صحيح البخاري
كِتَاب الْأَحْكَامِ -- کتاب: حکومت اور قضا کے بیان میں
15. بَابُ الشَّهَادَةِ عَلَى الْخَطِّ الْمَخْتُومِ:
باب: مہری خط پر گواہی دینے کا بیان۔
وَمَا يَجُوزُ مِنْ ذَلِكَ وَمَا يَضِيقُ عَلَيْهِمْ وَكِتَابِ الْحَاكِمِ إِلَى عَامِلِهِ وَالْقَاضِي إِلَى الْقَاضِي وَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ كِتَابُ الْحَاكِمِ جَائِزٌ إِلَّا فِي الْحُدُودِ، ثُمَّ قَالَ إِنْ كَانَ الْقَتْلُ خَطَأً فَهُوَ جَائِزٌ لِأَنَّ هَذَا مَالٌ بِزَعْمِهِ، وَإِنَّمَا صَارَ مَالًا بَعْدَ أَنْ ثَبَتَ الْقَتْلُ فَالْخَطَأُ وَالْعَمْدُ وَاحِدٌ وَقَدْ كَتَبَ عُمَرُ إِلَى عَامِلِهِ فِي الْجَارُودِ وَكَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ فِي سِنٍّ كُسِرَتْ، وَقَالَ إِبْرَاهِيمُ كِتَابُ الْقَاضِي إِلَى الْقَاضِي جَائِزٌ إِذَا عَرَفَ الْكِتَابَ وَالْخَاتَمَ وَكَانَ الشَّعْبِيُّ يُجِيزُ الْكِتَابَ الْمَخْتُومَ بِمَا فِيهِ مِنَ الْقَاضِي وَيُرْوَى عَنِ ابْنِ عُمَرَ نَحْوُهُ، وَقَالَ مُعَاوِيَةُ بْنُ عَبْدِ الْكَرِيمِ الثَّقَفِيُّ شَهِدْتُ عَبْدَ الْمَلِكِ بْنَ يَعْلَى قَاضِيَ الْبَصْرَةِ، وَإِيَاسَ بْنَ مُعَاوِيَةَ، وَالْحَسَنَ، وَثُمَامَةَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَنَسٍ، وَبِلَالَ بْنَ أَبِي بُرْدَةَ، وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ بُرَيْدَةَ الْأَسْلَمِيَّ، وَعَامِرَ بْنَ عَبِيدَةَ، وَعَبَّادَ بْنَ مَنْصُورٍ يُجِيزُونَ كُتُبَ الْقُضَاةِ بِغَيْرِ مَحْضَرٍ مِنَ الشُّهُودِ فَإِنْ قَالَ الَّذِي جِيءَ عَلَيْهِ بِالْكِتَابِ إِنَّهُ زُورٌ قِيلَ لَهُ اذْهَبْ فَالْتَمِسِ الْمَخْرَجَ مِنْ ذَلِكَ، وَأَوَّلُ مَنْ سَأَلَ عَلَى كِتَابِ الْقَاضِي الْبَيِّنَةَ ابْنُ أَبِي لَيْلَى، وَسَوَّارُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، وَقَالَ لَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُحْرِزٍ جِئْتُ بِكِتَابٍ مِنْ مُوسَى بْنِ أَنَسٍ قَاضِي الْبَصْرَةِ وَأَقَمْتُ عِنْدَهُ الْبَيِّنَةَ أَنَّ لِي عِنْدَ فُلَانٍ كَذَا وَكَذَا وَهُوَ بِالْكُوفَةِ وَجِئْتُ بِهِ الْقَاسِمَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ فَأَجَازَهُ وَكَرِهَ الْحَسَنُ وَأَبُو قِلَابَةَ أَنْ يَشْهَدَ عَلَى وَصِيَّةٍ حَتَّى يَعْلَمَ مَا فِيهَا لِأَنَّهُ لَا يَدْرِي لَعَلَّ فِيهَا جَوْرًا، وَقَدْ كَتَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَهْلِ خَيْبَرَ إِمَّا أَنْ تَدُوا صَاحِبَكُمْ وَإِمَّا أَنْ تُؤْذِنُوا بِحَرْبٍ، وَقَالَ الزُّهْرِيُّ فِي الشَّهَادَةِ عَلَى الْمَرْأَةِ مِنْ وَرَاءِ السِّتْرِ إِنْ عَرَفْتَهَا فَاشْهَدْ وَإِلَّا فَلَا تَشْهَدْ
