صحيح البخاري
كِتَاب الِاعْتِصَامِ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ -- کتاب: اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مضبوطی سے تھامے رہنا
2. بَابُ الاِقْتِدَاءِ بِسُنَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی پیروی کرنا۔
حدیث نمبر: 7276
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: سَأَلْتُ الْأَعْمَشَ، فَقَالَ: عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، سَمِعْتُ حُذَيْفَةَ، يَقُولُ: حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" أَنَّ الْأَمَانَةَ نَزَلَتْ مِنَ السَّمَاءِ فِي جَذْرِ قُلُوبِ الرِّجَالِ وَنَزَلَ الْقُرْآنُ، فَقَرَءُوا الْقُرْآنَ، وَعَلِمُوا مِنَ السُّنَّةِ".
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے اعمش سے پوچھا تو انہوں نے زید بن وہب سے بیان کیا کہ میں نے حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ امانت داری آسمان سے بعض لوگوں کے دلوں کی جڑوں میں اتری، (یعنی ان کی فطرت میں داخل ہے) اور قرآن مجید نازل ہوا تو انہوں نے قرآن مجید کا مطلب سمجھا اور سنت کا علم حاصل کیا تو قرآن و حدیث دونوں سے اس ایمانداری کو جو فطرتی تھی پوری قوت مل گئی۔
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6497  
´آخر زمانہ میں دنیا سے امانت داری کا اٹھ جانا`
«. . . قَالَ: يَنَامُ الرَّجُلُ النَّوْمَةَ، فَتُقْبَضُ الْأَمَانَةُ مِنْ قَلْبِهِ . . .»
. . . فرمایا کہ آدمی ایک نیند سوئے گا اور (اسی میں) امانت اس کے دل سے ختم ہو گی . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الرِّقَاقِ: 6497]

لغوی توضیح:
«جَذْر» اصل۔
«الْوكْت» کالا نقطہ۔
«الْمَجْل» چھالا، جو ہاتھ وغیرہ پر زیادہ کام کی وجہ سے نکل آتا ہے۔
«نَفِطَ» بڑا ہونا، بلند ہونا۔
«مُنْتَبراً» پھولا ہوا، بلند۔

فہم الحديث:
نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ پیش گوئی آج ہمیں من و عن مکمل نظر آتی ہے کہ ہر طرف بےایمانی اور بد دیانتی کا بازار گرم ہے، جھوٹ فریب اور دھوکہ دہی عام ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں امانت و دیانت بالکل ختم ہو چکی ہے بلکہ امانت دار آج بھی موجود ہیں مگر آٹے میں نمک کے برابر، اکثریت بےایمانوں کی ہی ہے۔ «العياذ بالله»
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 87   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4053  
´امانت کے ختم ہو جانے کا بیان۔`
حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے دو حدیثیں بیان کیں، جن میں سے ایک تو میں نے دیکھ لی ۱؎ اور دوسری کا منتظر ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے یہ بیان فرمایا: امانت آدمیوں کے دلوں کی جڑ میں اتری (پیدا ہوئی)، (طنافسی نے کہا: یعنی آدمیوں کے دلوں کے بیچ میں اتری) اور قرآن کریم نازل ہوا، تو ہم نے قرآن و سنت کی تعلیم حاصل کی ۲؎، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امانت کے اٹھ جانے کے متعلق ہم سے بیان کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی رات کو سوئے گا تو امانت اس کے دل سے اٹھا لی جائے گی، (اور جب وہ صبح ک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4053]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
دیانت داری مسلمان کے کردار کی ایک اہم صفت ہے۔

(2)
سوتے ہوئے دل سے دیانت داری کا وصف ختم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں میں یہ صفت بہت تیزی سے معدوم ہوتی چلی جائے گی حتی کہ جو شخص پہلے دیانت دار تھا ایک ہی وقت میں وہی بددیانت بن جائے گا۔

(3)
آبلےسے تشبیہ اس لیے دی گئی ہے کہ آبلہ پھولا ہوا ہونے کی وجہ سے بظاہر اہمیت کا حامل نظر آتاہے۔
حالانکہ وہ اندر سے خالی ہوتا ہے۔
اسی طرح لوگ بظاہر نیک ہوں گے لیکن ان کے دل نیکی خالی ہوں گے۔

(4)
غیر اسلامی معاشرے میں دھوکا فریب ایک خوبی سمجھا جاتا اور اس کی تعریف کی جاتی ہے۔
مسلمانوں کو ایسے نہیں ہونا چاہیے۔

