صحيح البخاري
كِتَاب الْأَذَانِ -- کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
62. بَابُ إِذَا صَلَّى لِنَفْسِهِ فَلْيُطَوِّلْ مَا شَاءَ:
باب: جب اکیلا نماز پڑھے تو جتنی چاہے طویل کر سکتا ہے۔
حدیث نمبر: 703
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ لِلنَّاسِ فَلْيُخَفِّفْ، فَإِنَّ مِنْهُمُ الضَّعِيفَ وَالسَّقِيمَ وَالْكَبِيرَ، وَإِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ لِنَفْسِهِ فَلْيُطَوِّلْ مَا شَاءَ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے ابوالزناد سے خبر دی، انہوں نے اعرج سے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جب کوئی تم میں سے لوگوں کو نماز پڑھائے تو تخفیف کرے کیونکہ جماعت میں ضعیف بیمار اور بوڑھے (سب ہی) ہوتے ہیں، لیکن اکیلا پڑھے تو جس قدر جی چاہے طول دے سکتا ہے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 93  
´امام کو بیمار اور بوڑھے لوگوں کاخیال رکھنا چاہئیے`
«. . . 326- وبه: عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: إذا صلى أحدكم بالناس فليخفف فإن فيهم السقيم والضعيف والكبير وإذا صلى لنفسه فليطول ما شاء . . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص لوگوں کو نماز پڑھائے تو اس میں تخفیف کرے کیونکہ لوگوں میں بیمار، کمزور اور بوڑھے بھی ہوتے ہیں اور جب اکیلے نماز پڑھے تو جتنی چاہے لمبی پڑھے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 93]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 703، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ امام کو چاہئے کہ مسنون قرأت کے علاوہ عام فرض نمازوں میں لمبی قرأت نہ کرے۔
➋ مقتدیوں کا خیال رکھنا مسنون ہے۔
➌ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں (نماز میں) تخفیف کا حکم دیتے اور ہمیں سورۂ صافات کی قرأت کے ساتھ نماز پڑھاتے تھے۔ [السنن المجتبيٰ للنسائي 2/95 ح827 وسنده حسن وصححه ابن خزيمه: 1606]
تخفیف سے مراد یہ نہیں ہے کہ رکوع وسجود ادھورے کئے جائیں بلکہ تخفیف کا مطلب یہ ہے کہ خشوع وخضوع کے ساتھ مختصر اور مسنون نماز ادا کی جائے۔
➍ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے لوگو! اللہ کے بندوں کے دلوں میں اللہ کی نفرت پیدا نہ کرو۔ پوچھا گیا: یہ کیسے ہے؟ فرمایا: ایک آدمی لوگوں کا امام بن کر اتنی لمبی نماز پڑھائے کہ لوگ بغض کرنے لگیں اور لوگوں کی نصیحت کے لئے تقریر کرنے بیٹھے تو اتنی لمبی تقریر کرے کہ لوگ بغض کرنے لگیں۔ [التمهيد 19/11، طبع جديده ج4 ص264 وسنده حسن]
● معلوم ہوا کہ ساری ساری رات تقریریں یا بہت لمبی تقریریں کرنا اچھا کام نہیں ہے۔ تقریر ہو یا نماز دونوں صورتوں میں لوگوں کا خیال رکھنا چاہئے۔
➎ نافع رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں ایک نماز میں ابن عمر (رضی اللہ عنہ) کے پیچھے کھڑا ہوگیا، میرے ساتھ کوئی دوسرا نہیں تھا پھر انہوں نے مجھے اپنے برابر کردیا۔ [الموطأ 1/134 ح300 وسنده صحيح]
➏ ایک آدمی کے باپ کا علم نہیں تھا کہ کون ہے تو اسے عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے امامت سے ہٹا دیا تھا۔ دیکھئے الموطأ [1/134 ح301 وهو صحيح]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 326   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 795  
´نماز ہلکی پڑھنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص لوگوں کو نماز پڑھائے تو ہلکی پڑھائے کیونکہ ان میں بیمار، بڑے بوڑھے، اور حاجت مند لوگ (بھی) ہوتے ہیں۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 795]
795۔ اردو حاشیہ:
نماز ہلکی اور مختصر ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ قرأت مختصر اور اذکار تسبیحات کی تعداد مناسب حد تک کم ہو، اہم شرط یہ ہے کہ ارکان میں اعتدال و اطمینان ہو، عدم اعتدال سے نماز باطل ہو جاتی ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 795   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 325  
´نماز باجماعت اور امامت کے مسائل کا بیان`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی لوگوں کی امامت کے فرائض انجام دے تو اسے قرآت میں تخفیف کرنی چاہیئے۔ اس لئے کہ مقتدیوں میں بچے، بوڑھے، کمزور اور حاجت مند لوگ ہوتے ہیں جب تنہا نماز پڑھے تو پھر جس طرح چاہے پڑھے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 325»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الأذان، باب إذا صلي لنفسه فليطول ما شاء، حديث:703، واللفظ مركب، ومسلم، الصلاة، باب أمر الأئمة بتخفيف الصلاة في تمام، حديث:467.»
تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایک آدمی جب فریضہ ٔ امامت ادا کر رہا ہو تو اس وقت نماز میں لمبی قراء ت سے احتیاط کرنی چاہیے‘ اس لیے کہ جماعت میں ہر قسم کے لوگ شریک ہوتے ہیں۔
سب کی ضروریات و حاجات پیش نظر رکھنی چاہییں‘ البتہ جب آدمی اکیلا نماز پڑھتا ہے تو اسے اپنے اشغال‘ ضروریات اور حالات کا اچھی طرح علم ہوتا ہے۔
تو ایسا آدمی فرصت اور قوت کے مطابق جتنی چاہے لمبی قراء ت کرے اسے اختیار ہے‘ مگر بیماری اور ضرورت کے وقت اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا کسی صورت میں بھی درست اور جائز نہیں۔
شریعت نے نفس کا بھی حق رکھا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 325   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 236  
´جب تم میں سے کوئی امامت کرے تو نماز ہلکی پڑھائے۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی لوگوں کی امامت کرے تو چاہیئے کہ ہلکی نماز پڑھائے، کیونکہ ان میں چھوٹے، بڑے، کمزور اور بیمار سبھی ہوتے ہیں اور جب وہ تنہا نماز پڑھے تو جیسے چاہے پڑھے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 236]
اردو حاشہ:
1؎:
ہلکی نماز پڑھائے کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ ارکان کی ادائیگی میں اطمینان و سکون اور خشوع و خضوع اور اعتدال نہ ہو،
تعدیل ارکان فرض ہے،
نیز اگلی حدیث سے واضح ہے کہ نبی اکرم ﷺ ہلکی نماز پڑھاتے تھے تب بھی کامل نماز پڑھاتے حتی کہ مغرب میں بھی سورہ طور یا سورہ المرسلات پڑھتے تھے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 236   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:703  
703. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص لوگوں کو نماز پڑھائے تو تخفیف کرے کیونکہ ان میں کمزور، بیمار اور بوڑھے ہوتے ہیں اور جب وہ خود اکیلا پڑھے تو جس قدر چاہے طوالت کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:703]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نمازی اپنی الگ نماز (فرض یا نفل)
کوجتنا چاہے طول دے سکتا ہے، لیکن جب امام ہو کر نماز پڑھائے تو مقتدی حضرات کا خیال رکھے، یعنی وہ قراءت کو طول نہ دے اور رکوع وسجود میں بھی اس کا خیال رکھے۔
نماز تراویح میں بھی یہ اصول پیش نظر ہونا چاہیے۔
جو حفاظ نماز تراویح میں اس قدر زیادہ قراءت کریں کہ مقتدیوں پر شاق ہو، انھیں چاہیے کہ وہ اس ہدایت نبوی کو سامنے رکھیں۔
اکیلے نماز پڑھنے والے شخص کو بھی چاہیے کہ وہ اس بات کا خیال رکھے کہ نماز کو اتنا طویل نہ کرے کہ دوسری نماز کا وقت شروع ہوجائے، کیونکہ حدیث میں اس کی ممانعت ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
انسان کی کوتاہی میں سے ہے کہ وہ نماز کو اتنی دیر سے پڑھے کہ دوسری نماز کا وقت آجائے۔
(صحیح مسلم، المساجد، حديث: 562 (681)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 703