صحيح البخاري
كِتَاب الْعِلْمِ -- کتاب: علم کے بیان میں
5. بَابُ طَرْحِ الإِمَامِ الْمَسْأَلَةَ عَلَى أَصْحَابِهِ لِيَخْتَبِرَ مَا عِنْدَهُمْ مِنَ الْعِلْمِ:
باب: استاد اپنے شاگردوں کا علم آزمانے کے لیے ان سے کوئی سوال کرے (یعنی امتحان لینے کا بیان)۔
حدیث نمبر: 62
حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّ مِنَ الشَّجَرِ شَجَرَةً لَا يَسْقُطُ وَرَقُهَا وَإِنَّهَا مَثَلُ الْمُسْلِمِ، حَدِّثُونِي مَا هِيَ؟ قَالَ: فَوَقَعَ النَّاسُ فِي شَجَرِ الْبَوَادِي، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَوَقَعَ فِي نَفْسِي أَنَّهَا النَّخْلَةُ فَاسْتَحْيَيْتُ، ثُمَّ قَالُوا: حَدِّثْنَا مَا هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: هِيَ النَّخْلَةُ".
ہم سے خالد بن مخلد نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن دینار نے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ (ایک مرتبہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا درختوں میں سے ایک درخت ایسا ہے کہ اس کے پتے نہیں جھڑتے اور مسلمان کی بھی یہی مثال ہے بتلاؤ وہ کون سا درخت ہے؟ یہ سن کر لوگوں کے خیالات جنگل کے درختوں میں چلے گئے۔ عبداللہ نے کہا کہ میرے دل میں آیا کہ بتلا دوں کہ وہ کھجور کا درخت ہے لیکن (وہاں بہت سے بزرگ موجود تھے اس لیے) مجھ کو شرم آئی۔ آخر صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ ہی بیان فرما دیجیئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا کہ وہ کھجور کا درخت ہے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 630  
´سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما صاحب علم تھے`
«. . . 298- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إن من الشجر شجرة لا يسقط ورقها، وهى مثل الرجل المسلم، فحدثوني ما هي؟ فوقع الناس فى شجر البوادي، ووقع فى نفسي أنها النخلة، فاستحييت. فقالوا: حدثنا يا رسول الله ما هي؟ فقال: هي النخلة. قال عبد الله بن عمر: فحدثت بالذي وقع فى نفسي من ذلك عمر بن الخطاب، فقال عمر: لأن تكون قلتها أحب إلى من كذا وكذا. كمل حديثه عن عبد الله بن عمر، وتقدم حديثه لا ينظر الله فى باب زيد وحدث في صلاة الليل فى باب نافع. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: درختوں میں سے ایک ایسا درخت ہے جس کے پتے (سارا سال) نہیں گرتے اور اس کی مثال مسلمان آدمی کی طرح ہے، مجھے بتاؤ کہ یہ کون سا درخت ہے؟ تو لوگ جنگل کے درختوں کے بارے میں سوچنے لگے اور میرے دل میں آیا کہ یہ کھجور کا درخت ہے لیکن میں حیا کی وجہ سے نہ بولا: پھر لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ! ہمیں بتائیے کہ یہ کون سا درخت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ کھجور کا درخت ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: پھر میں نے (اپنے والد) عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے وہ بات کہی جو میرے دل میں آئی تھی تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر تم یہ بات (اس وقت) کہہ دیتے تو میرے نزدیک فلاں فلاں چیز سے بھی زیادہ پسندیدہ ہوتی۔ عبداللہ بن دینار کی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کردہ حدیثیں مکمل ہو گئیں اور ایک حدیث زید (بن اسلم) کے باب [ ح ۱۶۵] میں گزر چکی ہے اور دوسری نافع کے باب [ ح ۲۰۲] میں گزر چکی ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 630]

