صحيح البخاري
كِتَاب الْعِلْمِ -- کتاب: علم کے بیان میں
6. بَابُ مَا جَاءَ فِي الْعِلْمِ:
باب: شاگرد کا استاد کے سامنے پڑھنا اور اس کو سنانا۔
وَقَوْلِهِ تَعَالَى: {وَقُلْ رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا} الْقِرَاءَةُ وَالْعَرْضُ عَلَى الْمُحَدِّثِ. وَرَأَى الْحَسَنُ وَالثَّوْرِيُّ وَمَالِكٌ الْقِرَاءَةَ جَائِزَةً، وَاحْتَجَّ بَعْضُهُمْ فِي الْقِرَاءَةِ عَلَى الْعَالِمِ بِحَدِيثِ ضِمَامِ بْنِ ثَعْلَبَةَ قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آللَّهُ أَمَرَكَ أَنْ نُصَلِّيَ الصَّلَوَاتِ قَالَ: «نَعَمْ» . قَالَ فَهَذِهِ قِرَاءَةٌ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَ ضِمَامٌ قَوْمَهُ بِذَلِكَ فَأَجَازُوهُ. وَاحْتَجَّ مَالِكٌ بِالصَّكِّ يُقْرَأُ عَلَى الْقَوْمِ فَيَقُولُونَ أَشْهَدَنَا فُلاَنٌ. وَيُقْرَأُ ذَلِكَ قِرَاءَةً عَلَيْهِمْ، وَيُقْرَأُ عَلَى الْمُقْرِئِ فَيَقُولُ الْقَارِئُ أَقْرَأَنِي فُلاَنٌ.
‏‏‏‏ اور امام حسن بصری اور سفیان ثوری اور مالک نے شاگرد کے پڑھنے کو جائز کہا ہے اور بعض نے استاد کے سامنے پڑھنے کی دلیل ضمام بن ثعلبہ کی حدیث سے لی ہے۔ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا تھا کہ کیا اللہ نے آپ کو یہ حکم فرمایا ہے کہ ہم لوگ نماز پڑھا کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں۔ تو یہ (گویا) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پڑھنا ہی ٹھہرا۔ ضمام نے پھر جا کر اپنی قوم سے یہ بیان کیا تو انہوں نے اس کو جائز رکھا۔ اور امام مالک نے دستاویز سے دلیل لی جو قوم کے سامنے پڑھ کر سنائی جاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم کو فلاں شخص نے دستاویز پر گواہ کیا اور پڑھنے والا پڑھ کر استاد کو سناتا ہے پھر کہتا ہے مجھ کو فلاں نے پڑھایا۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلاَمٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الْوَاسِطِيُّ عَنْ عَوْفٍ عَنِ الْحَسَنِ قَالَ لاَ بَأْسَ بِالْقِرَاءَةِ عَلَى الْعَالِمِ. وَأَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ الْفِرَبْرِيُّ وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْبُخَارِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى عَنْ سُفْيَانَ قَالَ إِذَا قُرِئَ عَلَى الْمُحَدِّثِ فَلاَ بَأْسَ أَنْ يَقُولَ حَدَّثَنِي. قَالَ وَسَمِعْتُ أَبَا عَاصِمٍ يَقُولُ عَنْ مَالِكٍ وَسُفْيَانَ الْقِرَاءَةُ عَلَى الْعَالِمِ وَقِرَاءَتُهُ سَوَاءٌ.
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن حسن واسطی نے بیان کیا، کہا انہوں نے عوف سے، انہوں نے حسن بصری سے، انہوں نے کہا عالم کے سامنے پڑھنے میں کوئی قباحت نہیں۔ اور ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے سفیان ثوری سے سنا، وہ کہتے تھے جب کوئی شخص محدث کو حدیث پڑھ کر سنائے تو کچھ قباحت نہیں اگر یوں کہے کہ اس نے مجھ سے بیان کیا۔ اور میں نے ابوعاصم سے سنا، وہ امام مالک اور سفیان ثوری کا قول بیان کرتے تھے کہ عالم کو پڑھ کر سنانا اور عالم کا شاگردوں کے سامنے پڑھنا دونوں برابر ہیں۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري Q63  
´روایت حدیث کا ایک طریقہ شاگرد استاد کو پڑھ کر سنائے`
«. . . قَالَ إِذَا قُرِئَ عَلَى الْمُحَدِّثِ فَلاَ بَأْسَ أَنْ يَقُولَ حَدَّثَنِي . . .»
