صحيح البخاري
كِتَاب أَخْبَارِ الْآحَادِ -- کتاب: خبر واحد کے بیان میں
3. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {لاَ تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلاَّ أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ} :
باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ الاحزاب میں) فرمان ”نبی کے گھروں میں نہ داخل ہو مگر اجازت لے کر جب تم کو کھانے کے لیے بلایا جائے“۔
فَإِذَا أَذِنَ لَهُ وَاحِدٌ جَازَ.
‏‏‏‏ ظاہر ہے کہ اجازت کے لیے ایک شخص کا بھی اذن دینا کافی ہے۔
حدیث نمبر: 7262
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" دَخَلَ حَائِطًا وَأَمَرَنِي بِحِفْظِ الْبَابِ، فَجَاءَ رَجُلٌ يَسْتَأْذِنُ، فَقَالَ: ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ، فَإِذَا أَبُو بَكْرٍ، ثُمَّ جَاءَ عُمَرُ، فَقَالَ: ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ، ثُمَّ جَاءَ عُثْمَانُ، فَقَالَ: ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ".
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے ابوعثمان نے اور ان سے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک باغ میں داخل ہوئے اور مجھے دروازہ کی نگرانی کا حکم دیا، پھر ایک صحابی آئے اور اجازت چاہی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں اجازت دے دو اور انہیں جنت کی بشارت دے دو۔ وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے، پھر عمر رضی اللہ عنہ آئے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں اجازت دے دو اور انہیں جنت کی بشارت دے دو، پھر عثمان رضی اللہ عنہ آئے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں بھی اجازت دے دو اور جنت کی بشارت دے دو۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3710  
´عثمان بن عفان رضی الله عنہ کے مناقب کا بیان`
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلا، آپ انصار کے ایک باغ میں داخل ہوئے اور اپنی حاجت پوری کی، پھر آپ نے مجھ سے فرمایا: ابوموسیٰ! تم دروازہ پر رہو کوئی بغیر اجازت کے اندر داخل نہ ہونے پائے، پھر ایک شخص نے آ کر دروازہ کھٹکھٹایا، تو میں نے کہا: کون ہے؟ انہوں نے کہا: ابوبکر ہوں، تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ ابوبکر اجازت مانگ رہے ہیں، آپ نے فرمایا: انہیں آنے دو، اور انہیں جنت کی بشارت دے دو، چنانچہ وہ اندر آئے اور میں نے انہیں جنت کی بشارت دی، پھر ایک دوسرے شخص آئے او۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3710]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس سے آپﷺ کا اشارہ اس حادثہ کی طرف تھا جس سے عثمان رضی اللہ عنہ اپنی خلافت کے آخری دور میں دوچار ہوئے پھر جام شہادت نوش کیا،
نیز اس حدیث سے ان تینوں کی فضیلت ثابت ہوتی ہے،
اوریہ کہ ان کے درمیان خلافت میں یہی ترتیب ہو گی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3710   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7262  
7262. سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ایک باغ میں تشریف لے گئے اور مجھے دروازے کی نگرانی کا حکم دیا۔ پھر ایک آدمی آیا اور وہ اجازت طلب کرتا تھا۔ آپ ﷺ نےفرمایا: اسے اجازت کےساتھ جنت کی بھی بشارت دے دو۔ وہ ابو بکر ؓ تھے۔ پھر سیدنا عمر ؓ آئے تو آپ ﷺ نے فرمایا: انہیں بھی اجازت دے دو اور جنت کی بشارت سنا دو۔ پھر سیدنا عثمان ؓ آئے تو آپ نے فرمایا: انہیں بھی اجازت کے ساتھ جنت کی خوشخبری دے دو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7262]
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب کی مطابقت ظاہر ہے کہ انہوں نے ایک شخص یعنی ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کی اجازت کو کافی سمجھا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7262   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7262  
7262. سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ایک باغ میں تشریف لے گئے اور مجھے دروازے کی نگرانی کا حکم دیا۔ پھر ایک آدمی آیا اور وہ اجازت طلب کرتا تھا۔ آپ ﷺ نےفرمایا: اسے اجازت کےساتھ جنت کی بھی بشارت دے دو۔ وہ ابو بکر ؓ تھے۔ پھر سیدنا عمر ؓ آئے تو آپ ﷺ نے فرمایا: انہیں بھی اجازت دے دو اور جنت کی بشارت سنا دو۔ پھر سیدنا عثمان ؓ آئے تو آپ نے فرمایا: انہیں بھی اجازت کے ساتھ جنت کی خوشخبری دے دو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7262]
حدیث حاشیہ:

ایک روایت کے مطابق حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دروازے پر بیٹھنے کا حکم نہیں دیا تھا۔
(صحیح البخاري، الفتن، حدیث: 7097)
جبکہ اس روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا؟ ان دونوں روایات میں کوئی تضاد اور اختلاف نہیں ہے کیونکہ ابتدا میں انھوں نے خود اس چوکیداری کو اپنے ذمے لیا تھا لیکن جب حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ذمے داری انھیں سونپ دی تھی۔

بہر حال امام بخاری نے اس حدیث سے خبر واحد کی حجیت کو ثابت کیا ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اکیلے ان حضرات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے مطلع کرتے تھے اور یہ قابل قدر حضرات اس پر یقین اور اعتماد کرتے تھے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7262