صحيح البخاري
كِتَاب الْفِتَنِ -- کتاب: فتنوں کے بیان میں
16. بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْفِتْنَةُ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ»:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا ”فتنہ مشرق کی طرف سے اٹھے گا“۔
حدیث نمبر: 7095
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ شَاهِينَ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ بَيَانٍ، عَنْ وَبَرَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ:" خَرَجَ عَلَيْنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، فَرَجَوْنَا أَنْ يُحَدِّثَنَا حَدِيثًا حَسَنًا، قَالَ: فَبَادَرَنَا إِلَيْهِ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدِّثْنَا عَنِ الْقِتَالِ فِي الْفِتْنَةِ، وَاللَّهُ يَقُولُ: وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لا تَكُونَ فِتْنَةٌ سورة البقرة آية 193، فَقَالَ: هَلْ تَدْرِي مَا الْفِتْنَةُ ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ؟، إِنَّمَا كَانَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وسلم يُقَاتِلُ الْمُشْرِكِينَ وَكَانَ الدُّخُولُ فِي دِينِهِمْ فِتْنَةً، وَلَيْسَ كَقِتَالِكُمْ عَلَى الْمُلْكِ".
ہم سے اسحاق بن شاہین واسطی نے بیان کیا، کہا ہم سے خلف بن عبداللہ طحان نے بیان کیا، ان سے بیان ابن بصیر نے، ان سے وبرہ بن عبدالرحمٰن نے، ان سے سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہمارے پاس آئے تو ہم نے امید کی کہ وہ ہم سے کوئی اچھی بات کریں گے۔ اتنے میں ایک صاحب حکیم نامی ہم سے پہلے ان کے پاس پہنچ گئے اور پوچھا: اے ابوعبدالرحمٰن! ہم سے زمانہ فتنہ میں قتال کے متعلق حدیث بیان کیجئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا تمہیں معلوم بھی ہے کہ فتنہ کیا ہے؟ تمہاری ماں تمہیں روئے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم فتنہ رفع کرنے کے لیے مشرکین سے جنگ کرتے تھے، شرک میں پڑنا یہ فتنہ ہے۔ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لڑائی تم لوگوں کی طرح بادشاہت حاصل کرنے کے لیے ہوتی تھی؟
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7095  
7095. حضرت سعید بن جبیر سے روایت ہے انہوں نے کہاَ: حضرت عبداللہ بن عمر ؓ ہمارے پاس آئے تو ہم نے امید کی کہ وہ ہم سے کوئی عمدہ حدیث بیان کریں گے۔ اس دوران میں ایک آدمی ہم سے پہلے ان کے پاس پہنچ گیا اور کہنے لگا: اے ابو عبدالرحمن! ہمیں فتنے کے دور میں جنگ و قتال کے متعلق کوئی حدیث بیان کریں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: تم ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ کوئی فتنہ باقی نہ رہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تجھے تیری ماں روئے! کیا تجھے معلوم ہے کہ فتنہ کیا ہوتا ہے؟ حضرت محمد ﷺتو (فتنہ ختم کرنے کے لیے) مشرکین سے جنگ کرتے تھے ان کے نزدیک مسلمانوں کا دین اسلام میں داخل ہونا فتنہ تھا۔ رسول اللہ ﷺ کی جنگ تمہاری طرح ملک گیری کے لیے نہ تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7095]
حدیث حاشیہ:
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا یہ خیال تھا کہ جب مسلمانوں میں آپس میں فتنہ ہو تو لڑنا درست نہیں۔
دونوں طرف والوں سے الگ رہ کر خاموش گھر میں بیٹھنا چاہئے۔
اسی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے شریک رہے نہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے۔
اس شخص نے گویا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو جواب دیا کہ اللہ تو فتنہ رفع کرنے کا حکم دیتا ہے اور تم فتنے میں لڑنا منع کرتے ہو۔
آیت (وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ) (البقرة: 193)
میں فتنہ سے مراد شرک ہے۔
یعنی مشرکوں سے لڑو تاکہ دنیا میں توحید پھیلے۔
اسلامی لڑائی صرف توحید پھیلانے کے لئے ہوتی ہے۔
فتنے سے متعلق لفظ مشرق والی حدیث کی مزید تشریح پارہ 30 کے خاتمہ پر ملاحظہ کی جائے۔
(راز)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7095   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7095  
7095. حضرت سعید بن جبیر سے روایت ہے انہوں نے کہاَ: حضرت عبداللہ بن عمر ؓ ہمارے پاس آئے تو ہم نے امید کی کہ وہ ہم سے کوئی عمدہ حدیث بیان کریں گے۔ اس دوران میں ایک آدمی ہم سے پہلے ان کے پاس پہنچ گیا اور کہنے لگا: اے ابو عبدالرحمن! ہمیں فتنے کے دور میں جنگ و قتال کے متعلق کوئی حدیث بیان کریں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: تم ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ کوئی فتنہ باقی نہ رہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تجھے تیری ماں روئے! کیا تجھے معلوم ہے کہ فتنہ کیا ہوتا ہے؟ حضرت محمد ﷺتو (فتنہ ختم کرنے کے لیے) مشرکین سے جنگ کرتے تھے ان کے نزدیک مسلمانوں کا دین اسلام میں داخل ہونا فتنہ تھا۔ رسول اللہ ﷺ کی جنگ تمہاری طرح ملک گیری کے لیے نہ تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7095]
حدیث حاشیہ:

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے یہ تھی کہ فتنے کے زمانے میں مسلمانوں کا آپس میں جنگ کرنا جائز نہیں۔
آیت کریمہ میں "فتنہ" سے مراد کفر ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگ کفر ختم کرنے کے لیے تھی اور اب اسلام کاغلبہ ہے، کفر مغلوب ہو چکا ہے لیکن تمہاری جنگ کفر کے خاتمے کے لیے نہیں بلکہ ملک گیری اور لوگوں میں فساد برپا کرنے کے لیے ہے۔
میرے نزدیک ایسی جنگ جائز نہیں، اس لیے اس میں اتنا حصہ نہیں لیتا۔

جمہور اہل علم کا موقف ہے کہ جب ایک گروہ کے متعلق پتا چل جائے گا کہ وہ باغی ہے تو ایسے حالات میں اسے اطاعت کی طرف لانے کے لیے جنگ کرنا فتنہ نہیں جیسا کہ قرآن کریم میں ہے:
اور اگراہل ایمان کے دوگروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرادو،پھر اگر ان میں کوئی فریق دوسرے پر زیادتی کرتا ہے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے۔
(الحجرات 9)
ایک دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس دو آدمی آئے اور کہنے لگے کہ لوگوں کا قتل ہو رہا ہے اور آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی جلیل ہیں، آپ اس کے لیے کوئی اقدام کیوں نہیں کرتے جبکہ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے:
تم ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ نہ رہے۔
(البقرہ 193)
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا:
ہم نے لڑائی کر کے فتنہ ختم کر دیا تھا اورہمارے دور میں اللہ تعالیٰ کا دین غالب ہو چکا تھا، لیکن تمہاری لڑائی کا مقصد یہ ہے کہ فتنہ مزید بھڑکے اور دین بھی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے لیے ہو جائے۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4513)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7095