صحيح البخاري
كِتَاب التَّعْبِيرِ -- کتاب: خوابوں کی تعبیر کے بیان میں
23. بَابُ التَّعْلِيقِ بِالْعُرْوَةِ وَالْحَلْقَةِ:
باب: کنڈے یا حلقے کو (خواب میں) پکڑ کر اس سے لٹک جانا۔
حدیث نمبر: 7014
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَزْهَرُ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ. ح وحَدَّثَنِي خَلِيفَةُ، حَدَّثَنَا مُعَاذٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ عُبَادٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ، قَالَ:" رَأَيْتُ كَأَنِّي فِي رَوْضَةٍ وَوَسَطَ الرَّوْضَةِ عَمُودٌ فِي أَعْلَى الْعَمُودِ عُرْوَةٌ، فَقِيلَ لِي، ارْقَهْ، قُلْتُ، لَا أَسْتَطِيعُ، فَأَتَانِي وَصِيفٌ فَرَفَعَ ثِيَابِي، فَرَقِيتُ، فَاسْتَمْسَكْتُ بِالْعُرْوَةِ، فَانْتَبَهْتُ وَأَنَا مُسْتَمْسِكٌ بِهَا، فَقَصَصْتُهَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: تِلْكَ الرَّوْضَةُ رَوْضَةُ الْإِسْلَامِ، وَذَلِكَ الْعَمُودُ عَمُودُ الْإِسْلَامِ، وَتِلْكَ الْعُرْوَةُ عُرْوَةُ الْوُثْقَى، لَا تَزَالُ مُسْتَمْسِكًا بِالْإِسْلَامِ حَتَّى تَمُوتَ".
مجھ سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے ازہر نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن عون نے (دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ اور مجھ سے خلیفہ نے بیان کیا، ان سے معاذ نے بیان کیا، ان سے ابن عون نے بیان کیا، ان سے محمد نے، ان سے قیس بن عباد نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے (خواب) دیکھا کہ گویا میں ایک باغ میں ہوں اور باغ کے بیچ میں ایک ستون ہے جس کے اوپر کے سرے پر ایک حلقہ ہے۔ کہا گیا کہ اس پر چڑھ جاؤ۔ میں نے کہا کہ میں اس کی طاقت نہیں رکھتا۔ پھر میرے پاس خادم آیا اور اس نے میرے کپڑے چڑھا دئیے پھر میں اوپر چڑھ گیا اور میں نے حلقہ پکڑ لیا، ابھی میں اسے پکڑے ہی ہوئے تھا کہ آنکھ کھل گئی۔ پھر میں نے اس کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ باغ اسلام کا باغ تھا اور وہ ستون اسلام کا ستون تھا اور وہ حلقہ «عروة الوثقى» تھا، تم ہمیشہ اسلام پر مضبوطی سے جمے رہو گے یہاں تک کہ تمہاری وفات ہو جائے گی۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3920  
´خواب کی تعبیر کا بیان۔`
خرشہ بن حرر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب میں مدینہ آیا تو مسجد نبوی میں چند بوڑھوں کے پاس آ کر بیٹھ گیا، اتنے میں ایک بوڑھا اپنی لاٹھی ٹیکتے ہوئے آیا، تو لوگوں نے کہا: جسے کوئی جنتی آدمی دیکھنا پسند ہو وہ اس شخص کو دیکھ لے، پھر اس نے ایک ستون کے پیچھے جا کر دو رکعت نماز ادا کی، تو میں ان کے پاس گیا، اور ان سے عرض کیا کہ آپ کی نسبت کچھ لوگوں کا ایسا ایسا کہنا ہے؟ انہوں نے کہا: الحمدللہ! جنت اللہ کی ملکیت ہے وہ جسے چاہے اس میں داخل فرمائے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک خواب دیکھا تھا، میں نے دیکھا، گویا ایک شخص میرے پاس آیا،۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب تعبير الرؤيا/حدیث: 3920]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ اسلام قبول کرنے سے پہلے یہودی مذہب پر تھےاور ان کے بہت بڑے عالم تھے۔

(2)
دین پر مرتے وقت دم تک قائم رہنا نجات کا باعث ہے۔

(3)
شہادت کے منصب کو پھسلواں پہاڑ سے تشبیہ دی گئی ہے کیونکہ جس طرح پھسلن والے پہاڑ پر چڑھنا مشکل ہوتا ہے اسی طرح جہاد کرکے شہادت حاصل کرنا، مشکل ہے لیکن وہ پہاڑ کی طرح بلند اور عظیم مقام ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3920   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7014  
7014. حضرت عبداللہ بن سلام ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے خواب میں دیکھا گویا میں ایک باغ میں ہوں اور باغ کے درمیان ایک ستون ہے اور ستون کے اوپر ایک کڑا ہے۔ مجھے کہا گیا: اس پر چڑھ جاؤ۔ میں نے کہا: مجھ میں اتنی ہمت نہیں ہے۔ اس دوران میں میرے پاس ایک خادم آیا۔ اس نے میرے کپڑے اٹھائے تو میں اوپر چڑھ گیا اور میں نے کڑے کو پکڑ لیا۔ میں اسے پکڑے ہوئے تھا کہ میری آنکھ کھل گئی۔ میں نے یہ خواب نبی ﷺ سے بیان کیا تو آپ نے فرمایا: وہ باغ، اسلام کا باغ تھا، وہ ستون اسلام کا ستون تھا اور وہ حلقہ عروہ وثقیٰ تھا۔ تم ہمیشہ اسلام پر مضبوطی سے جمے رہو گے یہاں تک کہ تمہاری وفات ہو جائے گی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7014]
حدیث حاشیہ:
اہل تعبیر کہتے ہیں کہ حلقہ اور عروہ سے مراد پکڑنے والے کی دینی قوت اور اس کا اخلاق ہے۔
حدیث میں عروہ ثقی سے درج ذیل آیت کریمہ کی طرف اشارہ ہے۔
جو شخص طاغوت کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لائے تو اس نے ایسے مضبوط حلقے کو تھام لیا جو کسی صورت میں ٹوٹ نہیں سکتا۔
(البقرة: 256/2)
حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب بیدار ہوئے تو عروہ ثقی ان کے ہاتھ میں تھا۔
شارحین نے دو طرح سے اس کا مفہوم بیان کیا ہے۔
میں اسے پکڑے ہوئے تھا کہ میری آنکھ کھل گئی یعنی خواب میں اسے پکڑے ہوئے تھا۔
یہ بھی ممکن ہے کہ بیداری کے وقت اللہ تعالیٰ کی قدرت سے حلقے اور کڑے کو پکڑے ہوئے تھے۔
اللہ تعالیٰ کے لیے ایسا کرنا مشکل نہیں۔
(عمدة القاري: 295/16)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7014