‏‏‏‏ اور کون سی گواہی اس مقدمہ میں جائز ہے اور کون سی ناجائز اور حاکم جو اپنے نائبوں کو پروانے لکھے۔ اسی طرح ایک ملک کا قاضی دوسرے ملک کے قاضی کو، اس کا بیان اور بعض لوگوں نے کہا حاکم جو پروانے اپنے نائبوں کو لکھے ان پر عمل ہو سکتا ہے۔ مگر حدود شرعیہ میں نہیں ہو سکتا (کیونکہ ڈر ہے کہ پروانہ جعلی نہ ہو) پھر خود ہی کہتے ہیں کہ قتل خطا میں پروانے پر عمل ہو سکتا ہے کیونکہ وہ اس کی رائے پر مثل مالی دعوؤں کے ہے حالانکہ قتل خطا مالی دعوؤں کی طرح نہیں ہے بلکہ ثبوت کے بعد اس کی سزا مالی ہوتی ہے تو قتل خطا اور عمد دونوں کا حکم ایک رہنا چاہئے۔ (دونوں میں پروانے کا اعتبار نہ ہونا چاہئے) اور عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے عاملوں کو حدود میں پروانے لکھے ہیں اور عمر بن عبدالعزیز نے دانت توڑنے کے مقدمہ میں پروانہ لکھا اور ابراہیم نخعی نے کہا ایک قاضی دوسرے قاضی کے خط پر عمل کر لے جب اس کی مہر اور خط کو پہچانتا ہو تو یہ جائز ہے اور شعبی مہری خط کو جو ایک قاضی کی طرف سے آئے جائز رکھتے تھے اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی ایسا ہی منقول ہے اور معاویہ بن عبدالکریم ثقفی نے کہا میں عبدالملک بن یعلیٰ (بصرہ کے قاضی) اور ایاس بن معاویہ (بصریٰ کے قاضی) اور حسن بصری اور ثمامہ بن عبداللہ بن انس اور بلال بن ابی بردہ (بصریٰ کے قاضی) اور عبداللہ بن بریدہ (مرو کے قاضی) اور عامر بن عبیدہ (کوفہ کے قاضی) اور عباد بن منصور (بصریٰ کے قاضی) ان سب سے ملا ہوں۔ یہ سب ایک قاضی کا خط دوسرے قاضی کے نام بغیر گواہوں کے منظور کرتے۔ اگر فریق ثانی جس کو اس خط سے ضرر ہوتا ہے یوں کہے کہ یہ خط جعلی ہے تو اس کو حکم دیں گے کہ اچھا اس کا ثبوت دے اور قاضی کے خط پر سب سے پہلے ابن ابی لیلیٰ (کوفہ کے قاضی) اور سوار بن عبداللہ (بصریٰ کے قاضی) نے گواہی چاہی اور ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے کہا، ہم سے عبیداللہ بن محرز نے بیان کیا کہ میں نے موسیٰ بن انس بصریٰ کے پاس اس مدعی پر گواہ پیش کئے کہ فلاں شخص پر میرا اتنا حق آتا ہے اور وہ کوفہ میں ہے پھر میں ان کا خط لے کر قاسم بن عبدالرحمٰن کوفہ کے قاضی کے پاس آیا۔ انہوں نے اس کو منظور کیا اور امام حسن بصری اور ابوقلابہ نے کہا وصیت نامہ پر اس وقت تک گواہی کرنا مکروہ ہے جب تک اس کا مضمون نہ سمجھ لے ایسا نہ ہو وہ ظلم اور خلاف شرع ہو۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے یہودیوں کو خط بھیجا کہ یا تو اس شخص (یعنی عبداللہ بن سہل) مقتول کی دیت دو جو تمہاری بستی میں مارا گیا ہے ورنہ جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ۔ اور زہری نے کہا اگر عورت پردے کی آڑ میں ہو اور آواز وغیرہ سے تو اسے پہچانتا ہو تو اس پر گواہی دے سکتا ہے ورنہ نہیں۔
حدیث نمبر: 7162
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: سَمِعْتُ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:" لَمَّا أَرَادَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَكْتُبَ إِلَى الرُّومِ، قَالُوا: إِنَّهُمْ لَا يَقْرَءُونَ كِتَابًا إِلَّا مَخْتُومًا، فَاتَّخَذَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاتَمًا مِنْ فِضَّةٍ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى وَبِيصِهِ وَنَقْشُهُ، مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ".
