صحيح البخاري
كِتَاب التَّوْحِيدِ -- کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں
9. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَكَانَ اللَّهُ سَمِيعًا بَصِيرًا} :
باب: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ”اور اللہ بہت سننے والا، بہت دیکھنے والا ہے“۔
وَقَالَ الْأَعْمَشُ، عَنْ تَمِيمٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَسِعَ سَمْعُهُ الْأَصْوَاتَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّتِي تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا سورة المجادلة آية 1.
اور اعمش نے تمیم سے بیان کیا، ان سے عروہ بن زبیر نے، ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ انہوں نے کہا ساری حمد اسی اللہ کے لیے سزاوار ہے جو تمام آوازوں کو سنتا ہے پھر خولہ بنت ثعلبہ کا قصہ بیان کیا تو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی «قد سمع الله قول التي تجادلك في زوجها‏» اللہ تعالیٰ نے اس کی بات سن لی جو آپ سے اپنے شوہر کے بارے میں جھگڑا کرتی تھی۔
حدیث نمبر: 7386
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ:" كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَكُنَّا إِذَا عَلَوْنَا كَبَّرْنَا، فَقَالَ: ارْبَعُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ، فَإِنَّكُمْ لَا تَدْعُونَ أَصَمَّ وَلَا غَائِبًا تَدْعُونَ سَمِيعًا بَصِيرًا قَرِيبًا، ثُمَّ أَتَى عَلَيَّ وَأَنَا أَقُولُ فِي نَفْسِي: لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ، فَقَالَ لِي يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَيْسٍ: قُلْ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ فَإِنَّهَا كَنْزٌ مِنْ كُنُوزِ الْجَنَّةِ، أَوْ قَالَ: أَلَا أَدُلُّكَ بِهِ".
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے ابوعثمان نہدی نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے اور جب ہم بلندی پر چڑھتے تو (زور سے چلا کر) تکبیر کہتے۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگو! اپنے اوپر رحم کھاؤ! اللہ بہرا نہیں ہے اور نہ وہ کہیں دور ہے۔ تم ایک بہت سننے، بہت واقف کار اور قریب رہنے والی ذات کو بلاتے ہو۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے۔ میں اس وقت دل میں «لا حول ولا قوة إلا بالله» کہہ رہا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا عبداللہ بن قیس! «لا حول ولا قوة إلا بالله» کہا کرو کہ یہ جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔ یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں یہ نہ بتا دوں۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3824  
´لاحول ولا قوۃ إلا باللہ کی فضیلت۔`
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے «لا حول ولا قوة إلا بالله» گناہوں سے دوری اور عبادات و طاعت کی قوت صرف اللہ رب العزت کی طرف سے ہے پڑھتے ہوئے سنا تو فرمایا: عبداللہ بن قیس! کیا میں تمہیں وہ کلمہ نہ بتلاؤں جو جنت کے خزانوں میں سے ایک حزانہ ہے؟ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں، ضرور بتائیے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم «لا حول ولا قوة إلا بالله» کہا کرو۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3824]
اردو حاشہ:
فوائد و  مسائل:

(1)
  یہ جملہ اللہ کے ذکر میں اہم جملہ ہےکیو نکہ اس میں اس بات کا اقرار ہےکہ ہر قوت کا سرچشمہ اللہ کی ذات ہے۔

(2)
اس میں اللہ تعالیٰ پر اعتماد و توکل کے ساتھ ساتھ اس کے سامنے عاجزی اورمسکینی کا اظہار ہے، اور عبودیت کا یہ اظہار اللہ تعالٰی کو پسند ہے۔

(3)
نیکی کا کام انجام دے کر یا گناہ سے اجتناب کر کے دل میں فخر کے جذبات پیدا ہو سکتے ہیں جس کے نتیجے میں نیکی برباد گناہ لازم کی کیفیت پیش آ سکتی ہے، اس سے بچاؤ کے لیے اس بات کی یاد دہانی کی ضرورت ہے کہ یہ سب میری کوشش اور بہادری سے نہیں بلکہ محض اللہ کی توفیق اور اس کے احسان سے ہے۔

