7160. سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ کا بیان ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی۔ اس بات کا ذکر سیدنا عمر ؓ نے نبی ﷺ سے کیا تو رسول اللہ ﷺ بہت خفا ہوئے۔ پھر آپ نے فرمایا: ”اسے چاہیئے کہ وہ رجوع کرے اور اسے اپنے پاس رکھے یہاں تک کہ وہ حیض سے پاک ہوجائے۔پھر جب وہ حائضہ ہو اور پاک ہوجائے تو اگر چاہے تو اسے طلاق دے دے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7160]
حدیث حاشیہ: امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے ایک حدیث سے ثابت کیا تھا کہ قاضی کو بحالت غصہ کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہیے اب ان دو حدیثوں سے ثابت ہوتا ہےکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غصے کی حالت میں فیصلہ کیا اور فتوی دیا ان احادیث کے درمیان تطبیق کی یہ صورت ہے کہ اگر غصہ اللہ تعالیٰ کے لیے ہو تو ایسی حالت میں فیصلہ بھی کیا جا سکتا ہے اور فتوی بھی دیا جا سکتا ہے۔
دوسری صورت یہ ہے اگر غصہ آنے سے پہلے پہلے حق واضح ہو گیا پھر بعد میں غصہ آیا تو ایسی حالت بھی فیصلہ اور فتوی میں رکاوٹ کا باعث نہیں ہے لیکن ہمارےرجحان کے مطابق تطبیق کی یہ صورت بہتر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس اصول اور ضابطے سے مستثنیٰ ہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جتنے بھی غضبناک ہوتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوش و حواس قائم رہتے ہیں اور غصے اور ناراضی کی حالت میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ کرنا یا فتوی دینا حق و صداقت پر مبنی تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم معصوم ہونے کی وجہ سے غلطی وغیرہ سے پاک ہیں۔
(فتح الباری: 13/171) الحکم التفصیلی:
المواضيع 1. المقصود بالأقراء
(الأحوال الشخصية) 2. طلاق الحائض
(الأحوال الشخصية) موضوعات 1.
”اقراء
“ کا مفہوم
(نجی اور شخصی احوال ومعاملات) 2. حائضہ کو طلاق دینا
(نجی اور شخصی احوال ومعاملات) Topics 1. Meaning of Iqra
(Private and Social Conditions and Matters) 2. Divorce to menstruate
(Private and Social Conditions and Matters) Sharing Link:
https:
//www.mohaddis.com/View/Sahi-
Bukhari/T8/7160 تراجم الحديث المذكور المختلفة موجودہ حدیث کے دیگر تراجم × ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد
(دار السلام) ٣. شیخ الحدیث مولانا محمد داؤد راز
(مکتبہ قدوسیہ) 5. Dr. Muhammad Muhsin Khan
(Darussalam) حدیث ترجمہ:
سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ کا بیان ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی۔
اس بات کا ذکر سیدنا عمر ؓ نے نبی ﷺ سے کیا تو رسول اللہ ﷺ بہت خفا ہوئے۔
پھر آپ نے فرمایا:
”اسے چاہیئے کہ وہ رجوع کرے اور اسے اپنے پاس رکھے یہاں تک کہ وہ حیض سے پاک ہوجائے۔
پھر جب وہ حائضہ ہو اور پاک ہوجائے تو اگر چاہے تو اسے طلاق دے دے۔
“ حدیث حاشیہ:
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے ایک حدیث سے ثابت کیا تھا کہ قاضی کو بحالت غصہ کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہیے اب ان دو حدیثوں سے ثابت ہوتا ہےکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غصے کی حالت میں فیصلہ کیا اور فتوی دیا ان احادیث کے درمیان تطبیق کی یہ صورت ہے کہ اگر غصہ اللہ تعالیٰ کے لیے ہو تو ایسی حالت میں فیصلہ بھی کیا جا سکتا ہے اور فتوی بھی دیا جا سکتا ہے۔
دوسری صورت یہ ہے اگر غصہ آنے سے پہلے پہلے حق واضح ہو گیا پھر بعد میں غصہ آیا تو ایسی حالت بھی فیصلہ اور فتوی میں رکاوٹ کا باعث نہیں ہے لیکن ہمارےرجحان کے مطابق تطبیق کی یہ صورت بہتر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس اصول اور ضابطے سے مستثنیٰ ہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جتنے بھی غضبناک ہوتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوش و حواس قائم رہتے ہیں اور غصے اور ناراضی کی حالت میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ کرنا یا فتوی دینا حق و صداقت پر مبنی تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم معصوم ہونے کی وجہ سے غلطی وغیرہ سے پاک ہیں۔
(فتح الباری: 13/171) حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن ابی یعقوب الکرمانی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حسان بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یونس نے بیان کیا، محمد نے بیان کیا کہ مجھے سالم نے خبردی، انہیں عبداللہ بن عمر ؓ نے خبردی کہ انہوں نے اپنی بیوی کو جب کہ وہ حالت حیض میں تھیں
(آمنہ بنت غفار) طلاق دے دی، پھر عمر ؓ نے اس کا تذکرہ آنحضرت ﷺ سے کیا تو آپ بہت خفا ہوئے پھر فرمایا انہیں چاہئے کہ وہ رجوع کرلیں اور انہیں اپنے پاس رکھیں، یہاں تک کہ جب وہ پاک ہوجائیں پھر حائضہ ہوں اور پھر پاک ہوں تب اگر چاہے تو اسے طلاع دے دے۔
حدیث حاشیہ:
آپ نے بحالت خفگی فتویٰ دیا۔
یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت میں سے ہے۔
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Umar
(RA) :
That he had divorced his wife during her menses. 'Umar mentioned that to the Prophet. Allah's Apostle
(ﷺ) became angry and said, "He must take her back
(his wife) and keep her with him till she becomes clean from her menses and then to wait till she gets her next period and becomes clean again from it and only then, if he wants to divorce her, he may do so."
