صحيح البخاري
كِتَاب الِاعْتِصَامِ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ -- کتاب: اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مضبوطی سے تھامے رہنا
12. بَابُ مَنْ شَبَّهَ أَصْلاً مَعْلُومًا بِأَصْلٍ مُبَيَّنٍ قَدْ بَيَّنَ اللَّهُ حُكْمَهُمَا، لِيُفْهِمَ السَّائِلَ:
باب: ایک امر معلوم کو دوسرے امر واضح سے تشبیہ دینا جس کا حکم اللہ نے بیان کر دیا ہے تاکہ پوچھنے والا سمجھ جائے۔
حدیث نمبر: 7314
حَدَّثَنَا أَصْبَغُ بْنُ الْفَرَجِ، حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،" أَنَّ أَعْرَابِيًّا أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ امْرَأَتِي وَلَدَتْ غُلَامًا أَسْوَدَ وَإِنِّي أَنْكَرْتُهُ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَلْ لَكَ مِنْ إِبِلٍ؟، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَمَا أَلْوَانُهَا؟، قَالَ: حُمْرٌ، قَالَ: هَلْ فِيهَا مِنْ أَوْرَقَ؟، قَالَ: إِنَّ فِيهَا لَوُرْقًا، قَالَ: فَأَنَّى تُرَى ذَلِكَ جَاءَهَا، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، عِرْقٌ نَزَعَهَا، قَالَ: وَلَعَلَّ هَذَا عِرْقٌ نَزَعَهُ وَلَمْ يُرَخِّصْ لَهُ فِي الِانْتِفَاءِ مِنْهُ".
ہم سے اصبغ بن الفرج نے بیان کیا، کہا مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، ان سے یونس بن یزید نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ ایک اعرابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ میری بیوی کے یہاں لڑکا پیدا ہوا ہے جس کو میں اپنا نہیں سمجھتا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ تمہارے پاس اونٹ ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ہیں۔ دریافت کیا کہ ان کے رنگ کیسے ہیں؟ کہا کہ سرخ ہیں۔ پوچھا کہ ان میں کوئی خاکی بھی ہے؟ انہوں نے کہا جی ہاں ان میں خاکی بھی ہیں۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ پھر کس طرح تم سمجھتے ہو کہ اس رنگ کا پیدا ہوا؟ انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! کسی رگ نے یہ رنگ کھینچ لیا ہو گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ممکن ہے اس بچے کا رنگ بھی کسی رگ نے کھینچ لیا ہو؟ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بچے کے انکار کرنے کی اجازت نہیں دی۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2002  
´آدمی کا اپنے لڑکے میں شک کرنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قبیلہ بنی فزارہ کا ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! میری بیوی نے ایک کالا کلوٹا بچہ جنا ہے! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں؟ اس نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کے رنگ کیا ہیں؟ اس نے کہا: سرخ ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا ان میں کوئی خاکی رنگ کا بھی ہے؟ اس نے کہا: ہاں، ان میں خاکی رنگ کے بھی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان میں خاکی رنگ کہاں سے آیا؟ اس نے کہا: کسی رگ نے یہ ر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 2002]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  باپ اور بیٹے کے رنگ میں فرق اس بات کی دلیل نہیں کہ یہ بیٹا اپنے باپ کی جائز اولاد نہیں۔

(2)
رگ کے زور کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ودھیال یا ننھیال کے کسی بزرگ:
مثلاً:
دادی، دادا، نانی، نانا یا ان کے بزرگوں میں سے کسی کی مشابہت بچے میں آگئی ہے، یعنی ان کے خون کا اثر ہے۔

