صحيح البخاري
كِتَاب الْأَحْكَامِ -- کتاب: حکومت اور قضا کے بیان میں
37. بَابُ يُسْتَحَبُّ لِلْكَاتِبِ أَنْ يَكُونَ أَمِينًا عَاقِلاً:
باب: فیصلہ لکھنے والا امانت دار اور عقلمند ہونا چاہئے۔
حدیث نمبر: 7191
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ أَبوُ ثَابِتٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ السَّبَّاقِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، قَالَ:" بَعَثَ إِلَيَّ أَبُو بَكْرٍ لِمَقْتَلِ أَهْلِ الْيَمَامَةِ وَعِنْدَهُ عُمَرُ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنَّ عُمَرَ أَتَانِي، فَقَالَ: إِنَّ الْقَتْلَ قَدِ اسْتَحَرَّ يَوْمَ الْيَمَامَةِ بِقُرَّاءِ الْقُرْآنِ، وَإِنِّي أَخْشَى أَنْ يَسْتَحِرَّ الْقَتْلُ بِقُرَّاءِ الْقُرْآنِ فِي الْمَوَاطِنِ كُلِّهَا فَيَذْهَبَ قُرْآنٌ كَثِيرٌ، وَإِنِّي أَرَى أَنْ تَأْمُرَ بِجَمْعِ الْقُرْآنِ، قُلْتُ: كَيْفَ أَفْعَلُ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، فَقَالَ عُمَرُ: هُوَ وَاللَّهِ خَيْرٌ، فَلَمْ يَزَلْ عُمَرُ يُرَاجِعُنِي فِي ذَلِكَ حَتَّى شَرَحَ اللَّهُ صَدْرِي لِلَّذِي شَرَحَ لَهُ صَدْرَ عُمَرَ، وَرَأَيْتُ فِي ذَلِكَ الَّذِي رَأَى عُمَرُ، قَالَ زَيْدٌ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَإِنَّكَ رَجُلٌ شَابٌّ عَاقِلٌ، لَا نَتَّهِمُكَ، قَدْ كُنْتَ تَكْتُبُ الْوَحْيَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَتَبَّعِ الْقُرْآنَ، فَاجْمَعْهُ، قَالَ زَيْدٌ: فَوَاللَّهِ لَوْ كَلَّفَنِي نَقْلَ جَبَلٍ مِنَ الْجِبَالِ مَا كَانَ بِأَثْقَلَ عَلَيَّ مِمَّا كَلَّفَنِي مِنْ جَمْعِ الْقُرْآنِ، قُلْتُ: كَيْفَ تَفْعَلَانِ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: هُوَ وَاللَّهِ خَيْرٌ فَلَمْ يَزَلْ يَحُثُّ مُرَاجَعَتِي حَتَّى شَرَحَ اللَّهُ صَدْرِي لِلَّذِي شَرَحَ اللَّهُ لَهُ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ وعُمَرَ، وَرَأَيْتُ فِي ذَلِكَ الَّذِي رَأَيَا فَتَتَبَّعْتُ الْقُرْآنَ أَجْمَعُهُ مِنَ الْعُسُبِ، وَالرِّقَاعِ، وَاللِّخَافِ، وَصُدُورِ الرِّجَالِ، فَوَجَدْتُ فِي آخِرِ سُورَةِ التَّوْبَةِ: لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ سورة التوبة آية 128إِلَى آخِرِهَا مَعَ خُزَيْمَةَ، أَوْ أَبِي خُزَيْمَةَ، فَأَلْحَقْتُهَا فِي سُورَتِهَا، وَكَانَتِ الصُّحُفُ عِنْدَ أَبِي بَكْرٍ حَيَاتَهُ حَتَّى تَوَفَّاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، ثُمَّ عِنْدَ عُمَرَ حَيَاتَهُ حَتَّى تَوَفَّاهُ اللَّهُ، ثُمَّ عِنْدَ حَفْصَةَ بِنْتِ عُمَرَ"، قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ: اللِّخَافُ يَعْنِي: الْخَزَفَ.
