صحيح البخاري
كِتَاب الِاعْتِصَامِ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ -- کتاب: اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مضبوطی سے تھامے رہنا
25. بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لاَ تَسْأَلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ عَنْ شَيْءٍ»:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ ”اہل کتاب سے دین کی کوئی بات نہ پوچھو“۔
حدیث نمبر: 7361
وَقَالَ أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، سَمِعَ مُعَاوِيَةَ يُحَدِّثُ رَهْطًا مِنْ قُرَيْشٍ بِالْمَدِينَةِ وَذَكَرَ كَعْبَ الْأَحْبَارِ، فَقَالَ: إِنْ كَانَ مِنْ أَصْدَقِ هَؤُلَاءِ الْمُحَدِّثِينَ الَّذِينَ يُحَدِّثُونَ عَنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَإِنْ كُنَّا مَعَ ذَلِكَ لَنَبْلُو عَلَيْهِ الْكَذِبَ.
ابوالیمان امام بخاری رحمہ اللہ کے شیخ نے بیان کیا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں حمید بن عبدالرحمٰن نے خبر دی، انہوں نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے سنا وہ مدینے میں قریش کی ایک جماعت سے حدیث بیان کر رہے تھے۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے کعب احبار کا ذکر کیا اور فرمایا جتنے لوگ اہل کتاب سے احادیث نقل کرتے ہیں ان سب میں کعب احبار بہت سچے تھے اور باوجود اس کے کبھی کبھی ان کی بات جھوٹ نکلتی تھی، یہ مطلب نہیں ہے کہ کعب احبار جھوٹ بولتے تھے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7361  
7361. حمید بن عبدالرحمن سے روایت ہے انہوں نےسیدنا معاویہ ؓ سے سنا جبکہ وہ مدینہ طیبہ میں قریش کی ایک جماعت سے گفتگو کر رہے تھے انہوں نےکعب احبار کا ذکر کیا اور فرمایا: وہ اہل کتاب کے محدثین میں سب سے زیادہ سچے تھے جو اہل کتاب سے روایت کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہم ان کے کلام میں جھوٹ پاتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7361]
حدیث حاشیہ:
کعب احبار رضی اللہ عنہ یہود کے بڑے عالم تھے جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں مسلمان ہو گئے تھے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7361   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7361  
7361. حمید بن عبدالرحمن سے روایت ہے انہوں نےسیدنا معاویہ ؓ سے سنا جبکہ وہ مدینہ طیبہ میں قریش کی ایک جماعت سے گفتگو کر رہے تھے انہوں نےکعب احبار کا ذکر کیا اور فرمایا: وہ اہل کتاب کے محدثین میں سب سے زیادہ سچے تھے جو اہل کتاب سے روایت کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہم ان کے کلام میں جھوٹ پاتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7361]
حدیث حاشیہ:

حضرت کعب احبار اہل کتاب کے علماء اور فضلاء میں سے تھے وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں مسلمان ہوئے فضلاء تابعین میں ان کا شمار ہوتا ہے۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیان کے مطابق کعب احبار اہل کتاب میں سب سے زیادہ سچے تھے لیکن اہل کتاب کے متعلق جب کوئی خبر دیتے تو بسا اوقات خطا کر جاتے تھے چونکہ علمائے یہود نے تورات وغیرہ میں بہت تحریف کی ہےاس لیے وہ تحریف شدہ خبریں دیتے تھے اس لیے ان کی بیان کی ہوئی خبر جھوٹی ہوتی تھی۔
وہ جان بوجھ کر جھوٹ نہیں بولا کرتے تھے۔
ایسے حالات میں اہل کتاب سے پوچھنے کا کیا فائدہ ہے۔

دور حاضر کے بعض روشن خیال مسلمان اس حدیث کو مانتے ہیں جس کی تصدیق فرنگی تہذیب جدید سائنس یا انگریزی طب سے ہو جائے۔
ایسی تصدیق کا کیا فائدہ ہے؟ ایمان کا تقاضا تو یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ بات کو فوراً تسلیم کیا جائے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کی جائے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7361