صحيح البخاري
كِتَاب التَّعْبِيرِ -- کتاب: خوابوں کی تعبیر کے بیان میں
13. بَابُ رُؤْيَا النِّسَاءِ:
باب: عورتوں کے خواب کا بیان۔
حدیث نمبر: 7003
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي خَارِجَةُ بْنُ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، أَنَّ أُمَّ الْعَلَاءِ، امْرَأَةً مِنَ الْأَنْصَارِ، بَايَعَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَخْبَرَتْهُ" أَنَّهُمُ اقْتَسَمُوا الْمُهَاجِرِينَ قُرْعَةً، قَالَتْ: فَطَارَ لَنَا عُثْمَانُ بْنُ مَظْعُونٍ وَأَنْزَلْنَاهُ فِي أَبْيَاتِنَا، فَوَجِعَ وَجَعَهُ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ، فَلَمَّا تُوُفِّيَ غُسِّلَ وَكُفِّنَ فِي أَثْوَابِهِ، دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْكَ أَبَا السَّائِبِ فَشَهَادَتِي عَلَيْكَ لَقَدْ أَكْرَمَكَ اللَّهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَمَا يُدْرِيكِ أَنَّ اللَّهَ أَكْرَمَهُ؟، فَقُلْتُ: بِأَبِي أَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَمَنْ يُكْرِمُهُ اللَّهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَمَّا هُوَ فَوَاللَّهِ لَقَدْ جَاءَهُ الْيَقِينُ وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرْجُو لَهُ الْخَيْرَ، وَوَاللَّهِ مَا أَدْرِي وَأَنَا رَسُولُ اللَّهِ مَاذَا يُفْعَلُ بِي"، فَقَالَتْ: وَاللَّهِ لَا أُزَكِّي بَعْدَهُ أَحَدًا أَبَدًا.
ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، کہا مجھ سے لیث بن سعد نے بیان کیا، کہا مجھ سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، انہیں خارجہ بن ثابت نے خبر دی ‘ انہیں ام علاء رضی اللہ عنہا نے جو ایک انصاری عورت تھیں جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی خبر دی کہ انہوں نے مہاجرین کے ساتھ سلسلہ اخوت قائم کرنے کے لیے قرعہ اندازی کی تو ہمارا قرعہ عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کے نام نکلا۔ پھر ہم نے انہیں اپنے گھر میں ٹھہرایا۔ اس کے بعد انہیں ایک بیماری ہو گئی جس میں ان کی وفات ہو گئی۔ جب ان کی وفات ہو گئی تو انہیں غسل دیا گیا اور ان کے کپڑوں کا کفن دیا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ میں نے کہا ابوالسائب (عثمان رضی اللہ عنہ) تم پر اللہ کی رحمت ہو، تمہارے متعلق میری گواہی ہے کہ تمہیں اللہ نے عزت بخشی ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ اللہ نے انہیں عزت بخشی ہے۔ میں نے عرض کیا، میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں یا رسول اللہ! پھر اللہ کسے عزت بخشے گا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جہاں تک ان کا تعلق ہے تو یقینی چیز (موت) ان پر آ چکی ہے اور اللہ کی قسم میں بھی ان کے لیے بھلائی کی امید رکھتا ہوں اور اللہ کی قسم میں رسول اللہ ہونے کے باوجود حتمی طور پر نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا کیا جائے گا۔ انہوں نے اس کے بعد کہا کہ اللہ کی قسم اس کے بعد میں کبھی کسی کی برات نہیں کروں گی۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7003  
7003. حضرت خارجہ بن زید بن ثابت سے روایت ہے کہ ام العلا نامی انصاری عورت جس نے رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی تھی انہوں نے مجھے بتایا کہ جب انصار نے مہاجرین کو قرعہ اندازی کے ذریعے سے تقسیم کیا تو ہمارے حصے میں حضرت عثمان بن مظعون ؓ آئے۔ ہم نے انہیں اپنے گھر میں ٹھہرایا، پھر وہ بیمار ہوگئے۔ اور ان کی وفات ہو گئی۔ جب وہ فوت ہوئے تو انہیں غسل دے کر ان کے کپڑوں میں کفن دیا گیا۔ اس دوران میں رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو میں نے کہا: اے ابو سائب! تجھ پر اللہ کی رحمت ہو! تیرے لیے میری گواہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تجھے ضرور عزت دی ہوگی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ اللہ تعالٰی نے انہیں عزت بخشی ہے؟ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، پھر اللہ کس کو عزت دے گا؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ کی قسم! ان پر موت تو آچکی ہے اور اللہ کی قسم! میں بھی ان کے لیے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7003]
حدیث حاشیہ:
شاید یہ حدیث آپ نے اس وقت فرمائی ہو جب سورہ فتح کی آیت ﴿لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ﴾ (الفتح: 2)
ہوئی یا آپ نے تفصیلی حالات معلوم ہونے کی نفی کی ہو اور اجمالاً اپنی نجات کا یقین ہو جیسے آیت ﴿وَمَا أَدْرِي مَا يُفْعَلُ بِي وَلَا بِكُمْ﴾ (الأحقاف: 9)
میں مذکور ہوا۔
پادریوں کا یہاں اعتراض کرنا لغو ہے۔
بندہ کیسا ہی مقبول اور بڑے درجہ کا ہو لیکن بندہ ہے حق تعالیٰ کی حمدیت کے آگے وہ کانپتا رہتا ہے‘ نزدیکاں رابیش بود حیرانی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7003