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے قتادہ سے سنا، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل روم کو خط لکھنا چاہا تو صحابہ نے کہا کہ رومی صرف مہر لگا ہوا خط ہی قبول کرتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کی ایک مہر بنوائی گویا میں اس کی چمک کو اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں اور اس پر کلمہ «محمد رسول الله‏.‏» نقش تھا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 65  
´مناولہ کا بیان`
«. . . قَالَ:" كَتَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كِتَابًا أَوْ أَرَادَ أَنْ يَكْتُبَ، فَقِيلَ لَهُ . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (کسی بادشاہ کے نام دعوت اسلام دینے کے لیے) ایک خط لکھا یا لکھنے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ وہ بغیر مہر کے خط نہیں پڑھتے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 65]

تشریح:
مناولہ اصطلاح محدثین میں اسے کہتے ہیں اپنی اصل مرویات اور مسموعات کی کتاب جس میں اپنے استادوں سے سن کر حدیثیں لکھ رکھی ہوں اپنے کسی شاگرد کے حوالہ کر دی جائے اور اس کتاب میں درج شدہ احادیث کو روایت کرنے کی اس کو اجازت بھی دے دی جائے، تو یہ جائز ہے اور حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کی مراد یہی ہے۔ اگر اپنی کتاب حوالہ کرتے ہوئے روایت کرنے کی اجازت نہ دے تو اس صورت میں «حدثني» یا «اخبرني فلاں» کہنا جائز نہیں ہے۔ حدیث نمبر 64 میں کسریٰ کے لیے بددعا کا ذکر ہے کیوں کہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک چاک کر ڈالا تھا، چنانچہ خود اس کے بیٹے نے اس کا پیٹ پھاڑ ڈالا۔ سو جب وہ مرنے لگا تو اس نے دواؤں کا خزانہ کھولا اور زہر کے ڈبے پر لکھ دیا کہ یہ دوا قوت باہ کے لیے اکسیر ہے۔ وہ بیٹا جماع کا بہت شوق رکھتا تھا جب وہ مر گیا اور اس کے بیٹے نے دواخانے میں اس ڈبے پر یہ لکھا ہوا دیکھا تو اس کو وہ کھا گیا اور وہ بھی مر گیا۔ اسی دن سے اس سلطنت میں تنزل شروع ہوا، آخر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں ان کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہا۔ ایران کے ہر بادشاہ کا لقب کسریٰ ہوا کرتا تھا۔ اس زمانے کے کسریٰ کا نام پرویز بن ہرمزبن نوشیروان تھا، اسی کو خسرو پرویز بھی کہتے ہیں۔ اس کے قاتل بیٹے کا نام شیرویہ تھا، خلافت فاروقی میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں ایران فتح ہوا۔

مناولہ کے ساتھ باب میں مکاتبت کا ذکر ہے جس سے مراد یہ کہ استاد اپنے ہاتھ سے خط لکھے یا کسی اور سے لکھوا کر شاگرد کے پاس بھیجے، شاگرد اس صورت میں بھی اس کو اپنے استاد سے روایت کر سکتا ہے۔

حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی خداداد قوت اجتہاد کی بنا پر ہر دو مذکورہ احادیث سے ان اصطلاحات کو ثابت فرمایا ہے پھر تعجب ہے ان کم فہموں پر جو حضرت امام کو غیر فقیہ اور زود رنج اور محض ناقل حدیث سمجھ کر آپ کی تخفیف کے درپے ہیں۔ «نعوذ بالله من شرورانفسنا»
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 65   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7162  