. . . جب کوئی شخص محدث کو حدیث پڑھ کر سنائے تو کچھ قباحت نہیں . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: Q63]

تشریح:
روایت حدیث کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ شیخ اپنے شاگرد کو حدیث پڑھ کر سنائے، اسی طرح یوں بھی ہے کہ شاگرد استاد کو پڑھ کر سنائے۔ بعض لوگ دوسرے طریقوں میں کلام کرتے تھے۔ اس لئے حضرت امام رحمہ اللہ نے یہ باب منعقد کر کے بتلا دیا کہ ہر دو طریقے جائز اور درست ہیں۔ ابن بطال نے کہا کہ دستاویز والی دلیل بہت ہی پختہ ہے کیونکہ شہادت تو اخبار سے بھی زیادہ اہم ہے۔ مطلب یہ کہ صاحب معاملہ کو دستاویز پڑھ کر سنائی جائے اور وہ گواہوں کے سامنے کہہ دے کہ ہاں یہ دستاویز صحیح ہے تو گواہ اس پر گواہی دے سکتے ہیں۔ اسی طرح جب عالم کو کتاب پڑھ کر سنائی جائے اور وہ اس کا اقرار کرے تو اس سے روایت کرنا صحیح ہو گا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 63   
حدیث نمبر: 63
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ سَعِيدٍ هُوَ الْمَقْبُرِيُّ، عَنْ شَرِيكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِك، يَقُولُ:" بَيْنَمَا نَحْنُ جُلُوسٌ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ، دَخَلَ رَجُلٌ عَلَى جَمَلٍ فَأَنَاخَهُ فِي الْمَسْجِدِ، ثُمَّ عَقَلَهُ، ثُمَّ قَالَ لَهُمْ: أَيُّكُمْ مُحَمَّدٌ؟ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَّكِئٌ بَيْنَ ظَهْرَانَيْهِمْ، فَقُلْنَا: هَذَا الرَّجُلُ الْأَبْيَضُ الْمُتَّكِئُ، فَقَالَ لَهُ الرَّجُلُ: يَا ابْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَدْ أَجَبْتُكَ، فَقَالَ الرَّجُلُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنِّي سَائِلُكَ، فَمُشَدِّدٌ عَلَيْكَ فِي الْمَسْأَلَةِ فَلَا تَجِدْ عَلَيَّ فِي نَفْسِكَ، فَقَالَ: سَلْ عَمَّا بَدَا لَكَ، فَقَالَ: أَسْأَلُكَ بِرَبِّكَ وَرَبِّ مَنْ قَبْلَكَ، آللَّهُ أَرْسَلَكَ إِلَى النَّاسِ كُلِّهِمْ؟ فَقَالَ: اللَّهُمَّ نَعَمْ، قَالَ: أَنْشُدُكَ بِاللَّهِ، آللَّهُ أَمَرَكَ أَنْ نُصَلِّيَ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسَ فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ؟ قَالَ: اللَّهُمَّ نَعَمْ، قَالَ: أَنْشُدُكَ بِاللَّهِ، آللَّهُ أَمَرَكَ أَنْ نَصُومَ هَذَا الشَّهْرَ مِنَ السَّنَةِ، قَالَ: اللَّهُمَّ نَعَمْ، قَالَ: أَنْشُدُكَ بِاللَّهِ، آللَّهُ أَمَرَكَ أَنْ تَأْخُذَ هَذِهِ الصَّدَقَةَ مِنْ أَغْنِيَائِنَا فَتَقْسِمَهَا عَلَى فُقَرَائِنَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اللَّهُمَّ نَعَمْ، فَقَالَ الرَّجُلُ: آمَنْتُ بِمَا جِئْتَ بِهِ، وَأَنَا رَسُولُ مَنْ وَرَائِي مِنْ قَوْمِي، وَأَنَا ضِمَامُ بْنُ ثَعْلَبَةَ أَخُو بَنِي سَعْدِ بْنِ بَكْرٍ"، وَرَوَاهُ مُوسَى، وَعَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَذَا.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، انہوں نے سعید مقبری سے، انہوں نے شریک بن عبداللہ بن ابی نمر سے، انہوں نے انس بن مالک سے سنا کہ ایک بار ہم مسجد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میں ایک شخص اونٹ پر سوار ہو کر آیا اور اونٹ کو مسجد میں بٹھا کر باندھ دیا۔ پھر پوچھنے لگا (بھائیو) تم لوگوں میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کون سے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت لوگوں میں تکیہ لگائے بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم نے کہا () محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) یہ سفید رنگ والے بزرگ ہیں جو تکیہ لگائے ہوئے تشریف فرما ہیں۔ تب وہ آپ سے مخاطب ہوا کہ اے عبدالمطلب کے فرزند! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ کہو میں آپ کی بات سن رہا ہوں۔ وہ بولا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ دینی باتیں دریافت کرنا چاہتا ہوں اور ذرا سختی سے بھی پوچھوں گا تو آپ اپنے دل میں برا نہ مانئے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں جو تمہارا دل چاہے پوچھو۔ تب اس نے کہا کہ میں آپ کو آپ کے رب اور اگلے لوگوں کے رب تبارک وتعالیٰ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا آپ کو اللہ نے دنیا کے سب لوگوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں یا میرے اللہ! پھر اس نے کہا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رات دن میں پانچ نمازیں پڑھنے کا حکم فرمایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں یا میرے اللہ! پھر کہنے لگا میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا اللہ نے آپ کو یہ حکم دیا ہے کہ سال بھر میں اس مہینہ رمضان کے روزے رکھو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں یا میرے اللہ! پھر کہنے لگا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا اللہ نے آپ کو یہ حکم دیا ہے کہ آپ ہم میں سے جو مالدار لوگ ہیں ان سے زکوٰۃ وصول کر کے ہمارے محتاجوں میں بانٹ دیا کریں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں یا میرے اللہ! تب وہ شخص کہنے لگا جو حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے پاس سے لائے ہیں، میں ان پر ایمان لایا اور میں اپنی قوم کے لوگوں کا جو یہاں نہیں آئے ہیں بھیجا ہوا (تحقیق حال کے لیے) آیا ہوں۔ میرا نام ضمام بن ثعلبہ ہے، میں بنی سعد بن بکر کے خاندان سے ہوں۔ اس حدیث کو (لیث کی طرح) موسیٰ اور علی بن عبدالحمید نے سلیمان سے روایت کیا، انہوں نے ثابت سے، انہوں نے انس سے، انہوں نے یہی مضمون نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 63  
´روایت حدیث کا ایک طریقہ شاگرد استاد کو پڑھ کر سنائے`
«. . . أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِك، يَقُولُ:" بَيْنَمَا نَحْنُ جُلُوسٌ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ . . .»
