صحيح البخاري
كِتَاب التَّمَنِّي -- کتاب: نیک ترین آرزؤں کے جائز ہونے کے بیان میں
9. بَابُ مَا يَجُوزُ مِنَ اللَّوْ:
باب: لفظ ”اگر مگر“ کے استعمال کا جواز۔
حدیث نمبر: 7243
حَدَّثَنَا مُسدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، حَدَّثَنَا أَشْعَثُ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" سَأَلْتُ النَّبيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" عَنِ الجَدْرِ، أَمِنَ الْبَيْتِ هُوَ؟، قَالَ: نَعَمْ، قُلْتُ: فَمَا لَهُمْ لَمْ يَدْخِلُوهُ فِي الْبَيْتِ؟، قَالَ: إِنَّ قَوْمَكِ قَصَّرَتْ بِهِمُ النَّفَقَةُ، قُلْتُ: فَمَا شَأْنُ بَابِهِ مُرْتَفِعًا؟، قَالَ: فَعَلَ ذَاكِ قَوْمُكِ ليُدْخِلُوا مَنْ شَاءُوا وَيَمْنَعُوا مَنْ شَاءُوا، وَلَوْلَا أَنَّ قَوْمَكِ حَدِيثٌ عَهْدُهُم بِالْجَاهِلِيَّةِ، فَأَخَافُ أَنْ تُنْكِرَ قُلُوبُهُمْ أَنْ أُدْخُلَ الْجَدْرِ فِي الْبَيْتِ وَأَنْ أَلْصِقْ بَابَهُ فِي الْأَرْضِ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوالاحوص نے بیان کیا، کہا ہم سے اشعث نے، ان سے اسود بن یزید نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (خانہ کعبہ کے) حطیم کے بارے میں پوچھا کہ کیا یہ بھی خانہ کعبہ کا حصہ ہے؟ فرمایا کہ ہاں۔ میں نے کہا: پھر کیوں ان لوگوں نے اسے بیت اللہ میں داخل نہیں کیا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری قوم کے پاس خرچ کی کمی ہو گئی تھی، میں نے کہا کہ یہ خانہ کعبہ کا دروازہ اونچائی پر کیوں ہے؟ فرمایا کہ یہ اس لیے انہوں نے کیا ہے تاکہ جسے چاہیں اندر داخل کریں اور جسے چاہیں روک دیں۔ اگر تمہاری قوم (قریش) کا زمانہ جاہلیت سے قریب نہ ہوتا اور مجھے خوف نہ ہوتا کہ ان کے دلوں میں اس سے انکار پیدا ہو گا تو میں حطیم کو بھی خانہ کعبہ میں شامل کر دیتا اور اس کے دروازے کو زمین کے برابر کر دیتا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 126  
´مصلحتاً کسی مستحب کام کو ترک کرنا`
«. . . قَالَ لِي ابْنُ الزُّبَيْرِ: كَانَتْ عَائِشَةُ تُسِرُّ إِلَيْكَ كَثِيرًا، فَمَا حَدَّثَتْكَ فِي الْكَعْبَةِ، قُلْتُ: قَالَتْ لِي: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا عَائِشَةُ، لَوْلَا قَوْمُكِ حَدِيثٌ عَهْدُهُمْ، قَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ: بِكُفْرٍ لَنَقَضْتُ الْكَعْبَةَ، فَجَعَلْتُ لَهَا بَابَيْنِ، بَابٌ يَدْخُلُ النَّاسُ وَبَابٌ يَخْرُجُونَ "، فَفَعَلَهُ ابْنُ الزُّبَيْرِ . . .»
. . . مجھ سے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا تم سے بہت باتیں چھپا کر کہتی تھیں، تو کیا تم سے کعبہ کے بارے میں بھی کچھ بیان کیا، میں نے کہا (ہاں) مجھ سے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک مرتبہ) ارشاد فرمایا تھا کہ اے عائشہ! اگر تیری قوم (دور جاہلیت کے ساتھ) قریب نہ ہوتی (بلکہ پرانی ہو گئی ہوتی) ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا یعنی زمانہ کفر کے ساتھ (قریب نہ ہوتی) تو میں کعبہ کو توڑ دیتا اور اس کے لیے دو دروازے بنا دیتا۔ ایک دروازے سے لوگ داخل ہوتے اور دوسرے دروازے سے باہر نکلتے، (بعد میں) ابن زبیر نے یہ کام کیا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/بَابُ مَنْ تَرَكَ بَعْضَ الاِخْتِيَارِ مَخَافَةَ أَنْ يَقْصُرَ فَهْمُ بَعْضِ النَّاسِ عَنْهُ فَيَقَعُوا فِي أَشَدَّ مِنْهُ: 126]

