صحيح البخاري
كِتَاب التَّعْبِيرِ -- کتاب: خوابوں کی تعبیر کے بیان میں
12. بَابُ الرُّؤْيَا بِالنَّهَارِ:
باب: دن کے خواب کا بیان۔
حدیث نمبر: 7002
قَالَتْ: فَقُلْتُ: مَا يُضْحِكُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ: نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي عُرِضُوا عَلَيَّ غُزَاةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ، يَرْكَبُونَ ثَبَجَ هَذَا الْبَحْرِ، مُلُوكًا عَلَى الْأَسِرَّةِ أَوْ مِثْلَ الْمُلُوكِ عَلَى الْأَسِرَّةِ، شَكَّ إِسْحَاقُ، قَالَتْ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، فَدَعَا لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ وَضَعَ رَأْسَهُ ثُمَّ اسْتَيْقَظَ وَهُوَ يَضْحَكُ، فَقُلْتُ: مَا يُضْحِكُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ: نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي عُرِضُوا عَلَيَّ غُزَاةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَمَا قَالَ فِي الْأُولَى، قَالَتْ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، قَالَ: أَنْتِ مِنَ الْأَوَّلِينَ"، فَرَكِبَتِ الْبَحْرَ فِي زَمَانِ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، فَصُرِعَتْ عَنْ دَابَّتِهَا حِينَ خَرَجَتْ مِنَ الْبَحْرِ، فَهَلَكَتْ.
انہوں نے کہا کہ میں نے اس پر پوچھا: یا رسول اللہ! آپ کیوں ہنس رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت کے کچھ لوگ میرے سامنے اللہ کے راستے میں غزوہ کرتے ہوئے پیش کئے گئے، اس دریا کی پشت پر، وہ اس طرح سوار ہیں جیسے بادشاہ تخت پر ہوتے ہیں۔ اسحاق کو شک تھا (حدیث کے الفاظ «ملوكا على الأسرة» تھے یا «مثل الملوك على الأسرة» انہوں نے کہا کہ میں نے اس پر عرض کیا: یا رسول اللہ! دعا کیجئے کہ اللہ مجھے بھی ان میں سے کر دے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دعا کی پھر آپ نے سر مبارک رکھا (اور سو گئے) پھر بیدار ہوئے تو مسکرا رہے تھے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کیوں ہنس رہے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت کے کچھ لوگ میرے سامنے اللہ کے راستے میں غزوہ کرتے پیش کئے گئے۔ جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی مرتبہ فرمایا تھا۔ بیان کیا کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ سے دعا کریں کہ مجھے بھی ان میں سے کر دے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم سب سے پہلے لوگوں میں ہو گی۔ چنانچہ ام حرام رضی اللہ عنہا، معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں سمندری سفر پر گئیں اور جب سمندر سے باہر آئیں تو سواری سے گر کر شہید ہو گئیں۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7002  
7002. انہوں نے کہا: میں نے آپ سے دریافت کیا: اللہ کے رسول! آپ کیوں مسکرا رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا: میری امت کے کچھ لوگ میرے سامنے پیش کیے گئے جو اللہ کی راہ میں جہاد کر رہے ہیں، وہ سمندر کے وسط میں اس طرح سوار ہیں، گویا تختوں پر بیٹھے ہوئے بادشاہ ہیں۔ ام ملحان کہتی ہیں کہ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ دعا فرمائیں کہ اللہ مجھے بھی ان میں سے کر دے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کے لیے دعا فرمائی، پھر رسول اللہ ﷺ نے اپنا سر مبارک رکھا اور سو گئے، پھر جب بیدار ہوئے تو مسکرا رہے تھے۔ میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! آپ کیوں ہنس رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا: میری امت کے کچھ لوگ میرے سامنے لائے گئے جو اللہ کی راہ میں جہاد کر رہے ہیں آپ نے فرمایا: میری امت کے کچھ لوگ میرے سامنے لائے گئے جو اللہ کی راہ میں جہاد کر ر ہے ہیں۔ جیسا کہ آپ نے پہلی مرتبی فرمایا تھا۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! دعا فرمائیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7002]
حدیث حاشیہ:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی اہم دلیل ایک یہ حدیث بھی ہے کسی شخص کے حالات کی ایسی صحیح پیشین گوئی کرنا بجز پیغمبر کے اور کسی سے نہیں ہو سکتا۔
ابن تین نے کہا‘ بعضوں نے اس حدیث سے دلیل لی ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت بھی صحیح تھی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7002   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7002  
7002. انہوں نے کہا: میں نے آپ سے دریافت کیا: اللہ کے رسول! آپ کیوں مسکرا رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا: میری امت کے کچھ لوگ میرے سامنے پیش کیے گئے جو اللہ کی راہ میں جہاد کر رہے ہیں، وہ سمندر کے وسط میں اس طرح سوار ہیں، گویا تختوں پر بیٹھے ہوئے بادشاہ ہیں۔ ام ملحان کہتی ہیں کہ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ دعا فرمائیں کہ اللہ مجھے بھی ان میں سے کر دے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کے لیے دعا فرمائی، پھر رسول اللہ ﷺ نے اپنا سر مبارک رکھا اور سو گئے، پھر جب بیدار ہوئے تو مسکرا رہے تھے۔ میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! آپ کیوں ہنس رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا: میری امت کے کچھ لوگ میرے سامنے لائے گئے جو اللہ کی راہ میں جہاد کر رہے ہیں آپ نے فرمایا: میری امت کے کچھ لوگ میرے سامنے لائے گئے جو اللہ کی راہ میں جہاد کر ر ہے ہیں۔ جیسا کہ آپ نے پہلی مرتبی فرمایا تھا۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! دعا فرمائیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7002]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دن کے وقت حضرت ام حرام بنت ملحان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں تشریف لے گئے وہاں کھانا تناول کر کے ان کے ہاں محواستراحت ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں وہ کچھ دکھایا گیا جو بعد میں حرف بہ حرف پورا ہوا، چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں ایک لشکر بحری سفر پرروانہ ہوا۔
ان کے ساتھ حضرت ام حرام رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی تھیں۔
اس لشکر کے امیر حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔
جب وہ واپس آئے تو بحری بیڑے سے حضرت ام حرام رضی اللہ تعالیٰ عنہا اتریں۔
انھیں خشکی کے سفر کے لیے سواری مہیا کی گئی۔
وہ سواری سے گریں اور گردن ٹوٹ جانے کی وجہ سے جام شہادت نوش کیا۔
بہرحال خواب، خواہ دن کا ہوا یارات کا، اس میں کوئی فرق نہیں ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7002