صحيح البخاري
كِتَاب الْأَذَانِ -- کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
65. بَابُ مَنْ أَخَفَّ الصَّلاَةَ عِنْدَ بُكَاءِ الصَّبِيِّ:
باب: جس نے بچے کے رونے کی آواز سن کر نماز کو مختصر کر دیا۔
حدیث نمبر: 709
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، أَنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ حَدَّثَهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنِّي لَأَدْخُلُ فِي الصَّلَاةِ وَأَنَا أُرِيدُ إِطَالَتَهَا، فَأَسْمَعُ بُكَاءَ الصَّبِيِّ فَأَتَجَوَّزُ فِي صَلَاتِي مِمَّا أَعْلَمُ مِنْ شِدَّةِ وَجْدِ أُمِّهِ مِنْ بُكَائِهِ".
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سعید بن ابی عروبہ نے بیان کیا۔ کہا کہ ہم سے قتادہ نے بیان کیا کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نماز شروع کر دیتا ہوں۔ ارادہ یہ ہوتا ہے کہ نماز طویل کروں، لیکن بچے کے رونے کی آواز سن کر مختصر کر دیتا ہوں کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ ماں کے دل پر بچے کے رونے سے کیسی چوٹ پڑتی ہے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث989  
´دوران نماز حادثہ پیش آ جانے پر نماز ہلکی کرنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نماز شروع کرتا ہوں اور لمبی کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں، اتنے میں بچے کے رونے کی آواز سن لیتا ہوں تو نماز اس خیال سے مختصر کر دیتا ہوں کہ بچے کی ماں کو اس کے رونے کی وجہ سے تکلیف ہو گی ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 989]
اردو حاشہ:
فائدہ:

(1)
نماز کے طویل یا مختصر کرنے سے قراءت کو طویل یا مختصر کرنا مراد ہے۔
دوسرے ارکان کے اذکار میں بھی کسی حد تک اختصار ممکن ہے۔

(2)
امام کو مقتدیوں کے حالات کا لحاظ رکھنا چاہیے۔

(3)
عورتیں مسجد میں آ کر باجماعت نماز ادا کرسکتی ہیں اور اپنے ساتھ چھوٹے بچوں کو بھی لاسکتی ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 989   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 376  
´نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے نماز میں بچے کے رونے کی آواز سن کر نماز ہلکی کر دینے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اللہ کی! جب نماز میں ہوتا ہوں اور اس وقت بچے کا رونا سنتا ہوں تو اس ڈر سے نماز کو ہلکی کر دیتا ہوں کہ اس کی ماں کہیں فتنے میں نہ مبتلا ہو جائے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 376]
اردو حاشہ:
1؎:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ امام کو ایسی صورت میں یا اسی طرح کی صورتوں میں بروقت نماز ہلکی کردینی چاہئے،
تاکہ بچوں کی مائیں ان کے رونے اور چلانے سے گھبرا نہ جائیں۔
 
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 376   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:709  
709. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: میں نماز کے آغاز کے وقت اسے طول دینے کا ارادہ کرتا ہوں لیکن بچے کا رونا سن کر اسے مختصر کر دیتا ہوں کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ بچے کے رونے سے اس کی ماں کو پریشانی اور تشویش لاحق ہو گی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:709]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے مندرجہ ذیل مسائل کا پتا چلتا ہے:
٭عورتیں مردوں کے ہمراہ نماز باجماعت ادا کرسکتی ہیں۔
٭ رسول اللہ ﷺ اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ بہت شفقت فرماتے تھے اور ان کی احوال گیری کرتے رہتے تھے۔
٭اس حدیث سے استدلال کیا گیا ہے کہ بچوں کو مسجد میں لایا جا سکتا ہے۔
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:
یہ بات محل نظر ہے، کیونکہ بچے کہ رونے سے ماں کا پریشان ہونا بیان ہوا ہے، اس کے لیے ضروری نہیں کہ بچہ ماں کے ساتھ ہی ہو بلکہ ممکن ہے کہ مسجد کے ساتھ اس کا گھر ہو اور مسجد گھر سے بچے کے رونے کی آواز سنائی دے رہی ہو۔
(فتح الباري: 262/2)
لیکن حافظ ابن حجر ؒ کی یہ توجیہ محل نظر ہے کیونکہ مسجد کے آس پاس گھر تو ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے تھے جن کے ہاں اولاد نہیں تھی۔
والله أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 709