تشریح:
قریش چونکہ قریبی زمانہ میں مسلمان ہوئے تھے، اسی لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احتیاطاً کعبہ کی نئی تعمیر کو ملتوی رکھا، حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہما نے یہ حدیث سن کر کعبے کی دوبارہ تعمیر کی اور ا س میں دو دروازے ایک شرقی اور ایک غربی جانب نکال دئیے، لیکن حجاج نے پھر کعبہ کو توڑ کر اسی شکل پر قائم کر دیا۔ جس پر عہد جاہلیت سے چلا آ رہا تھا۔ اس باب کے تحت حدیث لانے کا حضرت امام کا منشا یہ ہے کہ ایک بڑی مصلحت کی خاطر کعبہ کا توڑنا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ملتوی فرما دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر فتنہ و فساد پھیل جانے کا یا اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچ جانے کا اندیشہ ہو تو وہاں مصلحتاً کسی مستحب کام کو ترک بھی کیا جا سکتا ہے۔ سنت نبوی کا معاملہ الگ ہے۔ جب لوگ اسے بھول جائیں تو یقیناً اس سنت کے زندہ کرنے والوں کو سو شہیدوں کا ثواب ملتا ہے۔ جس طرح ہندوستانی مسلمان ایک مدت سے جہری نمازوں میں آمین بالجہر جیسی سنت نبوی کو بھولے ہوئے تھے کہ اکابر اہل حدیث نے ازسر نو اس سنت نبوی کو زندہ کیا اور کتنے لوگوں نے اس سنت کو رواج دینے میں بہت تکلیف برداشت کی، بہت سے نادانوں نے اس سنت نبوی کا مذاق اڑایا اور اس پر عمل کرنے والوں کے جانی دشمن ہو گئے، مگر ان بندگان مخلصین نے ایسے نادانوں کی باتوں کو نظر انداز کر کے سنت نبوی کو زندہ کیا، جس کے اثرمیں آج اکثر لوگ اس سنت سے واقف ہو چکے ہیں اور اب ہر جگہ اس پر عمل درآمد کیا جا سکتا ہے۔ پس ایسی سنتوں کا مصلحتاً ترک کرنا مناسب نہیں ہے۔ حدیث میں آیا ہے «من تمسك بسنتي عند فساد امتي فله اجر مائة» شہید جو کوئی فساد کے وقت میری سنت کو لازم پکڑے گا اس کو سو شہیدوں کا ثواب ملے گا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 126   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7243  
7243. سیدہ عائشہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ سے حطیم کعبہ کے متعلق پوچھا: کیا وہ بھی خانہ کعبہ کا حصہ ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں میں نے کہا: پھر ان لوگوں نے اسے بیت اللہ میں داخل کیوں نہیں کیا؟ آپ نےفرمایا: تمہاری قوم کے پاس خرچ کم ہوگیا تھا۔ میں نے پوچھا: اس کا دروازہ اونچائی پر کیوں ہے؟ آپ نے فرمایا: تمہاری قوم نے اس لیے ایسا کیا ہے تاکہ جسے چاہیں کعبہ میں داخل کریں اور جسے چاہیں منع کر دیں۔ اگر تمہاری قوم زمانہ جاہلیت کے قریب نہ ہوتی اور مجھے ان کے دلوں کے انکار کا خطرہ نہ ہوتا تو میں حطیم کو بیت اللہ میں داخل کر دیتا اور اس کا دروازہ بھی زمین کے برابر کر دیتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7243]
حدیث حاشیہ:
حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت میں ایسا کر دیا تھا۔
شرقی اور غربی دو دروازے بنا دئیے تھے مگر حجاج بن یوسف نے ضد میں آکر اس عمارت کو تڑوا کر پہلی حالت پر کر دیا۔
آج تک اسی حالت پر ہے۔
دوسری روایت میں یوں ہے اس کے دو دروازے رکھتا ہے ایک مشرقی ایک مغربی۔
عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت میں یہ حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سن کر جیسا منشا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا اسی طرح کعبہ کو بنا دیا مگر خدا حجاج ظالم سے سمجھے اس نے کیا کیا کہ عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی ضد سے پھر کعبہ تڑوا کر جیسا جاہلیت کے زمانہ میں تھا ویسا ہی کر دیا اگر کعبہ میں دو دروازے رہتے تو داخلے کے وقت کیسی راحت رہتی‘ ہوا آتی اور نکلتی رہتی اب ایک ہی دروازہ اور روشن دان بھی ندارد۔
ادھر لوگوں کا ہجوم۔
داخلے کے وقت وہ تکلیف ہوتی ہے کہ معاذ اللہ اور گرمی اور حبس کے مارے نماز بھی اچھی طرح اطمینان سے نہیں پڑھی جاتی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7243   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2955  
´طواف کعبہ حطیم سمیت کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حطیم کے متعلق سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ کعبہ ہی کا ایک حصہ ہے میں نے پوچھا: پھر لوگوں (کفار) نے اس کو داخل کیوں نہیں کیا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کے پاس خرچ نہیں رہ گیا تھا میں نے کہا: اس کا دروازہ اتنا اونچا کیوں رکھا کہ بغیر سیڑھی کے اس پر چڑھا نہیں جاتا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسا تمہاری قوم کے لوگوں نے کیا تھا، تاکہ وہ جس کو چاہیں اندر جانے دیں اور جس کو چاہیں روک دیں، اور اگر تمہاری قوم کا زمانہ ابھی ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2955]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
خانہ کعبہ کی نئے سرے سے تعمیر رسول اللہ ﷺ کے منصب پر فائز ہونے سے پانچ سال پہلے کا واقعہ ہے۔

