صحيح البخاري
كِتَاب التَّوْحِيدِ -- کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں
15. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ} :
باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ آل عمران میں) ارشاد ”اور اللہ اپنی ذات سے تمہیں ڈراتا ہے“۔
حدیث نمبر: 7404
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَمَّا خَلَقَ اللَّهُ الْخَلْقَ كَتَبَ فِي كِتَابِهِ وَهُوَ يَكْتُبُ عَلَى نَفْسِهِ وَهُوَ وَضْعٌ عِنْدَهُ عَلَى الْعَرْشِ: إِنَّ رَحْمَتِي تَغْلِبُ غَضَبِي".
ہم سے عبدان نے بیان کیا، ان سے ابوحمزہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے صالح نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا تو اپنی کتاب میں اسے لکھا، اس نے اپنی ذات کے متعلق بھی لکھا اور یہ اب بھی عرش پر لکھا ہوا موجود ہے «إن رحمتي تغلب غضبي» کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے۔
  الشيخ مبشر احمد رباني حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 7554  
´اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے`
«. . . رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّ اللَّهَ كَتَبَ كِتَابًا قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ الْخَلْقَ، إِنَّ رَحْمَتِي سَبَقَتْ غَضَبِي فَهُوَ مَكْتُوبٌ عِنْدَهُ فَوْقَ الْعَرْشِ . . .»
. . . میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کرنے سے پہلے ایک تحریر لکھی کہ میری رحمت میرے غضب سے بڑھ کر ہے، چنانچہ یہ اس کے پاس عرش کے اوپر لکھا ہوا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب التَّوْحِيدِ: 7554]

فوائد و مسائل
اللہ تعالیٰ کے متعلق محدثین و سلف صالحین کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
«الرَّحْمَـنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى» رحمن عرش پر مستوی ہوا۔ [20-طه:5]
↰ مستوی ہونے کا مفہوم بلند ہونا اور مرتفع ہونا ہے جیسا کہ:
❀ صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«إن الله كتب كتابا قبل ان يخلق الخلق إن رحمتي سبقت غضبي فهو مكتوب عنده فوق العرش»
بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے ایک کتاب لکھی ہے . . . جو اس کے پاس عرش کے اوپر ہے۔ [صحيح بخاري 7554]
↰ لیکن اللہ تعالیٰ کے عرش پر مستوی ہونے کی کیفیت ہمیں معلوم نہیں ہے، جس طرح اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق ہے اسی طرح وہ عرش پر مستوی ہے، ہمارے عقلیں اس کا ادراک نہیں کر سکتیں اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ نہیں کہنا چاہیے کہ وہ ہر جگہ موجود ہے کیونکہ وہ مکان سے پاک اور مبرا ہے البتہ اس کا علم اور اس کی قدرت ہر چیز کو محیط ہے، اس کی معیت ہر کسی کو حاصل ہے جیسا کہ یہ بات عقائد کی کتب میں واضح طور پر موجود ہے۔
   احکام و مسائل، حدیث/صفحہ نمبر: 22   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث189  
´جہمیہ کا انکار صفات باری تعالیٰ۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مخلوقات کے پیدا کرنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے اپنے ذمہ لکھ لیا کہ میری رحمت میرے غضب سے بڑھی ہوئی ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 189]
اردو حاشہ:
اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کی صفت رحمت اور صفت غضب کا ثبوت ہے اور اللہ تعالی کے ہاتھ مبارک کا ذکر ہے۔
ان تمام پر بلا تشبیہ ایمان لانا ضروری ہے۔
اور ہاتھ کا مطلب قدرت لینا بھی درست نہیں کیونکہ اس طرح دو صفات کو ایک صفت کے معنی میں لینے سے دوسری صفت کا انکار ہوتا ہے۔
اللہ کے دو ہاتھوں کا ذکر قرآن مجید میں بھی ہے۔
ارشاد ہے:
﴿قَالَ يَا إِبْلِيسُ مَا مَنَعَكَ أَن تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ﴾  (ص: 75)
 فرمایا:
اے ابلیس! تجھے اسے سجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا جسے میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے پیدا کیا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 189   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7404  
7404. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ بیان کرتے ہیں کہ آپ نےفرمایا: جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق پیدا کی تو اپنی کتاب میں لکھا: میں نے اپنے نفس پر لازم قرار دیا کہ میری رحمت میرے غصے پر غالب ہے۔ یہ نوشتہ اس نے اپنے پاس عرش پر رکھا ہوا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7404]
حدیث حاشیہ:
صحیح مسلم میں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا تو اپنی کتاب میں لکھا اور وہ تحریر اس کے پاس عرش پر ہے:
میری رحمت، میرے غضب پر غالب ہے۔
(صحیح مسلم، التوبة، حدیث: 6969(2751)
اس حدیث میں بھی ذات ِمقدسہ کے لیے لفظ نفس استعمال ہوا ہے۔
اس سے مراد ذات عالی صفات کے سمیت ہے۔
اس حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں لکھا:
میری رحمت، میرے غضب پر غالب ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
تمہارے رب نے اپنے اوپر رحمت کو لکھ لیا ہے، یعنی اسے لازم کر لیا ہے۔
(الأنعام: 54)
اس کتابت کے تین معنی ہیں:
۔
اسے ظاہر پر محمول کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اسے خود تحریر کیا، چنانچہ فرمان نبوی ہے:
جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا تو اپنے ہاتھ سے نوشتہ تقدیر لکھا۔
(سنن ابن ماجة، الزھد، حدیث: 4295)
۔
ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قلم کو لکھنے کا حکم دیا ہو اور اس کی بھی حدیث میں صراحت ہے۔
۔
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کلمہ "کن" سے ایسا کیا ہو، یعنی کن کہا اور نوشتہ تحریر ہو گیا۔
یہ تینوں معانی صحیح ہیں اور کتاب وسنت سے ثابت ہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7404