7162. سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: جب نبی ﷺ نے اہل روم کو خط لکھنا چاہا تو صحابہ کرام‬ ؓ ن‬ے کہا: اہل روم صرف سر بمہر خط قبول کرتے ہیں،چنانچہ نبی ﷺ نے چاندی کی ایک مہر بنوائی گویا میں اس کی چمک کو اب بھی دیکھ رہا ہوں۔ اس پر محمد رسول اللہ کے الفاظ کنندہ تھے [صحيح بخاري، حديث نمبر:7162]
حدیث حاشیہ:
اسی حدیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے نکالا کہ خط پر عمل ہوسکتا ہے بالخصوص جب وہ مختوم ہو تو شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7162   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3641  
´انگوٹھی کے نقش کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی اس میں ایک حبشی نگینہ تھا، اور اس میں «محمد رسول الله» کا نقش تھا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب اللباس/حدیث: 3641]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
صحیح بخاری کی روایت میں ہے:
نبی ﷺ کی انگوٹھی چاندی کی تھی اور اس کا نگینہ بھی اسی میں سے تھا۔ (صحيح البخاري، اللباس، باب فصّ الخاتم، حديث: 5869)
حافظ ابن حجر  نے حبشی نگینہ کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ اس کا ڈیزائن یا نقش حبشى انداز کا تھا۔
اگر اس کا یہ مطلب لیا جائے کہ وہ حبشہ کے علاقے کا پتھر یا عقیق تھا تو ممکن ہے کہ دو انگوٹھیاں ہوں۔
ایک چاندی کے نگینے والی اور ایک پتھر کے نگینے والی۔
واللہ أعلم۔ (فتح الباري: 10 /396)

(2)
مرد کے لئے چاندی کی انگوٹھی پہننا جائز ہے۔

(3)
انگوٹھی میں کوئی لفظ یا حرف کندہ کرانا جائز ہے۔

(4)
خلیفہ قاضی یا دوسرے افسران کی مہر کی نقل تیار کرنا منع ہے کیونکہ اس سے جعل سازی اور فریب کا دروازہ کھلتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3641   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1739  
´چاندی کی انگوٹھی کا بیان۔`
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی چاندی کی تھی اور اس کا نگینہ (عقیق) حبشہ کا بنا ہوا تھا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب اللباس/حدیث: 1739]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
آنے والی انس کی روایت جس میں ذکر ہے کہ نگینہ بھی چاندی کا تھا،
اور باب کی اس روایت میں کوئی تعارض نہیں ہے،
کیوں کہ احتمال ہے کہ آپ کے پاس دوقسم کی انگوٹھیا ں تھیں،
یا یہ کہاجائے کہ نگینہ چاندی کا تھا،
حبشہ کی جانب نسبت کی وجہ یہ ہے کہ حبشی نقش ونگار یا طرز پر بناہواتھا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1739   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4214  
´انگوٹھی بنانے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض شاہان عجم کو خط لکھنے کا ارادہ فرمایا تو آپ سے عرض کیا گیا کہ وہ ایسے خطوط کو جو بغیر مہر کے ہوں نہیں پڑھتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی اور اس میں «محمد رسول الله» کندہ کرایا۔ [سنن ابي داود/كتاب الخاتم /حدیث: 4214]
فوائد ومسائل:
رسول اللہﷺ کی انگوٹھی محض زینت کے لیئے نہیں تھی، بلکہ بطور مہر استعمال ہوتی تھی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4214   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7162  