. . . انس بن مالک سے سنا کہ ایک بار ہم مسجد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میں ایک شخص اونٹ پر سوار ہو کر آیا اور اونٹ کو مسجد میں بٹھا کر باندھ دیا۔ پھر پوچھنے لگا (بھائیو) تم لوگوں میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کون سے ہیں . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 63]

تشریح:
مسلم کی روایت میں حج کا بھی ذکر ہے۔ مسند احمد میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں یوں ہے «فاناخ بعيره على باب المسجد» یعنی اس نے اپنا اونٹ مسجد کے دروازے پر باندھ دیا تھا۔ اس نے بے تکلفی سے سوالات کئے اور آپ بھی بے تکلفی سے جواب دیتے رہے اور لفظ «مبارك اللهم نعم» کا استعمال فرماتے رہے۔ «اللهم» تمام اسمائے حسنیٰ کے قائم مقام ہے، اس لیے گویا آپ نے جواب کے وقت اسمائے حسنیٰ کو شامل فرما لیا۔ یہ عربوں کے محاورے کے مطابق بھی تھا کہ وہ وثوق کامل کے مقام پر اللہ کا نام بطور قسم استعمال کرتے تھے۔ ضمام کا آنا 9ھ کی بات ہے جیسا کہ محمد بن اسحاق اور ابوعبیدہ وغیرہ کی تحقیق ہے، اس کی تائید طبرانی کی روایت سے ہوتی ہے جس کے راوی ابن عباس ہیں اور ظاہر ہے کہ وہ فتح مکہ کے بعد تشریف لائے تھے۔

حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ عرض و قرات کا طریقہ بھی معتبر ہے جیسا کہ ضمام نے بہت سی دینی باتوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا اور آپ تصدیق فرماتے رہے۔ پھر ضمام اپنی قوم کے ہاں گئے اور انہوں نے ان کا اعتبار کیا اور ایمان لائے۔

حاکم نے اس روایت سے عالی سند کے حصول کی فضیلت پر استدلال کیا ہے۔ کیونکہ ضمام نے اپنے ہاں آپ کے قاصد کے ذریعہ یہ ساری باتیں معلوم کر لی تھیں لیکن پھر خود حاضر ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بالمشافہ ساری باتوں کو معلوم کیا۔ لہٰذا اگر کسی کے پاس کوئی روایت چند واسطوں سے ہو اور کسی شیخ کی اجازت سے ان واسطوں میں کمی آ سکتی ہو تو ملاقات کر کے عالی سند حاصل کرنا بہرحال بڑی فضیلت کی چیز ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 63   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 63  
63. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک مرتبہ ہم مسجد میں نبیﷺ کے ساتھ بیٹھے تھے کہ ایک اونٹ سوار آیا اور اپنے اونٹ کو مسجد میں بٹھا کر باندھ دیا، پھر پوچھنے لگا: تم میں محمد (ﷺ) کون ہیں؟ نبی ﷺ اس وقت صحابہؓ میں تکیہ لگائے بیٹھے تھے۔ ہم نے کہا: یہ سفید رنگ والے، تکیہ لگائے بیٹھے ہیں۔ وہ آپ سے کہنے لگا: اے فرزند عبدالمطلب! نبیﷺ نے فرمایا: (پوچھ) میں تجھے جواب دیتا ہوں۔ اس نے نبیﷺ سے کہا: میں آپ سے کچھ دریافت کرنے والا ہوں اور اس میں سختی کروں گا، آپ دل میں مجھ پر ناراض نہ ہوں۔ آپ نے فرمایا: (کوئی بات نہیں) جو چاہے پوچھ! اس نے پوچھا: میں آپ کو آپ کے پروردگار اور آپ سے پہلے لوگوں کے مالک کی قسم دے کر پوچھتا ہوں: کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام انسانوں کی طرف مبعوث کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں، اللہ گواہ ہے۔ پھر اس نے پوچھا: میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:63]
حدیث حاشیہ:
صحیح مسلم کی روایت میں حج کا بھی ذکر ہے۔
مسنداحمد میں حضرت ابن عباس ؓ کی روایت میں یوں ہے "فأناخ بعیره علی باب المسجد" یعنی اس نے اپنا اونٹ مسجد کے دروازے پر باندھ دیا تھا۔
اس نے بے تکلفی سے سوالات کئے اور آپ بھی بے تکلفی سے جواب دیتے رہے اور لفظ مبارک اللهم نعم کا استعمال فرماتے رہے۔
