صحيح البخاري
كِتَاب التَّعْبِيرِ -- کتاب: خوابوں کی تعبیر کے بیان میں
33. بَابُ الطَّوَافِ بِالْكَعْبَةِ فِي الْمَنَامِ:
باب: خواب میں کعبہ کا طواف کرنا۔
حدیث نمبر: 7026
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ رَأَيْتُنِي أَطُوفُ بِالْكَعْبَةِ، فَإِذَا رَجُلٌ آدَمُ سَبْطُ الشَّعَرِ بَيْنَ رَجُلَيْنِ يَنْطُفُ رَأْسُهُ مَاءً، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟، قَالُوا: ابْنُ مَرْيَمَ، فَذَهَبْتُ أَلْتَفِتُ فَإِذَا رَجُلٌ أَحْمَرُ جَسِيمٌ جَعْدُ الرَّأْسِ أَعْوَرُ الْعَيْنِ الْيُمْنَى كَأَنَّ عَيْنَهُ عِنَبَةٌ طَافِيَةٌ، قُلْتُ: مَنْ هَذَا؟، قَالُوا: هَذَا الدَّجَّالُ أَقْرَبُ النَّاسِ بِهِ شَبَهًا ابْنُ قَطَنٍ، وَابْنُ قَطَنٍ رَجُلٌ مِنْ بَنِي الْمُصْطَلِقِ مِنْ خُزَاعَةَ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے خبر دی، انہیں سالم بن عبداللہ ابن عمر نے خبر دی، ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں سویا ہوا تھا کہ میں نے اپنے آپ کو کعبہ کا طواف کرتے دیکھا۔ اچانک ایک صاحب نظر آئے، گندم گوں بال لٹکے ہوئے تھے اور دو آدمیوں کے درمیان (سہارا لیے ہوئے تھے) ان کے سر سے پانی ٹپک رہا تھا۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ کہا کہ عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام، پھر میں مڑا تو ایک دوسرا شخص سرخ، بھاری جسم والا، گھنگریالے بال والا اور ایک آنکھ سے کانا جیسے اس کی آنکھ پر خشک انگور ہو نظر آیا۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ کہا کہ یہ دجال ہے۔ اس کی صورت عبدالعزیٰ بن قطن سے بہت ملتی تھی۔ یہ عبدالعزیٰ بن قطن مطلق میں تھا جو قبیلہ خزاعہ کی ایک شاخ ہے۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7026  
7026. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک دفعہ میں سو رہا تھا کہ میں نے خود کو کعبہ کا طواف کرتے ہوئے دیکھا۔ اس دوران میں نے ایک گندم گوں آدمی دیکھا جس کے بال سیدھے تھے۔ وہ دو آدمیوں کے درمیان اس حالت میں تھا کہ اس کے سر سے پانی ٹپک رہا تھا۔ میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ انہوں نے کہا: یہ عیسیٰ ابن مریم ہیں۔ پھر میں جانے لگا تو اچانک ایک سرخ بھاری جسم والے پر نظر پڑی جس کے بال گھنگریالے تھے اور وہ دائیں آنکھ سے کانا تھا، گویا اس کی آنکھ ابھرے ہوئے انگور کی طرح تھی۔ میں ںے پوچھا: یہ کون ہے؟ انہوں نے بتایا: یہ دجال ہے۔ اس کی شکل وصورت ابن قطن سے ملتی جلتی تھی۔ ابن قطن خزاعہ قبیلے سے بنو مصطلق کا ایک فرد تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7026]
حدیث حاشیہ:

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے سر سے پانی ٹپکنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے بال بہت سفید اور نورانی تھے۔
ان کی لطافت و نظافت کو پانی کے قطرے ٹپکنے سے تعبیر کیا گیا ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سرخ رنگ کے تھے۔
(صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث 3438)
جبکہ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ قسم اٹھا کر اس بات کا انکار کرتے تھے۔
(صحیح البخاري:
أحادیث الأنبیاء، حدیث: 3441)

ممکن ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ الفاظ نہ سنے ہوں یا سننے کے بعد سہوو نسیان کا شکار ہو گئے ہوں۔

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ان روایات میں اس طرح تطبیق دی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام خالص سرخ رنگ کے نہ تھے بلکہ اس میں سفیدی بھی تھی بلکہ ایک روایت میں صراحت ہے کہ ان کے رنگ میں سرخ اور سفید دونوں کی جھلک تھی۔
(صحیح البخاري، بدء الخلق، حدیث: 3239 وفتح الباري: 593/6)

دجال اپنے ظاہر ہونے کے بعد مکہ مکرمہ میں داخل نہیں ہو سکے گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےدجال کو اس کے ظاہر ہونے سے پہلے خواب کی حالت میں دیکھا ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7026