تخریج الحدیث: [وأخرجه الجوهري486، من حديث مالك به ورواه البخاري 131، من حديث مالك، ومسلم 2811، من حديث عبدالله بن دينار به]
تفقه:
➊ یہ روایت محمد بن الحسن الشیبانی کی طرف منسوب [الموطأ ص399، 400 ح964] میں بھی امام مالک کی سند سے موجود ہے۔
➋ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بہت بڑے عالم تھے۔
➌ علم کی باتیں پوچھنے اور بتانے سے شرم نہیں کرنی چاہئے۔
➍ کھجور کا درخت برکت والا درخت ہے۔
➎ بعض اوقات پہیلی نما سوال کرکے شاگردوں کے علم کا امتحان لیا جاسکتا ہے۔
➏ علم سمجھنے کے لئے پوری کوشش کے ساتھ ہر وقت مصروف رہنا چاہئے۔
➐ اگر شریعت کی مخالفت نہ ہو رہی ہو تو ہر وقت بڑوں کا احترام ضروری ہے۔
➑ کسی چیز کے ساتھ مشابہت کا یہ مطلب نہیں کہ دونوں چیزیں ہر صفت میں ایک جیسی ہوں۔
➒ صحیح سچے مسلمان کا کتاب وسنت کے مطابق ہر کام خیر ہی خیر ہوتا ہے۔
➓ مزید فوائد کے لئے دیکھئے [فتح الباري 1/145 147 ح61]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 298   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 61  
´لفظ «حدثنا أو، أخبرنا وأنبأنا» استعمال کرنا صحیح ہے`
«. . . قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ مِنَ الشَّجَرِ شَجَرَةً لَا يَسْقُطُ وَرَقُهَا وَإِنَّهَا مَثَلُ الْمُسْلِمِ، فَحَدِّثُونِي مَا هِيَ؟ . . .»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا درختوں میں ایک درخت ایسا ہے کہ اس کے پتے نہیں جھڑتے اور مسلمان کی مثال اسی درخت کی سی ہے۔ بتاؤ وہ کون سا درخت ہے؟ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 61]

تشریح:
اس روایت کو حضرت امام قدس سرہ اس باب میں اس لیے لائے ہیں کہ اس میں لفظ «حدثنا وحدثوني» خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی زبانوں سے بولے گئے ہیں۔ پس ثابت ہو گیا کہ یہ اصطلاحات عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروج ہیں۔ بلکہ خود قرآن مجید ہی سے ان سب کا ثبوت ہے۔ جیسا کہ سورۃ تحریم میں ہے «قَالَتْ مَنْ أَنْبَأَكَ هَـذَا قَالَ نَبَّأَنِيَ الْعَلِيمُ الْخَبِيرُ» [66-التحريم:3] (اس عورت نے کہا کہ آپ کو اس بارے میں کس نے خبر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھ کو اس نے خبر دی جو جاننے والا خبر رکھنے والا پروردگار عالم ہے۔) پس منکرین حدیث کی یہ ہفوات کہ علم حدیث عہد نبوی کے بعد کی ایجاد ہے بالکل غلط اور قرآن مجید کے بالکل خلاف اور واقعات کے بھی خلاف ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 61   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 62  
´طالب علموں کا امتحان لینا`
«. . . عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّ مِنَ الشَّجَرِ شَجَرَةً لَا يَسْقُطُ وَرَقُهَا وَإِنَّهَا مَثَلُ الْمُسْلِمِ، حَدِّثُونِي مَا هِيَ؟ . . .»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ (ایک مرتبہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا درختوں میں سے ایک درخت ایسا ہے کہ اس کے پتے نہیں جھڑتے اور مسلمان کی بھی یہی مثال ہے بتلاؤ وہ کون سا درخت ہے؟ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 62]