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
آپ نے بحالت خفگی فتویٰ دیا۔
یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت میں سے ہے۔
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
رقم الحديث المذكور في التراقيم المختلفة مختلف تراقیم کے مطابق موجودہ حدیث کا نمبر × ترقیم کوڈاسم الترقيمنام ترقیمرقم الحديث
(حدیث نمبر) ١.ترقيم موقع محدّث ویب سائٹ محدّث ترقیم7226٢. ترقيم فؤاد عبد الباقي
(المكتبة الشاملة) ترقیم فواد عبد الباقی
(مکتبہ شاملہ) 7160٣. ترقيم العالمية
(برنامج الكتب التسعة) انٹرنیشنل ترقیم
(کتب تسعہ پروگرام) 6627٤. ترقيم فتح الباري
(برنامج الكتب التسعة) ترقیم فتح الباری
(کتب تسعہ پروگرام) 7160٥. ترقيم د. البغا
(برنامج الكتب التسعة) ترقیم ڈاکٹر البغا
(کتب تسعہ پروگرام) 6741٦. ترقيم شركة حرف
(جامع خادم الحرمين للسنة النبوية) ترقیم حرف کمپنی
(خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ) 6897٧. ترقيم دار طوق النّجاة
(جامع خادم الحرمين للسنة النبوية) ترقیم دار طوق النجاۃ
(خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ) 7160٨. ترقيم فؤاد عبد الباقي
(دار السلام) ترقیم فواد عبد الباقی
(دار السلام) 7160١٠.ترقيم فؤاد عبد الباقي
(داود راز) ترقیم فواد عبد الباقی
(داؤد راز) 7160 الحكم على الحديث × اسم العالمالحكم ١. إجماع علماء المسلمينأحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة تمہید باب × تمہید کتاب × احکام،حکم کی جمع ہے۔
فقہی اصطلاح میں اللہ تعالیٰ کے وہ اوامرونواہی احکام کہلاتے ہیں جن کی بجاآوری اس نے اپنے بندوں پر عائد کی ہے لیکن اس مقام پر حکومت اور قضاء کے آداب وشرائط مراد ہیں کیونکہ حاکم کا لفظ خلیفہ اور قاضی ہردورپرمشتمل ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت نظام عدالت اور نظام حکومت کو بیان فرمایا ہے اور ان کے متعلق ضروری امور کی وضاحت کی ہے۔
واضح رہے کہ دین اسلام انسانی زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہے۔
ان کا تعلق عقائد وایمانیات سے ہویاعبادات واخلاقیات سے یا دیگر معاملات سے،اسلام ان تمام کی وضاحت کرتا ہے اور ان کے متعلق ہماری مکمل رہنمائی کرتا ہے پھر لوگوں کے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات اور جھگڑوں کا فیصلہ کرنے اورحقداروں کو ان کا حق دلوانے،نیز تعزیر وسزا کے مستحق جرائم پیشہ لوگوں کو سزادینے کے لیے نظام عدالت کا قیام بھی انسانی معاشرے کے لیے ایک ناگزیر ضرورت ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو یہاں اجتماعیت اور مل جل کر رہنے کی ایک شکل پیدا ہوگئی تو اس وقت نظام عدالت بھی اپنی ابتدائی سادہ شکل میں قائم ہوگیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود اللہ تعالیٰ کا نبی ہونے کے ساتھ اسلامی مملکت کے سربراہ اور حاکم عدالت بھی تھے۔
اختلافی معاملات آپ کے سامنے آتے اور آپ ان کا فیصلہ فرماتے۔
جن پر زیادتی ہوتی انھیں ان کا حق دلواتے اورحق غصب کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق سزادیتے۔
اللہ تعالیٰ نے براہ راست آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرکے حکم دیا ہے:
"آپ لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ اللہ کی نازل کردہ ہدایات کے مطابق کریں۔
"