(2)
قریش میں زمانہ جاہلیت میں بھی حلال اور حرام کی تمیز موجود تھی لیکن عملی طور پر اس کا خیال بہت کم رکھا جاتا تھا۔
خانہ کعبہ کی تعمیر نو کے لیے قریش نے حلال مال خرچ کرنے کی شرط لگائی تھی لیکن حلال مال مکمل خانہ کعبہ کی تعمیر کے لیے کافی نہ ہوا تو انھوں نے حطیم والا حصہ تعمیر کے بغیر چھوڑدیا۔

(3)
مسجد کی تعمیر میں حلال کمائی سے حاصل کیا ہوا مال ہی خرچ کرنا چاہیے۔

(4)
حطیم چونکہ کعبہ کا حصہ ہے اس لیے طواف اس کے باہر سے کرنا چاہیےاگر کوئی شخص غلطی سے اس کے اندر سے گزرجائے تو وہ چکر شمار نہ کرے ورنہ طواف ناقص رہے گا۔

(5)
خانہ کعبہ کی عمارت کے بارے میں مولانا صفی الرحمن مبارک پوری ؒ نے جو تفصیلات بیان کی ہیں ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:

  خانہ کعبہ کی موجودہ بلندی پندرہ میٹر ہے۔
حجر اسود والی دیوار اور اس کے سامنے کی دیوار یعنی جنوبی اور شمالی دیواریں دس دس میٹر لمبی ہیں۔
حجر اسود مطاف کی زمین سے ڈیڑھ میٹر کی بلندی پر ہے۔
دروازہ زمین سے دو میٹر بلند ہے۔
چاروں طرف دیواروں کے ساتھ ساتھ ایک بڑھے ہوئے کرسی نما ضلعے کا گھیرا ہے۔
اسے شاذ ردان کہتے ہیں۔
اس کی اونچائی 35 سینٹی میٹر اور اوسط چوڑائی 30 سنٹی میٹر ہے۔
یہ بھی بیت اللہ کا حصہ ہے جسے قریش نے چھوڑدیا تھا۔ (الرحيق المختوم ص: 93)

(6)
بعض اوقات مصلحت کا خیال کرتے ہوئے افضل کام چھوڑ کر غیر افضل جائز کام کرلینا بہتر ہے۔
جب یہ خطرہ ہو کہ جائز کام کرنے سے کچھ نا مطلوب نتائج سامنے آئینگے جن کی تلافی مشکل ہوگی تو افضل کو ترک کیا جاسکتا ہے۔

(7)
حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور حکومت میں کعبہ شریف کی تعمیر اس انداز سے کردی تھی جو رسول اللہﷺ کی خواہش تھی لیکن ان کی شہادت کے بعد کعبہ شریف کو دوبارہ پہلے انداز سے بنادیا گیا۔