(5)
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ اب قابل اعتماد افراد بہت کم رہ گئے ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4053   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2179  
´امانت کے اٹھا لیے جانے کا بیان۔`
حذیفہ بن یمان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو حدیثیں بیان کیں، جن میں سے ایک کی حقیقت تو میں نے دیکھ لی ۱؎، اور دوسری کا انتظار کر رہا ہوں، آپ نے فرمایا: امانت لوگوں کے دلوں کے جڑ میں اتری پھر قرآن کریم اترا اور لوگوں نے قرآن سے اس کی اہمیت قرآن سے جانی اور سنت رسول سے اس کی اہمیت جانی ۲؎، پھر آپ نے ہم سے امانت کے اٹھ جانے کے بارے میں بیان کرتے ہوئے فرمایا: آدمی (رات کو) سوئے گا اور اس کے دل سے امانت اٹھا لی جائے گی (اور جب وہ صبح کو اٹھے گا) تو اس کا تھوڑا سا اثر ایک نقطہٰ کی طرح دل میں رہ جائے گا، پھر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الفتن/حدیث: 2179]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی اس کا ظہور ہوچکا ہے اور قرآن وسنت کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس امانت سے متعلق لوگوں کے دلوں میں مزید پختگی پیدا ہوئی،
اور اس سے متعلق ایمانداری اور بڑھ گئی ہے۔

2؎:
اس سے معلوم ہواکہ قرآن کی تشریح وتفسیرخود قرآن سے اورپھرسنت وحدیث نبوی سے سمجھنی چاہئے،
اسی طرح قرآن کے سمجھنے میں تیسرا درجہ فہم صحابہ ہےچوتھے درجہ میں تابعین وتبع تابعین ہیں جیسا کہ پیچھے حدیث (2156) سے بھی اس کا معنی واضح ہوتا ہے۔

3؎:
یعنی جس طرح جسم پر نکلے ہوئے پھوڑے کی کھال اس کے اچھا ہونے کے وقت موٹی ہوجاتی ہے اسی طرح امانت کا حال ہوگا،
گویا اس امانت کا درجہ اس امانت سے کہیں کم تر ہے جو ایک نقطہ کے برابر رہ گئی تھی،
کیوں کہ یہاں صرف نشان باقی رہ گیا ہے
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2179   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7276  
7276. سیدنا حذیفہ ؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے ہم سے فرمایا: آسمان سے امانت لوگوں کے دلوں کی گہرائی میں اتری اور قرآن مجید بھی نازل ہوا، پھر لوگوں کے قرآن مجید پڑھا اور سنت کا علم حاصل کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7276]
حدیث حاشیہ:
قرآن کی تفسیر حدیث شریف ہے بغیر حدیث کے قرآن کا صحیح مطلب معلوم نہیں ہوتا جتنے گمراہ فرقے اس امت میں ہیں وہ کیا کرتے ہیں کہ قرآن کو لے لیتے ہیں اور حدیث کو چھوڑ دیتے ہیں اور چونکہ قرآن کی بعض آیتیں گول گول ہیں۔
ان میں اپنی رائے کو دخل دے کر گمراہ ہو جاتے ہیں۔
اس لیے مسلمانوں کو لازم ہے کہ قرآن کو حدیث کے ساتھ ملا کر پڑھیں اور جو تفسیر حدیث کے موافق ہو اسی کو اختیار کریں۔
اللہ کے فضل وکرم سے اس آخری زمانے میں جب طرح طرح کے فتنے مسلمانوں میں نمود ہو رہے ہیں اور دجال اور شیطان کے نائب ہر جگہ پھیل رہے ہیں اس نے عام مسلمانوں کا ایمان بچانے کے لیے قرآن کی ایک مختصر اور صحیح تفسیر یعنی تفسیر موضحۃ الفرقان مرتب کرا دی۔
اب ہر مسلمان بڑی آسانی کے ساتھ قرآن کا صحیح مطلب سمجھ سکتا ہے اور ان دجالی اور شیطانی پھندوں سے اپنے تئیں بچا سکتا ہے۔
الحمد اللہ منتخب حواشی اور ثنائی ترجمہ والا قرآن مجید بھی اس مقصد کے لیے بے حد مفید ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7276   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7276  
7276. سیدنا حذیفہ ؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے ہم سے فرمایا: آسمان سے امانت لوگوں کے دلوں کی گہرائی میں اتری اور قرآن مجید بھی نازل ہوا، پھر لوگوں کے قرآن مجید پڑھا اور سنت کا علم حاصل کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7276]
حدیث حاشیہ:

حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے امانت کے نازل ہونے کے بعد اس کے اٹھائے جانے کی کیفیت بھی بیان فرمائی۔
چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الرقاق میں ایک عنوان الفاظ میں قائم کیا ہے:
(باب رفع الأمانة)
امانت کے اٹھائے جانے کا بیان اس کی معلومات کے لیے حدیث: 6497 کا مطالعہ کیا جائے۔

امانت سے مراد ایمان اور اس کے احکام ہیں اور آدمیوں سے مراد اہل ایمان ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ نے فطرت کے اعتبار سے اہل ایمان کے دلوں میں امانت رکھ دی، پھر قرآن وحدیث کے نور سے فطری ایمانداری مکمل ہوگئی، اس لیے امانت کی حفاظت میں فطرت اورشریعت دونوں جمع ہیں۔
بہرحال اس حدیث سے قرآن وسنت کے اتباع کا اشارہ ملتا ہے اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ عنوان کا بھی یہی مقصد ہے۔
واللہ المستعان۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7276