7162. سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: جب نبی ﷺ نے اہل روم کو خط لکھنا چاہا تو صحابہ کرام‬ ؓ ن‬ے کہا: اہل روم صرف سر بمہر خط قبول کرتے ہیں،چنانچہ نبی ﷺ نے چاندی کی ایک مہر بنوائی گویا میں اس کی چمک کو اب بھی دیکھ رہا ہوں۔ اس پر محمد رسول اللہ کے الفاظ کنندہ تھے [صحيح بخاري، حديث نمبر:7162]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خط پر عمل ہو سکتا ہے جب وہ سر بمہر ہو تو اس کے قابل اعتبار ہونے میں کوئی شک نہیں لیکن تاریخی طور پر یہ بات ثابت نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہر شدہ خط پر کسی نے گواہی طلب کی ہو کہ یہ واقعی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا خط ہے جعلی طور پر کسی دوسرے نے نہیں لکھا۔

بہر حال اس حدیث سے مہر شدہ خط اور ایک قاضی کے دوسرے قاضی کو خط لکھنے کے جواز پر استدلال موجود ہے۔
پھر مالی معاملات اور قصاص و حدود کی تفریق کرنا بھی خود ساختہ ہے۔
کتاب و سنت میں اس کی تخصیص کے متعلق کوئی دلیل نہیں ہے۔
واللہ اعلم۔
الحکم التفصیلی:
المواضيع 1. تعليم المسلم أهل الكتاب (العلم)
2. خاتم النبي (السيرة)
3. نقش الخاتم (اللباس والزينة)
4. دعوة المشركين إلى الإسلام (الجهاد)
موضوعات 1. مسلمان کا اہل کتاب کو تعلیم دینا (علم)
2. نبی اکرمﷺ کی انگوٹھی (سیرت)
3. انگوٹھی پر نقش کروانا (لباس اور زینت کے مسائل)
4. مشرکین کو اسلام کی دعوت دینا (جہاد)
Topics 1. Muslim Teaching people of the Book (The Knowledge)
2. Ring of the Rasool (
W) (Prophet's Biography)
3. Decorationg the ring (Issues of Clothing and Fashion)
4. Inviting non believers towards Islam (Jihaad)
Sharing Link:
https:
//www.mohaddis.com/View/Sahi-
Bukhari/T8/7162 تراجم الحديث المذكور المختلفة موجودہ حدیث کے دیگر تراجم × ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
٣. شیخ الحدیث مولانا محمد داؤد راز (مکتبہ قدوسیہ)
5. Dr. Muhammad Muhsin Khan (Darussalam)
ترجمۃ الباب:
(کہ فلاں شخص کا خط ہے)
اور کون سی گواہی اس مقدمہ میں جائز ہے اور کون سی ناجائز اور حاکم جو اپنے نائبوں کو پروانے لکھے۔
اسی طرح ایک ملک کا قاضی دوسرے ملک کے قاضی کو، اس کا بیان اور بعض لوگوں نے کہا حاکم جو پروانے اپنے نائبوں کو لکھے ان پر عمل ہوسکتا ہے۔
مگر حدود شرعیہ میں نہیں ہوسکتا(کیوں کہ ڈر ہے کہ پروانہ جعلی نہ ہو)
پھر خود ہی کہتے ہیں کہ قتل خطا میں پروانے پر عمل ہوسکتا ہے کیوں کہ وہ اس کی رائے پر مثل مالی دعوؤں کے ہے حالانکہ قتل خطا مالی دعوؤں کی طرح نہیں ہے بلکہ ثبوت کے بعد اس کی سزا مالی ہوتی ہے تو قتل خطا اور عمد دونوں کا حکم ایک رہنا چاہئے۔
(دونوں میں پروانے کا اعتبار نہ ہونا چاہئے)
اور حضرت عمر ؓ نے اپنے عاملوں کو حدود میں پروانے لکھے ہیں اور عمر بن عبدالعزیز نے دانت توڑنے کے مقدمہ میں پروانہ لکھا اور ابراہیم نخعی نے کہا ایک قاضی دوسرے قاضی کے خط پر عمل کرلے جب اس کی مہر اور خط کو پہچانتا ہو تو یہ جائز ہے اور شعبی مہری خط کو جو ایک قاضی کی طرف سے آئے جائز رکھتے تھے اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی ایسا ہی منقول ہے اور معاویہ بن عبدالکریم ثقفی نے کہا میں عبدالملک بن یعلیٰ(بصرہ کے قاضی)
اور ایاس بن معاویہ(بصریٰ کے قاضی)
اور حسن بصری اور ثمامہ بن عبداللہ بن انس اور بلال بن ابی بردہ(بصریٰ کے قاضی)
