صحيح البخاري
كِتَاب الِاعْتِصَامِ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ -- کتاب: اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مضبوطی سے تھامے رہنا
6. بَابُ إِثْمِ مَنْ آوَى مُحْدِثًا:
باب: جو شخص بدعتی کو ٹھکانا دے، اس کو اپنے پاس ٹھہرائے۔
رَوَاهُ عَلِيٌّ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
‏‏‏‏ اس کا بیان اس بات میں علی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔
حدیث نمبر: 7306
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ، قَالَ: قُلْتُ لِأَنَسٍ: أَحَرَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ؟، قَالَ: نَعَمْ، مَا بَيْنَ كَذَا إِلَى كَذَا لَا يُقْطَعُ شَجَرُهَا مَنْ أَحْدَثَ فِيهَا حَدَثًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ"، قَالَ عَاصِمٌ: فَأَخْبَرَنِي مُوسَى بْنُ أَنَسٍ، أَنَّهُ قَالَ: أَوْ آوَى مُحْدِثًا.
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد نے بیان کیا، کہا ہم سے عاصم نے بیان کیا، کہا کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کو حرمت والا شہر قرار دیا ہے؟ فرمایا کہ ہاں فلاں جگہ عیر سے فلاں جگہ (ثور) تک۔ اس علاقہ کا درخت نہیں کاٹا جائے گا جس نے اس حدود میں کوئی نئی بات پیدا کی، اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام انسانوں کی لعنت ہے۔ عاصم نے بیان کیا کہ پھر مجھے موسیٰ بن انس نے خبر دی کہ انس رضی اللہ عنہ نے یہ بھی بیان کیا تھا کہ یا کسی نے دین میں بدعت پیدا کرنے والے کو پناہ دی۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7306  
7306. سیدنا عاصم سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے سیدنا انس ؓ سے پوچھا: کیا رسول اللہ ﷺ نے مدینہ طیبہ کو حرمت والا شہر قرار دیا ہے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں۔ (آپ نے فرمایا:) فلاں پہاڑی سے فلاں پہاڑی تک حرم ہے۔ اس علاقے کا درخت نہیں کاٹا جائے گا۔ جس نے اس کی حدود میں کسی بدعت کو رواج دیا تو اس پر اللہ تعالیٰ کی فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔ (راوی حدیث) عاصم نے کہا: مجھے موسیٰ بن انس نے بتایا کہ سیدنا انس ؓ نے یہ بھی بیان کیا تھا: یا کسی نے دین میں بدعت پیدا کرنے والے کو اپنے ہاں ٹھکانا دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7306]
حدیث حاشیہ:
معاذاللہ بدعت سے آنحضڑت صلی اللہ علیہ وسلم کو کتنی نفرت تھی کہ فرمایا جو کوئی بدعتی کو اپنے پاس اتارے جگہ دے‘ اس پر بھی لعنت‘ مسلمانو! اپنے پیغمبر صاحب کے فرمانے پر غور کرو بدعت سے اور بدعتیوں کی صحبت سے بچتے رہو اور ہر وقت سنت نبوی اور سنت پر چلنے والوں کے عاشق رہو۔
اگر کسی کام کے بدعت حسنہ یا سیئہ ہونے میں اختلاف ہو جیسے مجلس میلاد یا قیام وغیرہ تو اس سے بھی بچنا ہی افضل ہوگا‘ اس لیے کہ اس کا کرنا کچھ فرض نہیں ہے اور نہ کرنے میں احتیاط ہے۔
مسلمانو! تم بدعت کی طرف جاتے ہو یہ تمہاری نادانی ہے اگر آخرت کا ثواب چاہتے ہو تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ادنیٰ سنت پر عمل کر لو جیسے فجر کی سنت کے بعد ذرا سا لیٹ جانا اس میں ہزار مولود سے زیادہ تم کوثواب ملے گا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7306   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7306  
7306. سیدنا عاصم سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے سیدنا انس ؓ سے پوچھا: کیا رسول اللہ ﷺ نے مدینہ طیبہ کو حرمت والا شہر قرار دیا ہے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں۔ (آپ نے فرمایا:) فلاں پہاڑی سے فلاں پہاڑی تک حرم ہے۔ اس علاقے کا درخت نہیں کاٹا جائے گا۔ جس نے اس کی حدود میں کسی بدعت کو رواج دیا تو اس پر اللہ تعالیٰ کی فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔ (راوی حدیث) عاصم نے کہا: مجھے موسیٰ بن انس نے بتایا کہ سیدنا انس ؓ نے یہ بھی بیان کیا تھا: یا کسی نے دین میں بدعت پیدا کرنے والے کو اپنے ہاں ٹھکانا دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7306]
حدیث حاشیہ:

اگرچہ اہل معاصی کو اپنے ہاں جگہ دینا ان کے گناہ میں شرکت کرنا ہے کیونکہ جو انسان کسی کے عمل سے راضی ہوتا ہے وہ انہی سے شمار ہوتا ہے لیکن مدینہ طیبہ کو اس وعید کے ساتھ خاص کیا گیا کیونکہ یہ شہر وحی اترنے کی جگہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وطن مالوف ہے۔
یہیں سے دین پھیلاہے۔
اس لیے مدینہ طیبہ کو دوسرے تمام شہروں سے برتری حاصل ہے۔

اس حدیث سے پتا چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بدعت سے کس قدر نفرت تھی۔
!آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جو کسی بدعتی کو اپنے ہاں جگہ دیتا ہے اس پر لعنت ہے۔
اس لیے ہمیں بدعت اور اہل بدعت سے دور ہی رہنا چاہیے۔
واللہ المستعان۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7306