ہم سے محمد بن عبداللہ ابوثابت نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبید بن سابق نے اور ان سے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہ جنگ یمامہ میں بکثرت (قاری صحابہ کی) شہادت کی وجہ سے ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے بلا بھیجا۔ ان کے پاس عمر رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا کہ عمر میرے پاس آئے اور کہا کہ جنگ یمامہ میں قرآن کے قاریوں کا قتل بہت ہوا ہے اور میرا خیال ہے کہ دوسری جنگوں میں بھی اسی طرح وہ شہید کئے جائیں گے اور قرآن اکثر ضائع ہو جائے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ قرآن مجید کو (کتابی صورت میں) جمع کرنے کا حکم دیں۔ اس پر میں نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں کوئی ایسا کام کیسے کر سکتا ہوں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا واللہ! یہ تو کار خیر ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ اس معاملہ میں برابر مجھ سے کہتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اسی طرح اس معاملے میں میرا بھی سینہ کھول دیا جس طرح عمر رضی اللہ عنہ کا تھا اور میں بھی وہی مناسب سمجھنے لگا جسے عمر رضی اللہ عنہ مناسب سمجھتے تھے۔ زید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ مجھ سے ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم جوان ہو، عقلمند ہو اور ہم تمہیں کسی بارے میں متہم بھی نہیں سمجھتے تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی بھی لکھتے تھے، پس تم اس قرآن مجید (کی آیات) کو تلاش کرو اور ایک جگہ جمع کر دو۔ زید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ واللہ! اگر ابوبکر رضی اللہ عنہ مجھے کسی پہاڑ کو اٹھا کر دوسری جگہ رکھنے کا مکلف کرتے تو اس کا بوجھ بھی میں اتنا نہ محسوس کرتا جتنا کہ مجھے قرآن مجید کو جمع کرنے کے حکم سے محسوس ہوا۔ میں نے ان لوگوں سے کہا کہ آپ کس طرح ایسا کام کرتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا۔ ابوبکر نے کہا کہ واللہ! یہ خیر ہے۔ چنانچہ مجھے آمادہ کرنے کی کوشش کرتے رہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس کام کے لیے میرا بھی سینہ کھول دیا جس کے لیے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کا سینہ کھولا تھا اور میں بھی وہی مناسب خیال کرنے لگا جسے وہ لوگ مناسب خیال کر رہے تھے۔ چنانچہ میں نے قرآن مجید کی تلاش شروع کی۔ اسے میں کھجور کی چھال، چمڑے وغیرہ کے ٹکڑوں، پتلے پتھر کے ٹکڑوں اور لوگوں کے سینوں سے جمع کرنے لگا۔ میں نے سورۃ التوبہ کی آخری آیت «لقد جاءكم رسول من أنفسكم‏» آخر تک خزیمہ یا ابوخزیمہ رضی اللہ عنہ کے پاس پائی اور اس کو سورت میں شامل کر لیا۔ (قرآن مجید کے یہ مرتب) صحیفے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس رہے جب تک وہ زندہ ہے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں وفات دی پھر وہ عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آ گئے اور آخر وقت تک ان کے پاس رہے۔ جب آپ کو بھی اللہ تعالیٰ نے وفات دی تو وہ حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا کے پاس محفوظ رہے۔ محمد بن عبیداللہ نے کہا کہ «اللخاف» کے لفظ سے ٹھیکری مراد ہے جسے «خزف‏.‏» کہتے ہیں۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7191  