(3)
  اپنی بیوی پر اس طرح اشارے کنائے سے شک کا اظہار بیوی پر اس الزام میں شمار نہیں ہوتا، جس کے نتیجے میں لعان کی ضرورت پڑتی ہے۔
لعان اس وقت ہوتا ہے جب مرد صاف طور پراپنی بیوی پر بدکاری کا الزام عائد کرے یا یقین کے ساتھ یہ دعویٰ کرے کہ یہ بچہ میرا نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2002   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 944  
´لعان کا بیان`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول! میری بیوی نے کالے رنگ کا بچہ جنا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کیا تمہارے پاس کچھ اونٹ ہیں؟ تو اس نے کہا ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا ان کے رنگ کیا ہیں؟ اس نے کہا سرخ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا ان میں کوئی خاکستری رنگ کا بھی ہے؟ اس نے کہا ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا وہ کہاں سے آ گیا؟ وہ بولا کوئی رگ اسے کھینچ لائی ہو گی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر تیرے اس بیٹے کو بھی کوئی رگ کھینچ لائی ہو گی۔ (بخاری و مسلم) اور مسلم کی ایک روایت میں ہے۔ وہ اس بچے کی نفی کی طرف اشارہ کر رہا تھا اور اس روایت کے آخر میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نفی کی رخصت و اجازت نہ دی۔ «بلوغ المرام/حدیث: 944»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الطلاق، باب إذا عرّض بنفي الولد، حديث:5305، ومسلم، اللعان، حديث:1500.»
تشریح:
1. کالے رنگ نے صحابی کو مغالطے اور اشتباہ میں مبتلا کر دیا کہ ہم میاں بیوی میں سے تو کوئی بھی سیاہ رنگ کا نہیں‘ پھر یہ بچہ اس رنگ کا کہاں سے پیدا ہوگیا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب اس نے عندیہ اور مافی الضمیر ظاہر کیا تو آپ نے اسے ڈانٹ پلائی نہ اس کی بیوی کی صریح الفاظ میں صفائی پیش فرمائی‘ بلکہ عربوں کی ذہنی سطح پر اتر کر آپ نے سمجھایا اور اس کے مغالطے کی تصحیح کردی کہ سفید رنگ کے زوجین (میاں بیوی) کے ہاں سیاہ رنگ بچے کی پیدائش بچے کی ماں کی بدکاری و بدچلنی پر دلالت نہیں کرتی۔
یہ خاندانی اثرات ہوتے ہیں جو کبھی بہت دور نسل میں نمایاں ہو جاتے ہیں۔
اس سے بچے کے نسب پر درحقیقت کوئی عیب اور نقص واقع نہیں ہوتا۔
2. اس سے معلوم ہوا کہ سائل کو جواب حکمت سے اور اس کی ذہنی سطح کو ملحوظ رکھ کر دینا چاہیے۔
فلسفیانہ جواب کی بجائے عام روزمرہ کی مثالوں سے جواب دینا تفہیم مدعا کے لیے زیادہ مفید اور کارگر ہے۔
3.اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس چیز کی حقیقت کا علم نہ ہو اسے صاحب علم سے دریافت کر لینا انسان کوبہت بڑے فتنے سے محفوظ رکھتا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 944   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2128  
´باپ اپنے بچے کا انکار کر دے تو اس کے حکم کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ بنی فزارہ کے ایک آدمی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا: اللہ کے رسول! میری بیوی سے ایک کالا بچہ پیدا ہوا ہے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: تمہارے پاس اونٹ ہیں؟ اس نے کہا: ہاں، آپ نے پوچھا: وہ کس رنگ کے ہیں؟ اس نے کہا: سرخ۔ آپ نے پوچھا: کیا اس میں کوئی مٹمیلے رنگ کا بھی ہے؟ اس نے کہا: ہاں، اس میں ایک خاکستری رنگ کا بھی ہے۔ آپ نے پوچھا: وہ کہاں سے آیا؟ اس نے کہا: شاید وہ کوئی خاندانی رگ کھینچ لایا ہو گا ۱؎، آپ نے فرمایا: اس لڑکے نے بھی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الولاء والهبة/حدیث: 2128]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی اس کے باپ دادا میں سے کوئی اس رنگ کا ہوگا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2128   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2260  
´جب بچے کے متعلق شک ہو تو کیا حکم ہے؟`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بنی فزارہ کا ایک شخص آیا اور کہنے لگا: میری عورت نے ایک کالا بچہ جنا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں؟ اس نے جواب دیا: ہاں، پوچھا: کون سے رنگ کے ہیں؟ جواب دیا: سرخ ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا کوئی خاکستری بھی ہے؟ جواب دیا: ہاں، خاکی رنگ کا بھی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: پھر یہ کہاں سے آ گیا؟، بولا: شاید کسی رگ نے یہ رنگ کھینچ لیا ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہاں بھی ہو سکتا ہے (تمہارے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2260]
فوائد ومسائل:

محض رنگ وروپ کی بناء پر اپنے بچے سے انکار کردینا حرام ہے۔
ہاں کوئی اور واضح دلیل ہو تو اور بات ہے۔
مثلاًشوہر کے غائب رہنے کی صورت میں حمل اور ولادت ہو یا بعد از نکاح چھ ماہ سے کم میں ولادت ہو وغیرہ۔
اس حدیث میں مذکور شخص کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ اس کا نام ضمضم بن قتادہ تھا۔
(کتاب الغوا مض عبد الغنی بن سعید)

قاضی مفتی اور داعی حضرات کو چاہیے کہ شرعی مسائل سے حسب ضرورت واقعاتی مثالوں سے واضح فرمایا کریں۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2260   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7314  
7314. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: میری بیوی کے ہاں سیاہ لڑکا پیدا ہوا ہے۔ میں نے اس کا انکار کردیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سے پوچھا: کیا تیرے پاس اونٹ ہیں؟ اس نے کہا: جی ہاں! آپ نے پوچھا: ان کے رنگ کیسےہیں؟ ا س نے کہا وہ سرخ رنگ کے ہیں آپ نے فرمایا: ان کوئی بھورے رنگ کا بھی ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں،ان میں بھورے رنگ کے بھی ہیں۔ آپ نے فرمایا: تیرا کیا خیال ہے وہ رنگ کدھر سے آیا ہے؟ اس نے کہا: اللہ کے رسول! کسی رگ نے یہ رنگ کھینچ لیا ہوگا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ممکن ہے اس (بچے) کا رنگ بھی کسی رگ نے کھینچ لیا ہو۔ آپ ﷺ نے اسے بچے کے انکار کی اجازت نہیں دی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7314]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کو رنگ مختلف ہونے پر قیاس کیا ہے اور اس میں قیاس صحیح کی شرائط کا بھی پتاچلتا ہے کیونکہ اصل، یعنی اونٹوں کا رنگ مختلف ہونا واضح اور بین ہے۔
جس کااعرابی نے انکار نہیں کیا اور اس کی علت بھی نمایاں ہے جس کی خود اعرابی نے نشاندہی کی ہے۔
اس کا مقصود بھی اعرابی کو مطمئن کرنا تھا۔
اس کی فرع بچوں کی رنگت ہے اور حکم اس رنگت کا مختلف ہونا ہے۔
اس کے علاوہ قرآن وحدیث سے حجیت قیاس پر متعدد مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7314