تشریح:
اس حدیث اور واقعہ نبوی سے طالب علموں کا امتحان لینا ثابت ہوا۔ جب کہ کھجور کے درخت سے مسلمان کی تشبیہ اس طرح ہوئی کہ مسلمان «متوكل على الله» ہو کر ہر حال میں ہمیشہ خوش و خرم رہتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 62   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 131  
´حصول علم میں شرمانا مناسب نہیں ہے`
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ مِنَ الشَّجَرِ شَجَرَةً لَا يَسْقُطُ وَرَقُهَا وَهِيَ مَثَلُ الْمُسْلِمِ، حَدِّثُونِي مَا هِيَ؟ فَوَقَعَ النَّاسُ فِي شَجَرِ الْبَادِيَةِ، وَوَقَعَ فِي نَفْسِي أَنَّهَا النَّخْلَةُ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَاسْتَحْيَيْتُ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَخْبِرْنَا بِهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هِيَ النَّخْلَةُ "، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَحَدَّثْتُ أَبِي بِمَا وَقَعَ فِي نَفْسِي، فَقَالَ: لَأَنْ تَكُونَ قُلْتَهَا أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ يَكُونَ لِي كَذَا وَكَذَا . . .»
. . . عبداللہ بن عمر سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک مرتبہ) فرمایا کہ درختوں میں سے ایک درخت (ایسا) ہے۔ جس کے پتے (کبھی) نہیں جھڑتے اور اس کی مثال مسلمان جیسی ہے۔ مجھے بتلاؤ وہ کیا (درخت) ہے؟ تو لوگ جنگلی درختوں (کی سوچ) میں پڑ گئے اور میرے دل میں آیا (کہ میں بتلا دوں) کہ وہ کھجور (کا پیڑ) ہے، عبداللہ کہتے ہیں کہ پھر مجھے شرم آ گئی (اور میں چپ ہی رہا) تب لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ ہی (خود) اس کے بارہ میں بتلائیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، وہ کھجور ہے۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ میرے جی میں جو بات تھی وہ میں نے اپنے والد (عمر رضی اللہ عنہ) کو بتلائی، وہ کہنے لگے کہ اگر تو (اس وقت) کہہ دیتا تو میرے لیے ایسے ایسے قیمتی سرمایہ سے زیادہ محبوب ہوتا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/بَابُ الْحَيَاءِ فِي الْعِلْمِ:: 131]

تشریح:
اس سے قبل بھی دوسرے باب کے تحت یہ حدیث آ چکی ہے۔ یہاں اس لیے بیان کی ہے کہ اس میں شرم کا ذکر ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اگر شرم نہ کرتے تو جواب دینے کی فضیلت انہیں حاصل ہو جاتی، جس کی طرف حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اشارہ فرمایا کہ اگر تم بتلا دیتے تو میرے لیے بہت بڑی خوشی ہوتی۔ اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ ایسے موقع پر شرم سے کام نہ لینا چاہئیے۔ اس سے اولاد کی نیکیوں اور علمی صلاحیتوں پر والدین کا خوش ہونا بھی ثابت ہوا جو ایک فطری امر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 131   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:62  
62. حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: درختوں میں ایک درخت ایسا ہے جس کے پتے نہیں جھڑتے اور وہ مسلمان کے مشابہ ہے۔ مجھے بتلاؤ وہ کون سا درخت ہے؟ اس پر لوگوں نے صحرائی درختوں کا خیال کیا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میرے دل میں آیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے (لیکن بزرگوں کی موجودگی میں بتانے سے مجھے شرم آئی۔) آخر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا: اللہ کے رسول! آپ ہی بتا دیجیے وہ کون سا درخت ہے؟ آپ نے فرمایا:وہ کھجور کا درخت ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:62]
حدیث حاشیہ:

اس سے معلوم ہوا کہ استاد طلباء کو بیدار رکھنے اور ان کی توجہ سبق میں رکھنے کے لیے ان سے وقتاً فوقتاً سوالات کرتا رہے۔
اس کے دو فائدے ہوتے ہیں:
ایک تو یہ کہ طلباء ہروقت ہوشیار اور بیدار رہتے ہیں۔
دوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ استاد کو طالب علم کے مرتبہ علم کا اندازہ ہوجاتا ہے تاکہ اس کے مرتبے کے مطابق اس سے گفتگو کی جائے، اگرانفرادی توجہ کی ضرورت ہے تو اس سے بھی بخل نہ کیاجائے۔