7191. سیدنا زید بن ثابت ؓ سے روایت ہے کہ یمامہ سے جنگ میں بکثرت شہادت کی بنا پر سیدنا ابو بکر ؓ نے مجھے بلا بھیجا۔ اس وقت ان کے پاس سیدنا عمر ؓ بھی تھے۔ سیدنا ابو بکر ؓ نے فرمایا: میرے پاس سیدنا عمر ؓ آئے ہیں اور کہتے ہیں کہ جنگ میں قرآن کے قاریوں کا قتل بہت ہوا ہے اور مجھے ڈر ہے اگر اسی طرح قرآن کے قاری دوسری جنگوں میں قتل ہوتے رہے توقرآن کا بہت سا حصہ ضائع ہوجائے گا۔ میرا خیال ہے کہ آپ قرآن جمع کرنے کا اہتمام کریں۔ میں نے (انہیں) کہا: میں وہ کام کسے کرسکتا ہوں جو رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا؟ سیدنا عمر ؓ کہا: اللہ کی قسم! یہ تو کار خیر ہے۔اور وہ مسلسل میرے ساتھ اس مسئلے میں تکرار کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ میں میرا سینہ اس کے لیے کھول دیا جس کے لیے عمر ؓ سینہ کھولا تھا اور میں بھی وہی مناسب خیال کرنے لگا جسے سیدنا عمر ؓ مناسب سمجھتے تھے۔ سیدنا زید ؓ نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7191]
حدیث حاشیہ:
باب کا مضمون اس سے ثابت ہوا کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ایک اہم تحریر کے لیے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا انتخاب فرمایا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7191   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7191  
7191. سیدنا زید بن ثابت ؓ سے روایت ہے کہ یمامہ سے جنگ میں بکثرت شہادت کی بنا پر سیدنا ابو بکر ؓ نے مجھے بلا بھیجا۔ اس وقت ان کے پاس سیدنا عمر ؓ بھی تھے۔ سیدنا ابو بکر ؓ نے فرمایا: میرے پاس سیدنا عمر ؓ آئے ہیں اور کہتے ہیں کہ جنگ میں قرآن کے قاریوں کا قتل بہت ہوا ہے اور مجھے ڈر ہے اگر اسی طرح قرآن کے قاری دوسری جنگوں میں قتل ہوتے رہے توقرآن کا بہت سا حصہ ضائع ہوجائے گا۔ میرا خیال ہے کہ آپ قرآن جمع کرنے کا اہتمام کریں۔ میں نے (انہیں) کہا: میں وہ کام کسے کرسکتا ہوں جو رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا؟ سیدنا عمر ؓ کہا: اللہ کی قسم! یہ تو کار خیر ہے۔اور وہ مسلسل میرے ساتھ اس مسئلے میں تکرار کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ میں میرا سینہ اس کے لیے کھول دیا جس کے لیے عمر ؓ سینہ کھولا تھا اور میں بھی وہی مناسب خیال کرنے لگا جسے سیدنا عمر ؓ مناسب سمجھتے تھے۔ سیدنا زید ؓ نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7191]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث کے مطابق حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےحضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوعقلمند کہا،پھر اسی عقل ودانش کو ان کے امانت دار ہونے کا سبب قراردیا بصورت دیگرصرف عقل مند ہونا توامانت دار ہونے کی دلیل نہیں بن سکتا۔
بہت سے عقلمند پر لے درجے کے خیانت پیشہ ثابت ہوتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں عبداللہ بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی فریضہ کتابت ادا کرتے تھے۔
ان کی امانت ودیانت کا یہ حال تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے ملوک وسلاطین (بادشاہوں)
کتابت کرتے تھے۔

روایات میں ہے کہ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک عیسائی کاتب رکھا، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انھیں ڈانٹا اوریہ آیت تلاوت فرمائی:
اے ایمان والو!یہودونصاریٰ کو دوست نہ بناؤ۔
(المآئدة: 51)
حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی:
اسے میں نے دوست نہیں بنایا بلکہ بطور کاتب رکھا ہے۔
اس پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
کیا تمھیں مسلمانوں میں کوئی کاتب نہیں ملتا جو تمہارا یہ کام کرسکے؟ جب اللہ تعالیٰ نے انھیں دور کیا ہے، خیانت پیشہ کہا ہے اور ذلیل قرار دیا ہے تو تم انھیں اپنےقریب کیوں کرتے ہو؟ انھیں امانت دارقرار دیتے ہو اور یہ عہدہ دے کر ان کی حوصلہ افزائی کیوں کرتے ہو۔
(فتح الباري: 13/228)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7191