اور عبداللہ بن بریدہ(مرو کے قاضی)
اور عامر بن عبیدہ(کوفہ کے قاضی)
اور عباد بن منصور(بصریٰ کے قاضی)
ان سب سے ملا ہوں۔
یہ سب ایک قاضی کا خط دوسرے قاضی کے نام بغیر گواہوں کے منظور کرتے۔
اگر فریق ثانی جس کو اس خط سے ضرر ہوتا ہے یوں کہے کہ یہ خط جعلی ہے تو اس کو حکم دیں گے کہ اچھا اس کا ثبوت دے اور قاضی کے خط پر سب سے پہلے ابن ابی لیلیٰ(کوفہ کے قاضی)
اور سوار بن عبداللہ(بصریٰ کے قاضی)
نے گواہی چاہی اور ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے کہا، ہم سے عبیداللہ بن محرز نے بیان کیا کہ میں نے موسیٰ بن انس بصری کے پاس اس مدعی پر گواہ پیش کئے کہ فلاں شخص پر میرا اتنا حق آتا ہے اور وہ کوفہ میں ہے پھر میں ان کا خط لے کر قاسم بن عبدالرحمن کوفہ کے قاضی کے پاس آیا۔
انہوں نے اس کو منظور کیا اور امام حسن بصری اور ابوقلابہ نے کہا وصیت نامہ پر اس وقت تک گواہی کرنا مکروہ ہے جب تک اس کا مضمون نہ سمجھ لے ایسا نہ ہو وہ ظلم اور خلاف شرع ہو۔
اور آنحضرت ﷺ نے خیبر کے یہودیوں کو خط بھیجا کہ یا تو اس شخص(یعنی عبداللہ بن سہل)
مقتول کی دیت دو جو تمہاری بستی میں مارا گیا ہے ورنہ جنگ کے لیے تیار ہوجاؤ۔
اور زہری نے کہا اگر عورت پردے کی آڑ میں ہو اور آواز وغیرہ سے تو اسے پہچانتا ہو تو اس پر گواہی دے سکتا ہے ورنہ نہیں۔
حدیث ترجمہ:
سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا:
جب نبی ﷺ نے اہل روم کو خط لکھنا چاہا تو صحابہ کرام‬ ؓ ن‬ے کہا:
اہل روم صرف سر بمہر خط قبول کرتے ہیں،چنانچہ نبی ﷺ نے چاندی کی ایک مہر بنوائی گویا میں اس کی چمک کو اب بھی دیکھ رہا ہوں۔
اس پر محمد رسول اللہ کے الفاظ کنندہ تھے حدیث حاشیہ:

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خط پر عمل ہو سکتا ہے جب وہ سر بمہر ہو تو اس کے قابل اعتبار ہونے میں کوئی شک نہیں لیکن تاریخی طور پر یہ بات ثابت نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہر شدہ خط پر کسی نے گواہی طلب کی ہو کہ یہ واقعی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا خط ہے جعلی طور پر کسی دوسرے نے نہیں لکھا۔

بہر حال اس حدیث سے مہر شدہ خط اور ایک قاضی کے دوسرے قاضی کو خط لکھنے کے جواز پر استدلال موجود ہے۔
پھر مالی معاملات اور قصاص و حدود کی تفریق کرنا بھی خود ساختہ ہے۔
کتاب و سنت میں اس کی تخصیص کے متعلق کوئی دلیل نہیں ہے۔
واللہ اعلم۔
ترجمۃ الباب:
بعض لوگوں نے کہا کہ حاکم جو اپنے کارندوں کو خط لکھتا ہے اور اس پر عمل ہوسکتا ہے مگر حدود میں نہیں ہوسکتا،پھر خود ہی کہا کہ قتل میں پروانے پر عمل ہوسکتا ہے کیونکہ یہ ان کے گمان کے مطابق یہ مالی معماملہ ہے حالانکہ قتل خطا مالی معاملوں کی طرح نہیں بلکہ ثبوت قتل کے بعد مالی معاملہ بنتا ہے لہذا قتل خطا اور قتل عمدہ کا حکم ایک ہی رہنا چاہیے
سیدنا عمر ؓ نے اپنے عامل کو حدود کے متعلق پروانہ لکھا تھا۔
اسی طرح سیدناعمر بن عبدالعزیز نے دانت توڑنے کے مقدمے میں ایک پروانہ لکھا (اور اسے اپنے عامل کی طرف روانہ کیاَ)

ابراہیم نخعی نے کہا:
ایک قاضی کا دوسرے کو خط لکھنا (اور اس کے مطابق عمل کرنا)
جائز ہے بشرطیکہ دوسرا اس کی مہر اور خط کو پہچانتا ہوں۔

امام شعبی مہر شدہ خط جس میں ایک قاضی کا ٖفیصلہ ہو جائز قرار دیتے ہیں اور عبداللہ بن عمرؓ سے بھی ایسا ہی منقول ہے
معاویہ عبدالکریم ثقفی نے کہا:
میں بصرہ کے قاضی عبدالملک بن یعلیٰ،ایاس بن معاویہ،حسن بصری ثمامہ بن عبداللہ بن انس،بلال بن ابو بردہ عبداللہ بن بریدہ اسلمی،عامر بن عبید اور عباد بن مںصور سے ملا ہوں،یہ سب حضرات ایک قاضی کا خط دوسرے کے نام گواہوں کے بغیر قبول کرتے تھے اور اگر مدعیٰ علیہ جس کے خلاف خط شہادت قائم کی گئی ہے وہ کہے:
یہ جھوٹ تو اسے کہا جائے گا:
جاؤاس سے نکلنے کا کوئی راستہ تلاش کر لاؤ،یعنی اسے تحقیق کا موقع دیاجائے گا۔
سب سے پہلے جس نے قاضی کی تحریر پر دلیل طلب کی وہ ابن ابی لیلیٰ اور سوار بن عبداللہ تھے
ابو نعیم نے ہم سے کہا:
ہم سے عبیداللہ بن محرز نے بیان کیا کہ میں بصرہ کے قاضی موسیٰ بن انس سے خط لے کر آیا اور انکے پاس گواہ پیش کیے کہ میرا فلاں شخص کے پاس اتنا مال ہے،حالانکہ وہ کوفہ میں تھا، میں اس فیصلہ کی تحریر قاسم بن عبدالرحمن کے پاس لایا تو انہوں نے اسے نافذ کیا۔

امام حسن بصری اور ابو قلابہ نے وصیت نامے پر اس وقت تک گواہ بننا مکروہ خیال کیا جب تک اس کا مضمون نہ سمجھ لیا جائے کہیں ایسا نہ ہو کہ ظلم اور خلاف شرع ہو
خود نبی ﷺ نے اہل خیبر کو خط بھیجا:
اپنے ساتھی مقتول کی دیت دو بصورت دیگر جنگ کے لیے تیار ہوجاؤ۔

امام زہری نے کہا:
اگر عورت پردے کی آڑ میں ہو، پھر اگر تم اسے پہچانتے ہوتو گواہی دو بصورت دیگر گواہی نہ دو یعنی اس کو دیکھنا ضروری نہیںحدیث ترجمہ:
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے قتادہ سے سنا، ان سے انس بن مالک ؓ نے بیان کیا کہ جب نبی کریم ﷺ نے اہل روم کو خط لکھنا چاہا تو صحابہ نے کہا کہ رومی صرف مہر لگا ہوا خط ہی قبول کرتے ہیں۔
آنحضرت ﷺ نے چاندی کی ایک مہر بنوائی۔
گویا میں اس کی چمک کو اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں اور اس پر کلمہمحمد رسول اللہ نقش تھا۔
حدیث حاشیہ:
اسی حدیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے نکالا کہ خط پر عمل ہوسکتا ہے بالخصوص جب وہ مختوم ہو تو شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA)
:
When the Prophet (ﷺ) intended to write to the Byzantines, the people said, "They do not read a letter unless it is sealed (stamped)
." Therefore the Prophet (ﷺ) took a silver ring-
-
-
-
as if I am looking at its glitter now-
-
-
-
and its engraving was:
'Muhammad, Apostle of Allah (ﷺ) ' حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
اسی حدیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے نکالا کہ خط پر عمل ہوسکتا ہے بالخصوص جب وہ مختوم ہو تو شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
رقم الحديث المذكور في التراقيم المختلفة مختلف تراقیم کے مطابق موجودہ حدیث کا نمبر × ترقیم کوڈاسم الترقيمنام ترقیمرقم الحديث (حدیث نمبر)
١.ترقيم موقع محدّث ویب سائٹ محدّث ترقیم7228٢. ترقيم فؤاد عبد الباقي (المكتبة الشاملة)
ترقیم فواد عبد الباقی (مکتبہ شاملہ)
7162٣. ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
6629٤. ترقيم فتح الباري (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم فتح الباری (کتب تسعہ پروگرام)
7162٥. ترقيم د. البغا (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ڈاکٹر البغا (کتب تسعہ پروگرام)
