صحيح البخاري
كِتَاب التَّوْحِيدِ -- کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں
1. بَابُ مَا جَاءَ فِي دُعَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُمَّتَهُ إِلَى تَوْحِيدِ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی امت کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کی طرف دعوت دینا۔
حدیث نمبر: 7375
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنَا عَمْرٌو، عَنْ ابْنِ أَبِي هِلَالٍ، أَنَّ أَبَا الرِّجَالِ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَهُ، عَنْ أُمِّهِ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَكَانَتْ فِي حَجْرِ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" بَعَثَ رَجُلًا عَلَى سَرِيَّةٍ وَكَانَ يَقْرَأُ لِأَصْحَابِهِ فِي صَلَاتِهِمْ فَيَخْتِمُ بِ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ فَلَمَّا رَجَعُوا ذَكَرُوا ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: سَلُوهُ لِأَيِّ شَيْءٍ يَصْنَعُ ذَلِكَ، فَسَأَلُوهُ؟، فَقَالَ: لِأَنَّهَا صِفَةُ الرَّحْمَنِ وَأَنَا أُحِبُّ أَنْ أَقْرَأَ بِهَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَخْبِرُوهُ أَنَّ اللَّهَ يُحِبُّهُ".
ہم سے محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن وہب نے بیان کیا، ان سے عمرو نے، ان سے ابوہلال نے اور ان سے ابوالرجال محمد بن عبدالرحمٰن نے، ان سے ان کی والدہ عمرہ بن عبدالرحمٰن نے وہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی پرورش میں تھیں۔ انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاحب کو ایک مہم پر روانہ کیا۔ وہ صاحب اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھاتے تھے اور نماز میں ختم قل ھو اللہ احد پر کرتے تھے۔ جب لوگ واپس آئے تو اس کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان سے پوچھو کہ وہ یہ طرز عمل کیوں اختیار کئے ہوئے تھے۔ چنانچہ لوگوں نے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ وہ ایسا اس لیے کرتے تھے کہ یہ اللہ کی صفت ہے اور میں اسے پڑھنا عزیز رکھتا ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں بتا دو کہ اللہ بھی انہیں عزیز رکھتا ہے۔
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 994  
´ «قل ھو اللہ أحد» پڑھنے کی فضیلت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو لشکر کی ایک ٹکری کا امیر بنا کر بھیجا، وہ اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھایا کرتا تھا، اور قرأت «‏قل هو اللہ أحد» پر ختم کرتا تھا، جب لوگ لوٹ کر واپس آئے، تو لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان سے پوچھو، وہ ایسا کیوں کرتے تھے؟ ان لوگوں نے ان سے پوچھا: انہوں نے کہا: یہ رحمن عزوجل کی صفت ہے، اس لیے میں اسے پڑھنا پسند کرتا ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ اسے بتا دو کہ اللہ عزوجل بھی اسے پسند کرتا ہے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/باب سجود القرآن/حدیث: 994]
994۔ اردو حاشیہ: اس حدیث مبارکہ سے سورہ اخلاص کی فضیلت کے ساتھ یہ بھی ثابت ہوا کہ ایک رکعت میں دو سورتیں جمع کرنا جائز ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 994   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7375  
7375. ام المومنین سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ایک شخص کو کسی لشکر کا سردار بناکر روانہ فرمایا: وہ اپنی فوج کو نماز پڑھاتا تو اپنی قراءت «قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ» ‏‏‏‏ پر ختم کرتا۔ جب یہ لوگ لوٹ کر آئے تو انہوں نے نبی ﷺ سے اس کا ذکر کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اس سے پوچھو وہ ایسا کیوں کرتا تھا؟ لوگوں نے اس سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ اس سورت میں رحمن کی صفات ہیں جنہیں تلاوت کرنا مجھے اچھا لگتا ہے۔ تب نبی ﷺ نےفرمایا: اسے بتا دو کہ اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7375]
حدیث حاشیہ:
اس سورہ شریف میں اللہ تعالیٰ کی اولین صفت وحدانیت دوسری صفت صمدانیت کو ظاہر کیا گیا ہے۔
معرفت الٰہی کے سمجھنے کے سلسلے میں وجود باری تعالیٰ کو تسلیم کرنے کے بعد ان دو صفتوں کو سمجھنا ضروری ہے توالد وتناسل کا سلسلہ بھی ایسا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ا س سے بالکل پاک ہے کہ وہ اولاد مثل مخلوق کے رکھتا ہو یا کوئی اس کا جننے والا ہو وہ ان ہر دو سلسلوں سے بہت دور ہے۔
اس سلسلہ کے لیے مذکر یا مؤنث ہم ذات ہونا ضروری ہے اور ساری کائنات میں اس کام ہم ذات کوئی نہیں ہے۔
وہ اس بارے میں بھی وحدہ لا شریک لہ ہے۔
ان جملہ امور کو سمجھ کر معرفت الٰہی حاصل کرنا انبیاء کرام کا یہی اولین پیغام ہے۔
یہی اصل دعوت دین ہے لا اله إلا اللہ کا یہی مفہوم ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7375   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7375  