اللهم تمام اسمائے حسنیٰ کے قائم مقام ہے، اس لیے گویا آپ نے جواب کے وقت پورے اسمائے حسنی کو شامل فرما لیا یہ عربوں کے محاورے کے مطابق بھی تھا کہ وہ وثوق کامل کے مقام پر اللہ کا نام بطور قسم استعمال کرتے تھے۔
ضمام کا آنا 9ھ کی بات ہے جیسا کہ محمد بن اسحاق اور ابوعبیدہ وغیرہ کی تحقیق ہے، اس کی تائید طبرانی کی روایت سے ہوتی ہے جس کے راوی ابن عباس ہیں اور ظاہر ہے کہ وہ فتح مکہ کے بعد تشریف لائے تھے۔
حضرت امام بخاری  کا مقصد یہ ہے کہ عرض وقرات کا طریقہ بھی معتبرہے جیسا کہ ضمام نے بہت سی دینی باتوں کو آپ ﷺ کے سامنے پیش کیا اور آپ تصدیق فرماتے رہے۔
پھر ضمام اپنی قوم کے ہاں گئے اور انھوں نے ان کا اعتبار کیا اور ایمان لائے۔
حاکم نے اس روایت سے عالی سند کے حصول کی فضیلت پر استدلال کیا ہے۔
کیونکہ ضمام نے اپنے ہاں آپ کے قاصد کے ذریعہ یہ ساری باتیں معلوم کرلی تھیں لیکن پھر خودحاضر ہوکر آپ ﷺ سے بالمشافہ ساری باتوں کو معلوم کیا۔
لہٰذا اگرکسی کے پاس کوئی روایت چند واسطوں سے ہو اور کسی شیخ کی اجازت سے ان واسطوں میں کمی آسکتی ہو توملاقات کرکے عالی سند حاصل کرنا بہرحال بڑی فضیلت کی چیز ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 63   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 619  
´زکاۃ ادا کرنے سے اپنے اوپر عائد فریضہ کے ادا ہو جانے کا بیان۔`
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگوں کی خواہش ہوتی تھی کہ کوئی عقلمند اعرابی (دیہاتی) آئے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھے اور ہم آپ کے پاس ہوں ۱؎ ہم آپ کے پاس تھے کہ اسی دوران آپ کے پاس ایک اعرابی آیا ۲؎ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دو زانو ہو کر بیٹھ گیا۔ اور پوچھا: اے محمد! آپ کا قاصد ہمارے پاس آیا اور اس نے ہمیں بتایا کہ آپ کہتے ہیں کہ آپ کو اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے (کیا یہ صحیح ہے؟)۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، یہ صحیح ہے، اس نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آسمان۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الزكاة/حدیث: 619]
اردو حاشہ:
1؎:
کیونکہ ہمیں سورہ مائدہ میں نبی اکرم ﷺ سے سوال کرنے سے روک دیا گیا تھا،
اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ کوئی ایسا چالاک اعرابی آئے جسے اس ممانعت کاعلم نہ ہو اور وہ آ کر آپ سے سوال کرے۔

2؎:
اس اعرابی کا نام ضمام بن ثعلبہ تھا۔

3؎:
اس اعتقاد کے ساتھ کہ یہ فرض ہے،
مسلم کی روایت میں ((وَالَّذِى بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لاَ أَزِيدُ عَلَيْهِنَّ وَلاَ أَنْقُصُ)) کے الفاظ آئے ہیں۔

4؎:
یعنی سماع من لفظ الشیخ کی طرح القراء ۃ علی الشیخ (استاذ کے پاس شاگرد کا پڑھنا) بھی جائز ہے،
مؤلف نے اس کے ذریعہ اہل عراق کے ان متشددین کی تردید کی ہے جو یہ کہتے تھے کہ قراء ۃ علی الشیخ جائز نہیں،
صحیح یہ ہے کہ دونوں جائز ہیں البتہ اخذ حدیث کے طریقوں میں سب سے اعلیٰ طریقہ سماع من لفظ الشیخ (استاذکی زبان سے سننے) کا ہے،
اس طریقے میں استاذ اپنی مرویات اپنے حافظہ سے یا اپنی کتاب سے خود روایت کرتا ہے اور طلبہ سنتے ہیں اور شاگرد اسے روایت کرتے وقت سمعت،
سمعنا،
حدثنا،
حدثني،
أخبرنا،
أخبرني،
أنبأنا،
أنبأني کے صیغے استعمال کرتا ہے،
اس کے بر خلاف القراء ۃ علی الشیخ (استاذ پر پڑھنے) کے طریقے میں شاگرد شیخ کو اپنے حافظہ سے یا کتاب سے پڑھ کر سناتا ہے اس کا دوسرا نام عرض بھی ہے اس صورت میں شاگرد قرأت على فلان يا قري على فلان وأنا أسمع،
يا حدثنا فلان قرائة عليه کہہ کر روایت کرتا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 619   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:63  
63. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک مرتبہ ہم مسجد میں نبیﷺ کے ساتھ بیٹھے تھے کہ ایک اونٹ سوار آیا اور اپنے اونٹ کو مسجد میں بٹھا کر باندھ دیا، پھر پوچھنے لگا: تم میں محمد (ﷺ) کون ہیں؟ نبی ﷺ اس وقت صحابہؓ میں تکیہ لگائے بیٹھے تھے۔ ہم نے کہا: یہ سفید رنگ والے، تکیہ لگائے بیٹھے ہیں۔ وہ آپ سے کہنے لگا: اے فرزند عبدالمطلب! نبیﷺ نے فرمایا: (پوچھ) میں تجھے جواب دیتا ہوں۔ اس نے نبیﷺ سے کہا: میں آپ سے کچھ دریافت کرنے والا ہوں اور اس میں سختی کروں گا، آپ دل میں مجھ پر ناراض نہ ہوں۔ آپ نے فرمایا: (کوئی بات نہیں) جو چاہے پوچھ! اس نے پوچھا: میں آپ کو آپ کے پروردگار اور آپ سے پہلے لوگوں کے مالک کی قسم دے کر پوچھتا ہوں: کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام انسانوں کی طرف مبعوث کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں، اللہ گواہ ہے۔ پھر اس نے پوچھا: میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:63]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث میں حج کا ذکر نہیں ہے کیونکہ روایت میں اختصار ہے۔
صحیح مسلم کی روایت میں حج کا ذکر بایں الفاظ ہوا ہے کہ ہم میں سے ہر شخص پرحج فرض ہے جوزادسفر کی استطاعت رکھتا ہو۔
(صحیح مسلم، الایمان، حدیث: 102(12)
نیز حضرت ضمام کی آمد 9ہجری میں ہوئی تو اس وقت حج فرض ہوچکا تھا کیونکہ ان کا تعلق بنوسعد سے ہے جو قبیلہ ہوازن کا ایک بطن(حصہ)
ہے اور قبیلہ ہوازن غزوہ حنین کے بعد مسلمان ہوا تھا۔
(فتح الباری: 201/1)

اس حدیث سے خبر واحد کے حجت ہونے کا بھی ثبوت ملتا ہے کیونکہ حضرت ضمام بن ثعلبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی آپ بیتی قوم کے سامنے بیان کی تو انھوں نے اس کااعتبار کیا اور مسلمان ہوگئے،نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ اگردادا کی شہرت زیادہ ہوتواس کی طرف نسبت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
(فتح الباری: 202/1)

امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت سے عالی سند کے افضل ہونے پر استدلال کیا ہے،نیز اس کا حصول ایک بہترین مشغلہ ہے کیونکہ حضرت ضمام نے اپنی آمد سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد سے یہ تمام باتیں معلوم کررکھی تھیں لیکن خود حاضر ہوکر دریافت کیا۔
اس سے معلوم ہواکہ اگرکسی کے پاس کوئی روایت چند واسطوں سے ہے اور کسی دوسرے شیخ سے روایت لینے سے ان واسطوں میں کمی آسکتی ہے تو ملاقات کرکے عالی سند حاصل کرلینی چاہیے(فتح الباری: 201/1)
۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ غرض وقراءت کا طریقہ بھی معتبر ہے،اس میں کوئی خامی نہیں کہ اس کا اعتبار نہ کیاجائے جیساکہ حضرت ضمام بن ثعلبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بہت سی دینی باتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیں اور آپ نے ان کی تصدیق وتصویب فرمائی،پھرحضرت ضمام بن ثعلبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی قوم کے پاس گئے انھوں نے ان کا اعتبار کیا اور سب کے سب ایمان لے آئے۔
نوٹ:
۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے علامہ ابومحمد بن صغانی کے حوالے سے لکھا ہے کہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نسخہ بغداد یہ میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ایک حدیث درج ہے،دیگر کسی نسخے میں اس حدیث کا وجود نہیں ملتا،لہذا ہم نے بھی اسے قلم زد کردیا ہے۔
(فتح الباری: 203/1)
یاد رہ کہ ہمارے ہندی مطبوعہ نسخوں میں موجود ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 63