(8)
۔
اگر کوئی شخص کعبہ کے اندر نماز پڑھنا چاہے تو اسے چاہیے کہ حطیم میں نماز پڑھ لے کیونکہ یہ خانہ کعبہ کا ایک حصہ ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2955   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 876  
´حطیم میں نماز پڑھنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں: میں چاہتی تھی کہ بیت اللہ میں داخل ہو کر اس میں نماز پڑھوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے حطیم ۱؎ کے اندر کر دیا اور فرمایا: اگر تم بیت اللہ کے اندر داخل ہونا چاہتی ہو تو حطیم میں نماز پڑھ لو، یہ بھی بیت اللہ کا ایک حصہ ہے، لیکن تمہاری قوم کے لوگوں نے کعبہ کی تعمیر کے وقت اسے چھوٹا کر دیا، اور اتنے حصہ کو بیت اللہ سے خارج کر دیا۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 876]
اردو حاشہ:
1؎:
حطیم کعبہ کے شمالی جانب ایک طرف کا چھوٹا ہوا حصہ ہے جو گول دائرے میں دیوار سے گھیر دیا گیا ہے،
یہ بھی بیت اللہ کا ایک حصہ ہے اس لیے طواف اس کے باہر سے کرنا چاہئے،
اگر کوئی طواف میں حطیم کو چھوڑ دے اور اُس کے اندر سے آئے تو طواف درست نہ ہو گا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 876   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2028  
´حطیم میں نماز پڑھنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میری خواہش تھی کہ میں بیت اللہ میں داخل ہو کر اس میں نماز پڑھوں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے حطیم میں داخل کر دیا، اور فرمایا: جب تم بیت اللہ میں داخل ہونا چاہو تو حطیم کے اندر نماز پڑھ لیا کرو کیونکہ یہ بھی بیت اللہ ہی کا ایک ٹکڑا ہے، تمہاری قوم کے لوگوں نے جب کعبہ تعمیر کیا تو اسی پر اکتفا کیا تو لوگوں نے اسے بیت اللہ سے خارج ہی کر دیا ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 2028]
فوائد ومسائل:
رسول اللہ ﷺ کی عمر مبارک کا پینتیسواں سال تھا کہ قریش نے بیت اللہ کی خستہ عمارت کو از سر نو تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا اور عہد کیا کہ اس میں صرف حلال رقم ہی صرف کریں گے۔
رنڈی کی اجرت۔
سود کی دولت۔
اور کسی کا ناحق لیا ہوا مال استعمال نہیں ہونے دیں گے۔
مگر حلال مال کی کمی پڑ گئی۔
تو انھوں نے شمال کی طرف سے کعبہ کی لمبائی تقریباً چھ ہاتھ کم کردی۔
یہی ٹکڑا حجر اور حطیم کہلاتا ہے۔
(الرحیق المختوم)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2028   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7243  
7243. سیدہ عائشہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ سے حطیم کعبہ کے متعلق پوچھا: کیا وہ بھی خانہ کعبہ کا حصہ ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں میں نے کہا: پھر ان لوگوں نے اسے بیت اللہ میں داخل کیوں نہیں کیا؟ آپ نےفرمایا: تمہاری قوم کے پاس خرچ کم ہوگیا تھا۔ میں نے پوچھا: اس کا دروازہ اونچائی پر کیوں ہے؟ آپ نے فرمایا: تمہاری قوم نے اس لیے ایسا کیا ہے تاکہ جسے چاہیں کعبہ میں داخل کریں اور جسے چاہیں منع کر دیں۔ اگر تمہاری قوم زمانہ جاہلیت کے قریب نہ ہوتی اور مجھے ان کے دلوں کے انکار کا خطرہ نہ ہوتا تو میں حطیم کو بیت اللہ میں داخل کر دیتا اور اس کا دروازہ بھی زمین کے برابر کر دیتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7243]
حدیث حاشیہ:

قریش نے جب بیت اللہ کو دوبارہ تعمیر کرنا چاہا تو انھوں نے عزم کیا کہ اس پر حلال کی رقم خرچ کی جائے گی تو ان کے پاس اتنامال جمع نہ ہو سکا کہ جس سے پورا بیت اللہ تعمیر ہوسکتا، اس لیے انھوں نے حطیم کوچھوڑ کر باقی بیت اللہ پر چھت ڈال دی۔
اللہ تعالیٰ نے ان کے اس جذبے کی قدر کی کہ آئندہ وہ انھی بنیادوں پر تعمیر ہوتا رہے گا۔
حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب اسے تعمیر کیا تو حطیم کو اس میں شامل کر دیا اور زمین کے برابر اس کے شرقی اورغربی دروازے رکھ دیے تھے لیکن حجاج بن یوسف نے اسے مسمار کر کے دوبارہ انھی بنیادوں پر تعمیر کر دیا۔

اس حدیث میں (لَوْلا)
کا لفظ استعمال ہوا ہے، اس بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ حدیث بیان کی ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7243