7375. ام المومنین سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ایک شخص کو کسی لشکر کا سردار بناکر روانہ فرمایا: وہ اپنی فوج کو نماز پڑھاتا تو اپنی قراءت «قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ» ‏‏‏‏ پر ختم کرتا۔ جب یہ لوگ لوٹ کر آئے تو انہوں نے نبی ﷺ سے اس کا ذکر کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اس سے پوچھو وہ ایسا کیوں کرتا تھا؟ لوگوں نے اس سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ اس سورت میں رحمن کی صفات ہیں جنہیں تلاوت کرنا مجھے اچھا لگتا ہے۔ تب نبی ﷺ نےفرمایا: اسے بتا دو کہ اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7375]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث میں دو چیزوں کا اثبات ہے:
الف۔
اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں جیسا کہ اس حدیث میں صراحت ہے بلکہ سورہ اخلاص تو صفات باری تعالیٰ ہی پر مشتمل ہے۔
ب۔
اس میں اللہ تعالیٰ کے لیے صفت محبت کو ثابت کیا گیا ہے۔
اس صفت کو بلاتاویل مبنی برحقیقت تسلیم کرنا چاہیے۔
اسے نفس ثواب یا ارادہ ثواب پر محمول نہ کیا جائے کیونکہ صفات کے متعلق تاویل کا موقف ہمارے اسلاف کے موقف کے خلاف ہے۔
اس حدیث کے مطابق سورۃ الاخلاص خاص طور پر اللہ تعالیٰ کی صفات پر مشتمل ہے اگرچہ سارا قرآن ہی اللہ تعالیٰ کی صفت ہے کیونکہ وہ اس کا کلام ہے اور کلام اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ہے لیکن اس سورت کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس میں اوصاف الرحمٰن کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ مدینہ طیبہ کےچند یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے:
آپ اپنے رب کی صفات بیان کریں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سورت تلاوت کی اور فرمایا:
یہ میرے رب کی صفات ہیں۔
(الأسماء والصفات للبیھقي: 279)

اس سورت میں اللہ تعالیٰ کے نام ہیں اور اس کے نام کسی نہ کسی صفت پر مشتمل ہیں۔
اللہ تعالیٰ کاہر نام اس کی ذات پر دلالت کرتا ہے اور اس صفت کی بھی رہنمائی کرتا ہے جو اس نام کے ضمن میں ہے، نیز اگر نام متعدی ہے تواس کے اثرات کی بھی نشاندہی کرتا ہے، مثلاً:
الرحمٰن اللہ تعالیٰ کا نام ہے۔
اس پر ایمان لانے اور اسے تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہے:
۔
یہ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے جو اللہ تعالیٰ کی ذات پر دلالت کرتا ہے۔
۔
یہ پیارا نام اللہ تعالیٰ کی ایک پیاری صفت الرحمۃ پر مشتمل ہے۔
۔
اس صفت کا اثر مرتب ہوتا ہے اور وہ یہ کہ اپنے بندے پر جب چاہے رحمت فرماتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی تمام صفات اعلیٰ درجے کی ہیں اور کمال ومدح پر مشتمل ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی صفت میں کسی قسم کا نقص نہیں ہے۔
جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات کامل واکمل ہے اسی طرح اس کی ہرصفت بھی کامل واکمل ہے۔
جوصفت کسی اعتبار سے نقص وعیب پر مشتمل ہو وہ اللہ تعالیٰ کے حق میں ممتنع ہے جیسے موت، جہالت اور عجزوغیرہ، اسی طرح صاحب اولاد ہونا، بیوی رکھنا یہ اوصاف نقائص وعیوب پر مشتمل ہیں۔
اس لیے اللہ تعالیٰ ایسے تمام عیوب سے پاک ومبراہے۔
سورہ اخلاص سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات دو قسموں پر مشتمل ہیں:
۔
صفات ثبوتیہ:
۔
اس سےمراد وہ صفات ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے لیے ثابت فرمائی ہیں، مثلاً:
صفت الحیاۃ، القدرۃ اورالعلم وغیرہ۔
انھیں صفات اکرام کہا جاتا ہے۔
۔
صفات سلبیہ:
۔
اس سے مراد وہ صفات ہیں جن کی اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات سے نفی کی ہے، مثلاً:
صاحب اولاد یا مولود ہونا۔
انھیں صفات ِجلال کہا جاتا ہے۔
یہ دونوں صفات کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:
آپ کارب جو بڑی بزرگی اورعزت وشان والاہے، اس کا نام بھی بہت برکت والا ہے۔
(الرحمٰن 55/78)
اللہ تعالیٰ کی تمام صفات حقیقی ہیں۔
ان کی کیفیت بیان کرنا جائز نہیں کیونکہ انسانی عقل کے لیے ان صفات کی کیفیت کا ادراک ممکن نہیں ہے، نیز اس کی صفات مخلوق کی صفات کے مماثل ومشابہ نہیں ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اس کے مثل کوئی چیز نہیں۔
(الشوریٰ: 11)
نیز اللہ تعالیٰ اس کمال کا مستحق ہے جو ہر کمال سے بڑھ کر ہے لہذا یہ ممکن نہیں کہ اس کی صفات مخلوق کی صفات کے مشابہ ہوں کیونکہ مخلوق تو ہر اعتبار سے ناقص ہے۔
الغرض سورہ اخلاص دونوں قسم کی صفات پر مشتمل ہے۔
اس میں صفات ثبوتیہ اور صفات سلبیہ دونوں موجود ہیں۔

کچھ لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی صفات کا انکار کیا ہے۔
یہ حدیث ان کے خلاف ایک زبردست حجت ہے۔
یہ حدیث اس امر پر بھی دلالت کرتی ہے کہ ایسی آیات کی تلاوت مستحب ہے جو اللہ تعالیٰ کی صفات پر مشتمل ہیں جبکہ کچھ بدعتی حضرات کا خیال ہے کہ عام لوگوں کے سامنے ایسی آیات کی تلاوت مکروہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی صفات پر مشتمل ہوں۔
اس حدیث میں صراحت ہے کہ اللہ تعالیٰ اس انداز کو پسند کرتا ہے اور اسے بھی پسند کرتا ہے جو یہ انداز اختیار کرتا ہے۔
(شرح کتاب التوحید للغنیمان: 73/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7375