(4)
اس سوچ کے ساتھ یہ الفاظ پڑھنے سےیقینا جنت کی عظیم نعمتیں اور بلند درجات حاصل ہوں گے، اس لیے اسے جنت کا خزانہ قرار دیا گیا ہے۔

(5)
اللہ کا ذکر سری طور پر کرنا بہتر ہے کیونکہ اس میں ریا کاری نہیں ہوتی، البتہ جن مقامات پر ذکر بلند آواز کرنا مسنون ہے، وہاں بلند آواز ہی سے کرنا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3824   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1341  
´ذکر اور دعا کا بیان`
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مخاطب ہو کر کہا اے عبداللہ بن قیس! کیا میں تجھے جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ نہ بتاؤں؟ جو یہ ہے «لا حول ولا قوة إلا بالله» کہ برائی سے منہ موڑنا اور نیکی پر زور سوائے اللہ کی مدد کے ممکن نہیں ہے۔ (بخاری و مسلم) اور نسائی میں اتنا اضافہ ہے «ولا ملجأ من الله إلا إليه» کہ اللہ کے سوا کہیں پناہ نہیں۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1341»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الدعوات، باب الدعاء إذا علا عقبة، حديث:6384، ومسلم، الذكر والدعاء، باب استحباب خفض الصوت بالذكر...، حديث:2704، والنسائي في الكبرٰي:6 /97، حديث:10190.»
تشریح:
اس حدیث میں بھی لَاحَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہِ کی فضیلت کا بیان ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ چیز جس قدر نفیس اور قیمتی ہوتی ہے اس کی حفاظت اور دیکھ بھال بھی اسی طرح بہت اہتمام سے کی جاتی ہے۔
اسے چھپا کر رکھا جاتا ہے۔
اور یہ کلمات تو جنت کا خزانہ ہیں‘ اس لیے ان کی بھی محافظت کرنی چاہیے اور انھیں کثرت سے پڑھنا چاہیے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1341   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3374  
´دعا سے متعلق ایک اور باب​۔`
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ میں تھے جب ہم لوٹے اور ہمیں مدینہ دکھائی دینے لگا تو لوگوں نے تکبیر کہی اور بلند آواز سے تکبیر کہی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا رب بہرہ نہیں ہے اور نہ ہی وہ غائب و غیر حاضر ہے، وہ تمہارے درمیان موجود ہے، وہ تمہارے کجاؤں اور سواریوں کے درمیان (یعنی بہت قریب) ہے پھر آپ نے فرمایا: عبداللہ بن قیس! کیا میں تمہیں جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ نہ بتاؤں؟ «لا حول ولا قوة إلا بالله» (جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے)۔ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات/حدیث: 3374]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی:
جو اس کلمے کا ورد کرے گا وہ جنت کے خزانوں میں ایک خزانے کا مالک ہو جائے گا،
کیونکہ اس کلمے کا مطلب ہے برائی سے پھرنے اور نیکی کی قوت اللہ کی مدد کے بغیر ممکن نہیں۔
جب بندہ اس کا بار باراظہار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بے انتہا خوش ہوتا ہے،
بندے کی طرف سے اس طرح کی عاجزی کا اظہار تو عبادت حاصل ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3374   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7386  
7386. سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ہم ایک سفر میں نبی ﷺ کے ہمراہ تھے، جب ہم کسی پہاڑ کی بلندی پر چڑھتے تو بآواز بلند اللہ اکبر کہتے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: لوگو! اپنے آپ پر رحم کھاؤ! تم کسی بہرے یا غائب کو نہیں پکار رہے بلکہ تم سب کچھ سننے والے خوب دیکھنے والے اور بہت زیادہ قریب رہنے والے کو بلا رہے ہو۔ پھر آپ ﷺ میرے پاس تشریف لائے جبکہ میں اپنے دل میں اَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ کہہ رہا تھا۔ آپ نے فرمایا: اے عبداللہ بن قیس! تم لا حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ پڑھا کرو کیونکہ یہ جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔ یا آپ نے فرمایا: کیا میں تمہاری (جنت کے خزانے کی طرف) رہنمائی نہ کروں؟ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7386]
