صحيح البخاري
كِتَاب الِاعْتِصَامِ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ -- کتاب: اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مضبوطی سے تھامے رہنا
18. بَابُ قَوْلِهِ تَعَالَى: {وَكَانَ الإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلاً} :
باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ الکہف میں) ارشاد ”اور انسان سب سے زیادہ جھگڑالو ہے“۔
وَقَوْلِهِ تَعَالَى: {وَلاَ تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلاَّ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ}.
‏‏‏‏ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد (سورۃ العنکبوت میں) «ولا تجادلوا أهل الكتاب إلا بالتي هي أحسن‏» اور تم اہل کتاب سے بحث نہ کرو لیکن اس طریقہ سے جو اچھا ہو یعنی نرمی کے ساتھ اللہ کے پیغمبروں اور اس کی کتابوں کا ادب ملحوظ رکھ کر ان سے بحث کرو۔
حدیث نمبر: 7347
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ. ح حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سَلَامٍ، أَخْبَرَنَا عَتَّابُ بْنُ بَشِيرٍ، عَنْ إِسْحَاقَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ، أَنَّ حُسَيْنَ بْنَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" طَرَقَهُ وَفَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَام بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُمْ: أَلَا تُصَلُّونَ؟، فَقَالَ عَلِيٌّ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّمَا أَنْفُسُنَا بِيَدِ اللَّهِ فَإِذَا شَاءَ أَنْ يَبْعَثَنَا بَعَثَنَا، فَانْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ قَالَ لَهُ ذَلِكَ وَلَمْ يَرْجِعْ إِلَيْهِ شَيْئًا، ثُمَّ سَمِعَهُ وَهُوَ مُدْبِرٌ يَضْرِبُ، فَخِذَهُ وَهُوَ يَقُولُ: وَكَانَ الإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلا سورة الكهف آية 54"، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: يُقَالُ مَا أَتَاكَ لَيْلًا فَهُوَ طَارِقٌ، وَيُقَالُ الطَّارِقُ: النَّجْمُ، وَالثَّاقِبُ: الْمُضِيءُ، يُقَالُ: أَثْقِبْ نَارَكَ لِلْمُوقِدِ.
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی (دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ اور مجھ سے محمد بن سلام بیکندی نے بیان کیا، کہا ہم کو عتاب بن بشیر نے خبر دی، انہیں اسحاق ابن ابی راشد نے، انہیں زہری نے، انہیں زین العابدین علی بن حسین رضی اللہ عنہ نے خبر دی اور انہیں ان کے والد حسین بن علی رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ان کے اور فاطمہ بنت رسول اللہ علیم السلام والصلٰوۃ کے گھر ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا کہ تم لوگ تہجد کی نماز نہیں پڑھتے۔ علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہماری جانیں اللہ کے ہاتھ میں ہیں پس جب وہ ہمیں اٹھانا چاہے تو ہم کو اٹھا دے گا۔ جوں ہی میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہا تو آپ پیٹھ موڑ کر واپس جانے لگے اور کوئی جواب نہیں دیا لیکن واپس جاتے ہوئے آپ اپنی ران پر ہاتھ مار رہے تھے اور کہہ رہے تھے «وكان الإنسان أكثر شىء جدلا‏» اور انسان بڑا ہی جھگڑالو ہے اگر کوئی تمہارے پاس رات میں آئے تو «طارق» کہلائے گا اور قرآن میں جو «والطارق» کا لفظ آیا ہے اس سے مراد ستارہ ہے اور «ثاقب» بمعنی چمکتا ہوا۔ عرب لوگ آگ جلانے والے سے کہتے ہیں «ثقب نارك» یعنی آگ روشن کر۔ اس سے لفظ «ثاقب» ہے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7347  
7347. سیدنا علی بن ابی طالب ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہﷺ رات کے وقت ان کے پاس اور سیدہ فاطمہ بنت رسول اللہ ﷺ کے پاس تشریف لے گئے تو ان سے فرمایا: تم (رات کو) نماز کیوں نہیں پڑھتے؟ سیدنا علی بن ابی طالب ؓ کہتے ہیں: میں نے کہا: اللہ کے رسول! ہماری ارواح اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ وہ جب ہمیں اٹھانا چاہتا ہے ہم اٹھتے ہیں جس وقت سیدنا علی بن ابی طالب ؓ نے یہ جواب دیا تو رسول اللہ ﷺ واپس چلے گئے اور انہیں کچھ جواب نہ دیا۔ پھر انہوں نے آپ کو سنا جب آپ اپنی پشت پھیر کر واپس جا رہے تھے اور اپنی ران پر ہاتھ مارتے ہوئے کہہ رہے تھے: انسان تمام چیزوں سے زیادہ جھگڑالو ہے۔ ابو عبداللہ (امام بخاری ؓ) نے کہا: جو رات کے وقت تیرے پاس آئے وہ طارق ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ طارق ستارہ ہے۔ اور ثاقب کے معنی ہیں: روشنی کرنے والا آگ سلگانے والے کو کہا جاتا ہے: آگ روشن کردو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7347]
