صحيح البخاري
كِتَاب الِاعْتِصَامِ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ -- کتاب: اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مضبوطی سے تھامے رہنا
11. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا} :
باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ الانعام میں) یوں فرمانا ”یا وہ تمہارے کئی فرقے کر دے“۔
حدیث نمبر: 7313
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ عَمْرٌو، سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ:" لَمَّا نَزَلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِكُمْ سورة الأنعام آية 65، قَالَ: أَعُوذُ بِوَجْهِكَ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ، قَالَ: أَعُوذُ بِوَجْهِكَ، فَلَمَّا نَزَلَتْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَيُذِيقَ بَعْضَكُمْ بَأْسَ بَعْضٍ سورة الأنعام آية 65، قَالَ: هَاتَانِ أَهْوَنُ أَوْ أَيْسَرُ".
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے بیان کیا کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت نازل ہوئی «قل هو القادر على أن يبعث عليكم عذابا من فوقكم‏» کہ کہو کہ وہ اس پر قادر ہے کہ تم پر تمہارے اوپر سے عذاب بھیجے۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ میں تیرے با عظمت و بزرگ منہ کی پناہ مانگتا ہوں۔ «أو من تحت أرجلكم‏» یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے (عذاب بھیجے) تو اس پر پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ میں تیرے مبارک منہ کی پناہ مانگتا ہوں، پھر جب یہ آیت نازل ہوئی «أو يلبسكم شيعا ويذيق بعضكم بأس بعض‏» کہ یا تمہیں فرقوں میں تقسیم کر دے اور تم میں سے بعض کو بعض کا خوف چکھائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ دونوں آسان و سہل ہیں۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3065  
´سورۃ الانعام سے بعض آیات کی تفسیر۔`
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ جب آیت «قل هو القادر على أن يبعث عليكم عذابا من فوقكم أو من تحت أرجلكم» کہہ دیجئیے، وہ (اللہ) قادر ہے اس بات پر کہ وہ تم پر کوئی عذاب بھیج دے اوپر سے یا نیچے سے (الانعام: ۶۵)، نازل ہوئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تیری ذات کی پناہ لیتا ہوں پھر جب آگے «أو يلبسكم شيعا ويذيق بعضكم بأس بعض» یا تم کو مختلف فریق بنا کر ایک کو دوسرے کی طاقت کا مزہ چکھا دے (الانعام: ۶۵) کا ٹکڑا نازل ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ دونوں ہی باتیں (اللہ کے لیے) آسان ہیں۔‏‏۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3065]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
کہہ دیجئے،
وہ (اللہ) قادر ہے اس بات پر کہ وہ تم پر کوئی عذاب بھیج دے اوپر سے یا نیچے سے (الانعام: 65)

2؎:
یا تم کو مختلف فریق بنا کر ایک کو دوسرے کی طاقت کا مزہ چکھا دے (الانعام: 65)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3065   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7313  
7313. سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہﷺ پر جب یہ آیت نازل ہوئی: کہہ دیجیے وہی قادر ہے کہ تم پر تمہارے اوپر سے عذاب بھیج دے۔ تو آپ ﷺ نے دعا کی: اے اللہ! میں تیرے باعظمت چہرے کی پناہ میں آتا ہوں۔ یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے (عذاب آجائے) تو اس مرتبہ، پھر آپ نے دعا کی: اے اللہ! میں تیرے مبارک چہرے کی پناہ مانگتا ہوں۔ پھر جب یہ الفاظ نازل ہوئے: یا تمہیں گروہوں میں تقسیم کردے اور تمہارے بعض کو بعض کی لڑائی (کا مزہ) چکھائے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہ دونوں آسان اورسہل ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7313]
حدیث حاشیہ:
اوپر سے پتھروں یا بارش کا عذاب مراد ہے۔
نیچے سے زلزلہ اور زمین میں دھنس جانا مراد ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7313   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7313  
7313. سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہﷺ پر جب یہ آیت نازل ہوئی: کہہ دیجیے وہی قادر ہے کہ تم پر تمہارے اوپر سے عذاب بھیج دے۔ تو آپ ﷺ نے دعا کی: اے اللہ! میں تیرے باعظمت چہرے کی پناہ میں آتا ہوں۔ یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے (عذاب آجائے) تو اس مرتبہ، پھر آپ نے دعا کی: اے اللہ! میں تیرے مبارک چہرے کی پناہ مانگتا ہوں۔ پھر جب یہ الفاظ نازل ہوئے: یا تمہیں گروہوں میں تقسیم کردے اور تمہارے بعض کو بعض کی لڑائی (کا مزہ) چکھائے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہ دونوں آسان اورسہل ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7313]
حدیث حاشیہ:

حدیث میں مذکورہ آیت کریمہ میں عذاب کی تین قسموں کا ذکر ہے۔
حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
میں نے اللہ تعالیٰ سے تین دعائیں کیں، وہ قبول ہوئیں اور ایک (دعا کرنے)
سے مجھے روک دیا گیا۔
میں نے اپنے رب سے دعا کی کہ قحط عام کےذریعے سے میری اُمت ہلاک نہ ہو، اللہ تعالیٰ نے اسے قبول کرلیا۔
میں نے دعا کی:
میری اُمت غرق کے ذریعے سے ہلاک نہ ہو۔
اللہ تعالیٰ نے اسے بھی قبول کر لیا۔
پھر میں نے دعا کی کہ آپس میں ان کی لڑائی اور اختلاف نہ ہو تو اللہ تعالیٰ نے اس سے مجھے روک دیا۔
(صحیح مسلم، الفتن، حدیث: 7260(2890)
مسند احمد میں یہ الفاظ ہیں:
میری اُمت گمراہی پر اتفاق نہ کرے۔
(مسند أحمد: 396/6)

اس حدیث کے مطابق اس اُمت کے مختلف گروہ اور فرقے ہوں گے جو آپس میں جنگ وجدال کرتے رہیں گے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دونوں قسم کے عذاب کے مقابلے میں آسان اور سہل کہا ہے کیونکہ اس میں اہل ایمان کے لیے کفارہ ہے۔
بہرحال اُمت کے لیے نجات کا راستہ یہی ہے کہ وہ کتاب وسنت کے مطابق فیصلے کرے اور زندگی گزارنے کے لیے اسے محورومرکز قرار دے۔
اگر ہم نے دائیں بائیں دیکھا تو التراق واختلاف ہمارا مقدرہوگا، پھر ہم باہمی لڑائی جھگڑے میں مصروف رہیں گے۔
واللہ المستعان۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7313