَ الَّذِي نَجَا مِنْهُمَا وَادَّكَرَ بَعْدَ أُمَّةٍ أَنَا أُنَبِّئُكُمْ بِتَأْوِيلِهِ فَأَرْسِلُونِ {45} يُوسُفُ أَيُّهَا الصِّدِّيقُ أَفْتِنَا فِي سَبْعِ بَقَرَاتٍ سِمَانٍ يَأْكُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَسَبْعِ سُنْبُلاتٍ خُضْرٍ وَأُخَرَ يَابِسَاتٍ لَعَلِّي أَرْجِعُ إِلَى النَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَعْلَمُونَ {46} قَالَ تَزْرَعُونَ سَبْعَ سِنِينَ دَأَبًا فَمَا حَصَدْتُمْ فَذَرُوهُ فِي سُنْبُلِهِ إِلا قَلِيلا مِمَّا تَأْكُلُونَ {47} ثُمَّ يَأْتِي مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ سَبْعٌ شِدَادٌ يَأْكُلْنَ مَا قَدَّمْتُمْ لَهُنَّ إِلا قَلِيلا مِمَّا تُحْصِنُونَ {48} ثُمَّ يَأْتِي مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ عَامٌ فِيهِ يُغَاثُ النَّاسُ وَفِيهِ يَعْصِرُونَ {49} وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُونِي بِهِ فَلَمَّا جَاءَهُ الرَّسُولُ قَالَ ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ سورة يوسف آية 39-50. وَادَّكَرَ افْتَعَلَ مِنْ ذَكَرَ أُمَّةٍ قَرْنٍ وَتُقْرَأُ أَمَهٍ نِسْيَانٍ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ يَعْصِرُونَ الْأَعْنَابَ وَالدُّهْنَ تُحْصِنُونَ تَحْرُسُونَ
‏‏‏‏ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اور (یوسف) کے ساتھ جیل خانہ میں دو اور جوان قیدی داخل ہوئے۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ میں خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ میں انگور کا شیرہ نچوڑ رہا ہوں اور دوسرے نے کہا کہ میں کیا دیکھتا ہوں کہ اپنے سر پر خوان میں روٹیاں اٹھائے ہوئے ہوں، اس میں سے پرندے نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں۔ آپ ہم کو ان کی تعبیر بتائیے، بیشک ہم تو آپ کو بزرگوں میں سے پاتے ہیں؟ وہ بولے جو کھانا تم دونوں کے کھانے کے لیے آتا ہے وہ ابھی آنے نہ پائے گا کہ میں اس کی تعبیر تم سے بیان کر دوں گا۔ اس سے پہلے کہ کھانا تم دونوں کے پاس آئے یہ اس میں سے ہے جس کی میرے پروردگار نے مجھے تعلیم دی ہے میں تو ان لوگوں کا مذہب پہلے ہی سے چھوڑے ہوئے ہوں جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتے اور آخرت کے وہ انکاری ہیں اور میں نے تو اپنے بزرگوں ابراہیم اور یعقوب اور اسحاق کا دین اختیار کر رکھا ہے۔ ہم کو کسی طرح لائق نہیں کہ اللہ کے ساتھ ہم کسی کو بھی شریک قرار دیں۔ یہ اللہ کا فضل ہے ہمارے اوپر اور سب لوگوں پر لیکن اکثر لوگ اس نعمت کا شکر ادا نہیں کرتے۔ اے میرے قیدی بھائیو! جدا جدا بہت سے معبود اچھے یا اللہ اکیلا اچھا جو سب پر غالب ہے؟ تم لوگ تو اسے چھوڑ کر بس چند فرضی خداؤں کی عبادت کرتے ہو جن کے نام تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے رکھ لیے ہیں۔ اللہ نے کوئی بھی دلیل اس پر نہیں اتاری۔ حکم صرف اللہ ہی کا ہے۔ اسی نے حکم دیا ہے کہ سوا اس کے کسی کی پوجا پاٹ نہ کرو۔ یہی دین سیدھا ہے لیکن اکثر لوگ علم نہیں رکھتے۔ اے میرے دوستو! تم میں سے ایک تو اپنے آقا کو شراب ملازم بن کر پلایا کرے گا اور رہا دوسرا تو اسے سولی دی جائے گی۔ پھر اس کے سر کو پرندے کھائیں گے۔ وہ کام اسی طرح لکھا جا چکا ہے جس کی بابت تم دونوں پوچھ رہے ہو اور دونوں میں سے جس کے متعلق رہائی کا یقین تھا اس سے کہا کہ میرا بھی ذکر اپنے آقا کے سامنے کر دینا لیکن اسے اپنے آقا سے ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا تو وہ جیل خانہ میں کئی سال تک رہے اور بادشاہ نے کہا کہ میں خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ سات موٹی گائیں ہیں اور انہیں کھائے جاتی ہیں سات دبلی گائیں اور سات بالیاں سبز اور سات ہی خشک، اے سردارو! مجھے اس خواب کی تعبیر بتاؤ اگر تم خواب کی تعبیر دے لیتے ہو۔ انہوں نے کہا کہ یہ تو پریشان خواب ہیں اور ہم پریشان خوابوں کی تعبیر کے ماہر نہیں ہیں اور دو قیدیوں میں سے جس کو رہائی مل گئی تھی وہ بولا اور اسے ایک مدت کے بعد یاد پڑا کہ میں ابھی اس کی تعبیر لائے دیتا ہوں، ذرا مجھے جانے دیجئیے۔ اے یوسف! اے خوابوں کی سچی تعبیر دینے والے! ہم لوگوں کو مطلب تو بتائیے اس خواب کا کہ سات گائیں موٹی ہیں اور انہیں سات دبلی گائیں کھائے جاتی ہیں اور سات بالیاں سبز ہیں اور سات ہی خشک تاکہ میں لوگوں کے پاس جاؤں کہ ان کو بھی معلوم ہو جائے۔ (یوسف علیہ السلام نے) کہا تم سات سال برابر کاشتکاری کئے جاؤ پھر جو فصل کاٹو اسے اس کی بالوں ہی میں لگا رہنے دو بجز تھوڑی مقدار کے کہ اسی کو کھاؤ پھر اس کے بعد سات سال سخت آئیں گے کہ اس ذخیرہ کو کھائیں جائیں گے جو تم نے جمع کر رکھا ہے بجز اس تھوڑی مقدار کے جو تم بیج کے لیے رکھ چھوڑو گے پھر اس کے بعد ایک سال آئے گا جس میں لوگوں کے لیے خوب بارش ہو گی اور اس میں وہ شیرہ بھی نچوڑیں گے اور بادشاہ نے کہا کہ یوسف کو میرے پاس لاؤ پھر جب قاصدان کے پاس پہنچا تو (یوسف علیہ السلام نے) کہا کہ اپنے آقا کے پاس واپس جاؤ۔ «وادكر‏»، «ذكر» سے افتعال کے وزن پر ہے۔ «أمة‏» (یسکون میم) بمعنی «قرن» یعنی زمانہ ہے اور بعض نے «أمة‏» (میم کے نصب کے ساتھ) پڑھا ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ «يعصرون» کا معنی انگور نچوڑیں گے اور تیل نکالیں گے۔ «تهنون‏» ای «تحرسون‏.‏» یعنی حفاظت کرو گے۔
حدیث نمبر: 6992
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَنَّ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ، وَأَبَا عُبَيْدٍ أَخْبَرَاهُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَوْ لَبِثْتُ فِي السِّجْنِ مَا لَبِثَ يُوسُفُ ثُمَّ أَتَانِي الدَّاعِي لَأَجَبْتُهُ".
ہم سے عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے جویریہ نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، انہیں سعید بن مسیب اور ابوعبیدہ نے خبر دی اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر میں اتنے دنوں قید میں رہتا جتنے دنوں یوسف علیہ السلام پڑے رہے اور پھر میرے پاس قاصد بلانے آتا تو میں اس کی دعوت قبول کر لیتا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6992  
6992. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے ورایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر میں اتنے دن قید میں رہتا جتنے دن حضرت یوسف ؑ ٹھہرے رہے، پھر میرے پاس بلانے والا آتا تو میں اس کی دعوت کو فوراً قبول کر لیتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6992]
حدیث حاشیہ:
مگر حضرت یوسف علیہ السلام کا جگر وحوصلہ تھا کہ اتنی مدت کے بعد بھی معاملہ کی صفائی تک جیل سے نکلنا پسند نہیں کیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6992   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6992  
6992. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے ورایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر میں اتنے دن قید میں رہتا جتنے دن حضرت یوسف ؑ ٹھہرے رہے، پھر میرے پاس بلانے والا آتا تو میں اس کی دعوت کو فوراً قبول کر لیتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6992]
حدیث حاشیہ:
حضرت یوسف علیہ السلام کا جگر گردہ مضبوط تھا کہ اتنی مدت کے بعد بھی معاملے کی صفائی تک جیل سے نکلنا پسند نہیں کیا، لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ حضرت یوسف علیہ السلام ہمارے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل ہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس قسم کے جذبات کا اظہار کیا وہ تواضع، انکسار یا کسی خاص مصلحت کے پیش نظر تھا۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6992