6743٦. ترقيم شركة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6899٧. ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
7162٨. ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
7162١٠.ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
7162 الحكم على الحديث × اسم العالمالحكم ١. إجماع علماء المسلمينأحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة تمہید باب × امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان میں دو اختلافی مسئلے بیان کیے ہیں۔
سربمہر خط کے لیے شہادت:
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مہر لگاہوا خط گواہی کے بغیر ہی معتبر ہے۔
اس سلسلے میں انھوں نے امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ کا معمول پیش کیا ہے کہ وہ قاضی کے مہرلگے ہوئے خط کو گواہی کے بغیر ہی نافذ کرتے تھے جبکہ دوسرے اہل علم کا کہنا ہے کہ آج کل لوگوں میں فساد و خیانت کا دور دورہ ہے اس لیے مالی معاملات اور حدود قصاص دونوں میں سر بمہرخط کے ساتھ شہادت کا ہونا بھی ضروری ہے۔
دوسرامسئلہ جو پہلے مسئلےکا تتمہ و تکملہ ہے کہ جس قاضی کو خط لکھا جائے وہ اس خط پر مطلقاً عمل کرے یا اس میں کوئی تخصیص ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا موقف ہے کہ قاضی خط پر مطلقاًعمل کرے خواہ اس کا تعلق مالی معاملات سے ہو یا حدود قصاص کے بارے میں ہو لیکن احناف و شوافع کے نزدیک جس قاضی کو خط لکھا جائے وہ صرف مالی معاملات میں لکھے گئے خط پر عمل کر سکتا ہے لیکن حدود قصاص اس حکم سے مستثنیٰ ہیں۔
پھر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے دوسرے مسئلے میں احناف و شوافع پر دو اعتراض کیے ہیں۔
(ا)
اثبات تناقص:
ان حضرات کے اقوال میں تعارض کا اس طرح رد ہے کیونکہ پہلے تو کہتے ہیں کہ ایک قاضی کا دوسرے قاضی کو خط لکھنا حدود میں قبول نہیں پھر کہتے ہیں کہ اگر مقدمہ قتل خطا کا ہے تو اس میں دوسرے قاضی کے خط کا اعتبار کیا جائے گا کیونکہ قتل خطا ایک مالی مقدمہ ہے یعنی اس میں صرف مال اور دیت لازم ہوتی ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس علت کا اس طرح رد کرتے ہیں کہ قتل خطا مالی مقدمہ اس وقت بنتا ہے جب حاکم کو قتل کا ثبوت مل جائے بصورت دیگر دونوں کا معاملہ ایک جیسا ہے بلکہ بعض اوقات قتل عمدکا انجام بھی قتل خطا کی طرح مال پر ہوتا ہے یعنی مال پر صلح ہو جاتی ہے تو مذکورہ قیاس اور علت کی روسے دونوں میں برابری ہونی چاہیے تو پھر ان دونوں میں فرق کرنے کا کیا مطلب۔
(ب)
تخصیص حدود:
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان حضرات پر دوسرا اعتراض یہ کیا ہے کہ انھوں نے مہر لگے ہوئے خط کو غیر حدود سے کیوں خاص کیا ہے جبکہ آثار میں مطلق طور پر مہر والے خط کا اعتبار کیا گیا ہے جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے عامل کو حدود کے متعلق لکھا تھا۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے علاوہ دیگر آثار بھی پیش کیے ہیں۔
آخر میں امام بخاری نے حدیث پیش کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل خیبر کو خط لکھا کہ اپنے صاحب کی دیت ادا کرویا پھر جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ۔
اس کی تفصیل حدیث 7192۔
میں بیان ہوئی ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7162