اس سے طریقہ امتحان کا بھی پتہ چلتا ہے کہ طالب علم کے سامنے کوئی ایسی چیز پیش کی جائے جس میں کچھ پیچیدگی ہو، نہ تو اتنی آسان ہو کہ اس میں غوروفکر کی ضرورت ہی نہ پڑے اور نہ اس درجہ مشکل ہی ہو کہ قوت ونظر وفکر کے صرف کرنے کے بعد بھی وہ حل نہ ہوسکے، نیز امتحان ایسی چیزوں سے لیا جائے جو مسئول کی سمجھ سے بالاتر نہ ہوں اور جس چیز کے متعلق سوال کیا جائے اس کا کچھ اتا پتا دیاجائے تاکہ ان ارشادات کی مدد سے طالب علم ا س کا حل تلاش کرسکے۔

اس حدیث میں کھجور کو مسلمان سے تشبیہ دی گئی ہے۔
وجہ تشبیہ یہ ہے کہ اس کی برکت مسلمان کی برکت جیسی ہے۔
ایک روایت میں اس کی وضاحت بھی ہے۔
(صحیح البخاري، الأطعمة، حدیث: 5444)
مسلمان کی شان یہ ہے کہ وہ زندگی اور موت دونوں حالتوں میں دوسروں کے لیے سرچشمہ خیر ہوتا ہے اسی طرح کسی بھی حالت میں بے کار نہیں۔
کھجور کے پھل کچے پکے ہر طرح کارآمد ہیں، اس کے پتے بھی کام آتے ہیں۔
اس کا تنا بھی نفع بخش ہوتا ہے، اس کے چھاگل سے رسیاں بنائی جاتی ہیں اور اسے تکیوں میں بھرا جاتا ہے، اس کی گٹھلیاں انسانوں اور حیوانوں کے کام آتی ہیں۔
کھجور کے بےشمار طبی فوائد ہیں جو ہمارے موضوع سے خارج ہیں، البتہ دومجرب فوائد ذکر کیے جاتے ہیں۔
(الف)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود انھیں بکثرت استعمال کرتے تھے، نیز آپ نے جادوسے بچاؤ کے لیے عجوہ کھجوروں کے استعمال کی تلقین فرمائی ہے۔
اس کے علاوہ تجربہ کار کہنہ مشق اطباء مردانگی کے زیور کی حفاظت یا بحالی کے لیے چھوہاروں اور معجون آردخرما تجویز کرتے ہیں۔
(ب)
بچے کی ولادت کے وقت بیشتر خواتین موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا ہوجاتی ہیں، ایسے موقع پر تازہ کھجوروں کا استعمال جادواثر رکھتا ہے اس کا اشارہ سورۂ مریم آیت: 25 میں واضح طور پر ملتا ہے۔

اس سے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی زیرکی اور دانائی کا بھی پتہ چلتا ہے اگرچہ اس وقت دو واضح اشارے موجود تھے شاید ان اشاروں کی مدد سے آپ کی جواب تک رسائی ہوئی ہو۔
(الف)
آپ کے پاس جمار(کھجور کا گودا)
لایا گیا اور آپ اسے تناول فرمانے لگے۔
اسی اثناء میں آپ نے یہ سوال کیا۔
(ب)
آپ نے دوران سوال میں اس کا فائدہ بایں الفاظ بتایا کہ اپنے پروردگار کے حکم سے ہر وقت پھل لاتا ہے قرآن کریم میں یہ وصف شجرہ طیبہ کا بیان ہوا ہے۔
اور اس سے مراد کھجور کا درخت ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 62