حدیث حاشیہ:
تشریح:
وہ یہی لا حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ ہے۔
اللہ تعالیٰ غائب نہیں ہے۔
اس کا یہ معنی ہے کہ وہ ہر جگہ ہر چیز کو ہر آواز کو دیکھ اور سن رہا ہے۔
آواز کیا چیز ہے وہ تو دلوں تک کی بات جانتا ہے۔
یہ جو کہا کرتے ہیں اللہ ہر جگہ حاضر وناظر ہے اس کا بھی یہی معنی ہے کہ کوئی چیز اس کا علم اور سمع اور بصرہ سے پوشیدہ نہیں ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے جیسے جہمیہ ملاعنہ سمجھتے ہے کہ اللہ اپنی ذات قدسی صفات سے ہر مکان یا ہر جگہ میں موجود ہے‘ ذات مقدس تو اس کی بالائے عرش ہے مگر اس کا علم اور سمع اور بصر ہر جگہ ہے‘ حضور کا یہی معنی ہے۔
خود امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں اللہ آسمان پر ہے زمین میں نہیں ہے یعنی اس کی ذات مقدس بالائے آسمان اپنے عرش پر ہے اور دین کے کل اماموں کا یہی مذہب ہے جیسے اوپر بیان ہو چکا ہے۔
یہ کلمہ لا حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ عجب پر اثر کلمہ ہے اللہ تعالیٰ نے اس کلمے میں یہ اثر رکھا ہے کہ جو کوئی اس کو ہمیشہ پڑھا کرے وہ ہر شر سے محفوظ رہتا ہے۔
ہمارے پیرو مرشد حضرت مجدد کا ختم روزانہ یہی تھا کہ سو سو بار اول وآخر درود شریف پڑھتے اور پانچ سو مرتبہ لا حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ اور دنیا اور آخرت کے تمام مہمات اور مقاصد حاصل ہونے کے لیے یہ بارہ کلمے میں نے تجربہ کئے ہیں جو کوئی ان کو ہر وقت جب فرصت ہو بلا قید عدد پڑھتا رہے ان شاءاللہ تعالیٰ اس کی کل مرادیں پوری ہوں گی۔
سبحانَ اللہ وبحمدِہ سبحانَ اللہ العظیمِ۔
اَستغفرُ اللہ، لا اله الا اللہ لا حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ یا رافع یا مُعِز یاغنی یا حی یا قیوم برحمتك أِستغیثُ یا أرحمَ الراحمین لا إله الا انت سبحانكَ إني کنتُ مِنَ الظلمینَ حسبنا اللہ ونعم والوکیل نعم المولیٰ ونعم النصیر۔
ایسا ہوا کہ ایک ملحد بے دین شخص اہل حدیث اور اہل علم کا بڑا دشمن تھا اور اس قدر طاقت ور ہو گیا تھا کہ اس کا کوئی مقابلہ نہ کر سکتا تھا۔
ہر شخص کو خصوصاً دین داروں کو اس کے شر سے اپنی عزت وآبرو سنبھالنا دشوار ہو گیا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے انہی کلموں کے طفیل سے اس کا قلع قمع کر دیا اور اپنے بندوں کو راحت دی۔
جب اس کے فی النار والسقر ہونے کی خبر آئی تو دفعتاً یہ مادہ تاریخ دل میں گزرا:
چونکہ بو جہل رفت ازدنیا گشتہ تاریخ او بما ذمہ رائے بیروں کن وبیگر حدیث مات فرعون ھذہ الامہ۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7386   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7386  
7386. سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ہم ایک سفر میں نبی ﷺ کے ہمراہ تھے، جب ہم کسی پہاڑ کی بلندی پر چڑھتے تو بآواز بلند اللہ اکبر کہتے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: لوگو! اپنے آپ پر رحم کھاؤ! تم کسی بہرے یا غائب کو نہیں پکار رہے بلکہ تم سب کچھ سننے والے خوب دیکھنے والے اور بہت زیادہ قریب رہنے والے کو بلا رہے ہو۔ پھر آپ ﷺ میرے پاس تشریف لائے جبکہ میں اپنے دل میں اَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ کہہ رہا تھا۔ آپ نے فرمایا: اے عبداللہ بن قیس! تم لا حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ پڑھا کرو کیونکہ یہ جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔ یا آپ نے فرمایا: کیا میں تمہاری (جنت کے خزانے کی طرف) رہنمائی نہ کروں؟ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7386]
حدیث حاشیہ:

اللہ تعالیٰ غائب نہیں ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہر جگہ ہر چیز کو دیکھ رہا ہے اور ہرآواز کو سن رہا ہے۔
وہ اس قدر دور نہیں کہ اسے بآواز بلند پکارنے کی ضرورت پیش آئے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم!)
جب آپ سے میرے بندے میرے متعلق سوال کریں تو (انھیں کہہ دو کہ)
میں قریب ہوں۔
پکارنے والی کی دعا قبول کرتا ہوں وہ جب بھی مجھے پکارے۔
(البقرہ: 186)
آواز کیا چیز ہے وہ تو دل کی بات اور آنکھ کی خیانت کو جانتا ہے اسی لیے فرمایا:
تم سب کچھ سننے والے دیکھنے والے اور انتہائی قریب رہنے والے کو پکارتے ہو۔
بندہ بھی ان صفات سے متصف ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
ہم نے اسے (انسان کو)
خوب سننے والا دیکھنے والا بنایا ہے۔
(الدہر76۔
2)

لیکن بندے کے سمع اور بصر ناقص ہیں جو دور سے سن نہیں سکتا بلکہ قریب بھی اگر پردہ یا اوٹ حائل ہو تو اس کی سماعت و بصارت کام نہیں آتی لیکن اللہ تعالیٰ کامل پر ان صفات سے متصف ہے اس کی سمع سے کوئی حرکت فوت نہیں ہوتی خواہ وہ کتنی پوشیدہ ہو۔
وہ رات کے اندھیرے میں سفید پتھر پر چلنے والی چیونٹی کے قدموں کی آہٹ کو سنتا ہے بلکہ اس سے بھی مخفی چیزوں کو سنتا ہے۔
سانس کی آمدو رفت سے جو آواز پیدا ہوتی ہے وہ اسے بھی سنتا ہے جبکہ خود انسان اسے نہیں سن سکتا۔
اس کی بصر کائنات کی تمام حرکات و سکنات کو دیکھتی ہے۔
اتنا انسان کسی انسان کے قریب نہیں جتنا اللہ تعالیٰ اس کے قریب ہے:
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
ہم تو اس کی شاہ رگ (رگ جان)
سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔
(ق: 50۔
16)


واضح رہے کہ یہ قرب علم اور قدرت کے اعتبار سے ہے ورنہ ذات باری تعالیٰ مستوی علی العرش ہے۔
بعض جہلاء نے اس قسم کی آیات سے یہ فلسفہ کشید کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ بذات خود موجود ہے پھر انھوں نے وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود جیسی ناپاک اصطلاحات بنا ڈالیں۔
کچھ لوگوں نے ایک قدم آگے بڑھا دیا کہ حضرات ا نبیاء علیہم السلام خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی بلکہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ہر جگہ موجود ہیں اور لوگوں نے اپنے پیروں اور مرشدوں کے ہر جگہ ہونے کی صراحت کی ہے۔
اللہ تعالیٰ ان سب باتوں سے پاک ہے۔
اللہ تعالیٰ کے حاضر و ناظر ہونے کے متعلق ہم آئندہ تفصیل سے بحث کریں گے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کی مذکورہ صفات کے پیش نظر اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے فرمایا:
تم اپنے آپ پر رحم کرو اور ترس کھاؤ۔
نعرہ تکبیرکہتے وقت اپنی آوازوں کو اس قدر اونچا کرنے کا تکلف نہ کرو۔
اس کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ جس ذات کی تم کبریائی اورتسبیح بیان کرتے ہو وہ سمیع اور بصیرہے۔
وہ اللہ پوشیدہ آواز کو بھی اسی طرح سنتا ہے جس طرح اونچی آواز کو سنتا ہے اور مخفی اشیاء کو اس طرح دیکھتا ہے جس طرح سر عام پڑی چیز کو دیکھتا ہے۔
اس پر زمین و آسمان کی کوئی چیز پوشیدہ نہیں۔
(شرح کتاب التوحید للغنیمان: 191/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7386