صحيح البخاري
كِتَاب التَّوْحِيدِ -- کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں
14. بَابُ مَا يُذْكَرُ فِي الذَّاتِ وَالنُّعُوتِ وَأَسَامِي اللَّهِ:
باب: اللہ تعالیٰ کو ذات کہہ سکتے ہیں (اسی طرح شخص بھی کہہ سکتے ہیں) یہ اس کے اسماء اور صفات ہیں۔
وَقَالَ خُبَيْبٌ وَذَلِكَ فِي ذَاتِ الْإِلَهِ فَذَكَرَ الذَّاتَ بِاسْمِهِ تَعَالَى.
اور خبیب بن عدی رضی اللہ عنہ نے مرتے وقت کہا کہ یہ سب تکلیف اللہ کی ذات مقدس کے لیے ہے تو اللہ کے نام کے ساتھ انہوں نے «ذات» کا لفظ لگایا۔
حدیث نمبر: 7402
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ أَبِي سُفْيَانَ بْنِ أَسِيدِ بْنِ جَارِيَةَ الثَّقَفِيُّ حَلِيفٌ لِبَنِي زُهْرَةَ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ:" بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشَرَةً مِنْهُمْ خُبَيْبٌ الْأَنْصَارِيُّ، فَأَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عِيَاضٍ، أَنَّ ابْنَةَ الْحَارِثِ أَخْبَرَتْهُ، أَنَّهُمْ حِينَ اجْتَمَعُوا اسْتَعَارَ مِنْهَا مُوسَى يَسْتَحِدُّ بِهَا، فَلَمَّا خَرَجُوا مِنَ الْحَرَمِ لِيَقْتُلُوهُ، قَالَ خُبَيْبٌ الْأَنْصَارِيُّ: وَلَسْتُ أُبَالِي حِينَ أُقْتَلُ مُسْلِمًا عَلَى أَيِّ شِقٍّ كَانَ لِلَّهِ مَصْرَعِي وَذَلِكَ فِي ذَاتِ الْإِلَهِ وَإِنْ يَشَأْ يُبَارِكْ عَلَى أَوْصَالِ شِلْوٍ مُمَزَّعِ فَقَتَلَهُ ابْنُ الْحَارِثِ، فَأَخْبَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصْحَابَهُ خَبَرَهُمْ يَوْمَ أُصِيبُوا".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں عمرو بن ابی سفیان بن اسید بن جاریہ ثقفی نے خبر دی جو بنی زہرہ کے حلیف تھے اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے شاگردوں میں تھے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عضل اور قارہ والوں کی درخواست پر دس اکابر صحابہ کو جن میں خبیب رضی اللہ عنہ بھی تھے، ان کے ہاں بھیجا۔ ابن شہاب نے کہا کہ مجھے عبیداللہ بن عیاض نے خبر دی کہ حارث کی صاحبزادی زینب نے انہیں بتایا کہ جب لوگ خبیب رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کے لیے آمادہ ہوئے (اور قید میں تھے) تو اسی زمانے میں انہوں نے ان سے صفائی کرنے کے لیے استرہ لیا تھا، جب وہ لوگ خبیب رضی اللہ عنہ کو حرم سے باہر قتل کرنے لے گئے تو انہوں نے یہ اشعار کہے۔ اور جب میں مسلمان ہونے کی حالت میں قتل کیا جا رہا ہوں تو مجھے اس کی پروا نہیں کہ مجھے کس پہلو پر قتل کیا جائے گا اور میرا یہ مرنا اللہ کے لیے ہے اور اگر وہ چاہے گا تو میرے ٹکڑے ٹکڑے کئے ہوئے اعضاء پر برکت نازل کرے گا۔ پھر ابن الحارث نے انہیں قتل کر دیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو اس حادثہ کی اطلاع اسی دن دی جس دن یہ حضرات شہید کئے گئے تھے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7402  
7402. سیدنا ابو ہریرہ ؓ کے شاگرد، بنو زہرہ قبیلے کے حلیف سیدنا اسید بن جاریہ ثقفی ؓ سے روایت ہے کہ سیدنا ابو ہریرہ ؓ نے فرمایا: رسول اللہﷺ نے دس صحابہ کرام کو کسی مہم پر روانہ کیا۔ ان میں سیدنا خبیب ؓ بھی تھے۔ حارث کی بیٹی نے بتایا کہ جب حارث کے بیٹوں نے انہیں قتل کرنے کا پروگرام بنایا تو سیدنا خبیب نے مجھ سے استرا مانگا تاکہ اپنے زیر ناف بال صاف کریں۔ جب وہ انہیں قتل کرنے کے لیے حرم سے باہر لے گئے تو سیدنا خبیب انصاری ؓ نے یہ شعر پڑھے۔ جب مسلمان بن کے دنیا سے چلوں مجھ کو کیا ڈر ہے کس کروٹ کروں میرا مرنا ہے اللہ کی ذات میں وہ اگر چاہے نہ ہوں گا میں زبوں تن جو ٹکڑے ٹکڑے اب ہو جائے گا اس کے ٹکڑے پر وہ برکت دے فزوں۔ پھر حارث کے بیٹے (عقبہ) نے اسے قتل کر دیا۔ نبی ﷺ نے اپنے صحابہ کرام‬ ؓ ک‬و اُسی دن اطلاع کر دی جس دن یہ حضرات شہید کیے گئے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7402]
حدیث حاشیہ:
بنو لحیان کے دو سو آدمیوں نے ان کو گھیر لیا۔
سات بزرگ شہید ہو گئے تین کو قید کر کے لے چلے۔
ان ہی میں حضرت خبیب رضی اللہ عنہ بھی تھے جسے بنو حارث نے خرید لیا اور ایک مدت تک ان کو قید رکھ کر قتل کیا۔
حضرت مولانا وحید الزماں نے ان اشعار کا ترجمہ یوں کیا ہے جب مسلماں بن کے دنیا سے چلو ں مجھ کو کیا ڈر ہے کسی کروٹ گروں میرا مرنا ہے خدا کی ذات میں وہ اگر چاہے نہ ہوں گا میں زبوں تن جو ٹکڑے ٹکڑے اب ہو جائے گا اس کے ٹکڑوں پر وہ برکت دے فزوں
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7402   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7402  
7402. سیدنا ابو ہریرہ ؓ کے شاگرد، بنو زہرہ قبیلے کے حلیف سیدنا اسید بن جاریہ ثقفی ؓ سے روایت ہے کہ سیدنا ابو ہریرہ ؓ نے فرمایا: رسول اللہﷺ نے دس صحابہ کرام کو کسی مہم پر روانہ کیا۔ ان میں سیدنا خبیب ؓ بھی تھے۔ حارث کی بیٹی نے بتایا کہ جب حارث کے بیٹوں نے انہیں قتل کرنے کا پروگرام بنایا تو سیدنا خبیب نے مجھ سے استرا مانگا تاکہ اپنے زیر ناف بال صاف کریں۔ جب وہ انہیں قتل کرنے کے لیے حرم سے باہر لے گئے تو سیدنا خبیب انصاری ؓ نے یہ شعر پڑھے۔ جب مسلمان بن کے دنیا سے چلوں مجھ کو کیا ڈر ہے کس کروٹ کروں میرا مرنا ہے اللہ کی ذات میں وہ اگر چاہے نہ ہوں گا میں زبوں تن جو ٹکڑے ٹکڑے اب ہو جائے گا اس کے ٹکڑے پر وہ برکت دے فزوں۔ پھر حارث کے بیٹے (عقبہ) نے اسے قتل کر دیا۔ نبی ﷺ نے اپنے صحابہ کرام‬ ؓ ک‬و اُسی دن اطلاع کر دی جس دن یہ حضرات شہید کیے گئے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7402]
حدیث حاشیہ:

بنولحیان نے ان دس جاں نثار کو اپنے گھیرے میں لے کر سات کو شہید کر دیا اور تین کو قید کرکے لے گئے۔
ان قیدیوں میں حضرت خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے جنھیں بنو حارث نے خرید لیا اور ایک مدت تک انھیں قید رکھنے کے بعد شہید کیا۔
اس واقعے کی تفصیل خود امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب المغازی میں بیان کی ہے۔
(صحیح البخار، المغازي، حدیث: 4086)

اس حدیث میں لفظ ذات اللہ کے اسم مبارک کے ساتھ بطور مضاف استعمال ہوا ہے۔
خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے برقرار رکھا، اگر غلط ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا انکار کر دیتے، اسی طرح احادیث میں بھی اللہ تعالیٰ کے لیے یہ لفظ استعمال ہوا جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے زندگی میں صرف تین دفعہ خلاف واقعہ بات کی، ان میں سے دو مرتبہ تواللہ کی ذات کے متعلق تھی۔
(صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء علیہم السلام، حدیث: 3358)
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ہرچیز کی حقیقت تک پہنچنے کے لیے غوروفکر کرو لیکن اللہ کی ذات کے متعلق اس انداز سے غوروخوض نہ کرو۔
اس کی سند بھی جید ہے۔
(الأسماء والصفات للبیهقي: 420 و سلسلة الأحادیث الصحیحة: 346/4)
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
سب سے افضل اسلام اس مومن کا ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں اورافضل جہاد اس شخص کا ہے:
(منْ جاهَدَ نَفْسَهُ فِي ذاتِ اللّٰہ)
جس نے اللہ کی ذات کے بارے میں اپنے نفس سے جہاد کیا۔
۔
۔
(بدائع الفوائد: 7/2)

حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ذات کا لفظ اس چیز کے لیے استعمال ہوتا ہے جس کی صفات ہوں، پھر اسے ان صفات کی طرف مضاف کیا جاتا ہے۔
نحوی حضرات نے اگرچہ یہ اعتراض کیا ہے کہ لفظ ذات معرفہ استعمال نہیں ہوتا، تاہم اسے کسی چیز کی حقیقت بیان کرنے کے لیے استعمال کیا جائے تو اسے معرفہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔
متکلمین کی اپنی اصطلاح ہے جس کا لغت سے کوئی تعلق نہیں۔
(شرح کتاب التوحید للغنیمان: 243/1)
بہر حال لفظ ذات کا استعمال باری تعالیٰ کے لیے جائز ہے اور اس سے مراد نفس شے کا بیان ہے، یعنی بذات خود کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ذات اور صفات کو الگ الگ بیان کیا ہے۔
(فتح الباري: 470/13)
امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی کہا ہے کہ آیت کریمہ میں نفس سے مراد ذات مقدسہ ہے۔
(مجموع الفتاویٰ: 199/14)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7402