(المآئدۃ 5/49) جب یمن کا علاقہ اسلامی اقتدار کے دائرے میں آگیا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو وہاں قاضی بنا کر بھیجا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ہدایات دیں کہ وہ اس ذمہ داری کو عدل وانصاف کے ساتھ ادا کرنے کے کوشش کریں اور ایسا کرنے والوں کو آخرت میں عظیم انعامات اوربلند درجات کی بشارتیں دیں،نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اگر ایسےی لوگوں سے نادانستہ طور پر کوئی اجتہادی غلطی ہوجائے تو اس پر انھیں کوئی مواخذہ نہیں ہوگا بلکہ ا پنی نیک نیتی قاور حق بینی کی کوشش اور محنت کااجروثواب ملے گا اور اس کے مقابلے میں آپ نے جانبداری اور بے انصافی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کے قہر وغضب سے ڈرایا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں ہے:
"فیصلہ کرنے والے تین طرح کے ہوتے ہیں،جن میں سے دو جہنمی اور ایک جنتی ہے:
ایک تو وہ شخص جس نے حق کو پہچانا اور اس کے مطابق فیصلہ کیا وہ جنتی ہے۔
دوسرا وہ جس نے حق کی پہچان کرلی مگر اس کے مطابق فیصلہ نہ کیا بلکہ فیصلہ کرتے وقت ظلم وزیادتی سے کام لیا،ایسا شخص دوزخی ہے۔
تیسرا وہ جس نے نہ حق کو پہچانا اور نہ حق کے مطابق فیصلہ کیا بلکہ اس نے لوگوں میں جہالت اور نادانی سے فیصلہ کیا یہ شخص بھی دوزخی ہے۔
"
(سنن ابن ماجہ الاحکام حدیث 2315) اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سربراہ مملکت کی حیثیت سے نظام حکومت کے ایسے اصول مقرر فرمائے جن سے اسلامی حکومتوں اور ان کے سربراہوں کو پوری پوری رہنمائی ملتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدحکومتی نظام چلانے والے خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اپنے دور کے تقاضوں کا لحاظ رکھتے ہوئے پوری کوشش کی کہ حکومت کے متعلق تمام معاملات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طور طریقوں اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کی پوری پابندی اور پاسداری کی جائے۔
اسی امتیازی خصوصیت کی وجہ سے انھیں خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین کہا جاتاہے۔
ان تمہیدی گزارشات کے بعد امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ عنوانات اور ان کے تحت پیش کردہ احادیث کو پورے غوروفکر اور انہماک سے پڑھا جائے۔
آپ نے نظام عدالت اور نظام حکومت کے متعلق امت کی بھر پور رہنمائی کی ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ چند عنوانات حسب ذیل ہیں:
اسلامی سربراہ اگر خلاف شرع حکم نہ دے تو اس کی بات سننا اور اس کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے۔
۔
حکومتی عہدہ خود نہیں مانگنا چاہیے،اس طرح اللہ تعالیٰ کی مدد اس کے شامل حال ہوگی۔
۔
جو شخص حکومتی عہدہ طلب کرے گا وہ اس کے حوالے کردیا جائے گا۔
۔
حکومتی عہدے کی حرص کرنا منع ہے۔
۔
جو شخص لوگوں کو تنگ کرے گا،اللہ تعالیٰ اسے مشقت میں ڈالے گا۔
۔
جو شخص رعایا کی خیر خواہی نہ کرے،اسے سخت ترین عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا۔
چلتے چلتے راستے میں کوئی فیصلہ کرنا۔
۔
قاضی کو غصے کی حالت میں فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔
۔
جج بننے کی کیا شرائط ہیں؟
۔
حکام اور عُمال کا تنخواہیں لینا۔
۔
فیصلے کرنے والوں کا تحفے قبول کرنا۔
۔
یک طرفہ فیصلہ کرنے کی شرعی حیثیت۔
حاکم وقت کو چاہیے کہ وہ اپنے ماتحت کا محاسبہ کرتا رہے۔
ان کے علاوہ اور بہت سے اصول وضوابط ہیں جو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیے ہیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں ان کے مطابق عمل کرنے کی توفیق دے۔
آمین