حدیث حاشیہ:
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ جواب بطریق انکار کے نہیں دیا مگر ان سے نیند کی حالت میں یہ کلام نکل گیا‘ اس میں شک نہیں کہ اگر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانے پر اٹھ کھڑے ہوتے اور نماز پڑھتے تو اور زیادہ افضل ہوتا۔
اگرچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جو کہا وہ بھی درست تھا مگر کسی شخص کا جاگنا اور بیدار کرنا بھی اللہ ہی کا جگانا اور بیدار کرنا ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اس موقع پر کہ کہنا کہ جب اللہ ہم کو جگائے گا تو اٹھیں گے محض مجادلہ اور مکابرہ تھا‘ اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ آیت پڑھتے ہوئے تشریف لے گئے۔
اور تہجد کی نماز کچھ فرض نہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کو مجبور کرتے۔
دوسرے ممکن ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اس کے بعد اٹھے ہوں اور تہجد کی نماز پڑھی ہو۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7347   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7347  
7347. سیدنا علی بن ابی طالب ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہﷺ رات کے وقت ان کے پاس اور سیدہ فاطمہ بنت رسول اللہ ﷺ کے پاس تشریف لے گئے تو ان سے فرمایا: تم (رات کو) نماز کیوں نہیں پڑھتے؟ سیدنا علی بن ابی طالب ؓ کہتے ہیں: میں نے کہا: اللہ کے رسول! ہماری ارواح اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ وہ جب ہمیں اٹھانا چاہتا ہے ہم اٹھتے ہیں جس وقت سیدنا علی بن ابی طالب ؓ نے یہ جواب دیا تو رسول اللہ ﷺ واپس چلے گئے اور انہیں کچھ جواب نہ دیا۔ پھر انہوں نے آپ کو سنا جب آپ اپنی پشت پھیر کر واپس جا رہے تھے اور اپنی ران پر ہاتھ مارتے ہوئے کہہ رہے تھے: انسان تمام چیزوں سے زیادہ جھگڑالو ہے۔ ابو عبداللہ (امام بخاری ؓ) نے کہا: جو رات کے وقت تیرے پاس آئے وہ طارق ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ طارق ستارہ ہے۔ اور ثاقب کے معنی ہیں: روشنی کرنے والا آگ سلگانے والے کو کہا جاتا ہے: آگ روشن کردو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7347]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث کے عنوان کے پہلے جز سے مطابقت ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کی رغبت دلائی کہ اٹھ کر اپنے عزم وارادے سے نماز پڑھیں لیکن حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قضا وقدر کا سہارا لیا جیسا کہ عام طور پر کوئی عمل نہ کرنے کا بہانہ کرتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی بر موقع بہانہ سازی سن کر تعجب کرتے ہوئے واپس ہوگئے، پھر نیند کا بھی غلبہ تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زیادہ سختی اس لیے نہیں کی کہ نماز تہجد فرض نہ تھی۔
اگر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد عمل کرکے نماز پڑھتے تو اچھا تھا۔

اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قول یا فعل سے دفاع کرنا انسان کی فطرت ہے۔
بہرحال حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صرف غلبہ نیند کے باعث ترک قیام سے عذر خواہی کی تھی۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جو انسان نیکی کے کسی کلام میں غفلت کر رہا ہو اسے یاد دلانا مشروع ہے کیونکہ غفلت انسان کی گھٹی میں شامل ہے۔

کتاب الاعتصام سے اس حدیث کا تعلق یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں بہتر یہی تھا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات پر عمل کر کے نماز پڑھنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7347