صحيح البخاري
كِتَاب التَّوْحِيدِ -- کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں
15. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ} :
باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ آل عمران میں) ارشاد ”اور اللہ اپنی ذات سے تمہیں ڈراتا ہے“۔
حدیث نمبر: 7405
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، سَمِعْتُ أَبَا صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى:" أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي، وَأَنَا مَعَهُ إِذَا ذَكَرَنِي، فَإِنْ ذَكَرَنِي فِي نَفْسِهِ ذَكَرْتُهُ فِي نَفْسِي، وَإِنْ ذَكَرَنِي فِي مَلَإٍ ذَكَرْتُهُ فِي مَلَإٍ خَيْرٍ مِنْهُمْ، وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ بِشِبْرٍ تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ ذِرَاعًا، وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ بَاعًا، وَإِنْ أَتَانِي يَمْشِي أَتَيْتُهُ هَرْوَلَةً".
ہم سے عمر بن حفص نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے، کہا ہم سے اعمش نے، کہا میں نے ابوصالح سے سنا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں اور جب وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں اور جب وہ مجھے مجلس میں یاد کرتا ہے تو میں اسے اس سے بہتر فرشتوں کی مجلس میں اسے یاد کرتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے ایک بالشت قریب آتا ہے تو میں اس سے ایک ہاتھ قریب ہو جاتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے ایک ہاتھ قریب آتا ہے تو میں اس سے دو ہاتھ قریب ہو جاتا ہوں اور اگر وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کے پاس دوڑ کر آ جاتا ہوں۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3822  
´عمل کی فضیلت۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں، جیسا وہ گمان مجھ سے رکھے، اور میں اس کے ساتھ ہوں جب وہ میرا ذکر کرتا ہے، اگر وہ میرا دل میں ذکر کرتا ہے تو میں بھی دل میں اس کا ذکر کرتا ہوں، اور اگر وہ میرا ذکر لوگوں میں کرتا ہے تو میں ان لوگوں سے بہتر لوگوں میں اس کا ذکر کرتا ہوں، اور اگر وہ مجھ سے ایک بالشت نزدیک ہوتا ہے تو میں ایک ہاتھ اس کے قریب ہوتا ہوں، اور اگر وہ چل کر میرے پاس آتا ہے تو میں اس کی جانب دوڑ کر آتا ہوں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3822]
اردو حاشہ:
فوائد و  مسائل:

(1)
اللہ تعالیٰ سے حسن ظن رکھنا چا ہیے۔
حسن ظن کا صحیح طریقہ یہ ہےکہ نیک اعمال کیے جائیں اور ان کی قبولیت کی امید رکھی جائے۔
گناہوں سے توبہ کی جائے اور بخشش کی امید رکھی جائے۔
گناہوں کے راستے پر بھاگتے چلے جانا اور اللہ کی رحمت کی امید رکھنا نادانی ہے۔

(3)
اس میں بالواسطہ عمل کی تلقین ہے کیونکہ عمل کے بغیر کی امید نہیں رکھی جا سکتی، لہٰذا اچھے عمل کرنے والا ہی اللہ سے اچھی امید رکھ سکتا ہے۔
برے عمل کرنے والا بری امید ہی رکھ سکتا ہے۔

(4)
جماعت میں ذکر کرنے سے مراد خود ساختہ اجتماعی ذکر نہیں بلکہ یا تو یہ مراد ہے کہ جیسے نماز کے بعد سب لوگ اپنے اپنے طور پر مسنون دعائیں اور اذکار پڑھتے ہیں یا اللہ کی رحمتوں، نعمتوں اور اس کے احکام وغیرہ کا ذکر ہے، یعنی ایک شخص بیان کرے اور دوسرے سنتے رہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3822   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2388  
´اللہ کے ساتھ حسن ظن رکھنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوں جیسا وہ گمان مجھ سے رکھے، اور میں اس کے ساتھ ہوں جب بھی وہ مجھے پکارتا ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الزهد/حدیث: 2388]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث میں اللہ کے ساتھ حسن ظن رکھنے کی ترغیب ہے،
لیکن عمل کے بغیرکسی بھی چیز کی امید نہیں کی جاسکتی ہے،
گویا اللہ کا معاملہ بندوں کے ساتھ ان کے عمل کے مطابق ہوگا،
بندے کا عمل اگر اچھا ہے تو اس کے ساتھ اچھا معاملہ اوربرے عمل کی صورت میں اس کے ساتھ برامعاملہ ہوگا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2388   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7405  
7405. سیدنا ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ نےفرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوتا ہوں جو وہ میرے ساتھ گمان رکھتا ہے۔ جب وہ مجھے یاد کرتا ہے میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ اگر وہ مجھے اپنے نفس میں یاد کرے تو میں بھی اسے اپنے نفس میں یاد کرتا ہوں۔ اگر وہ مجھے بھری محفل میں یاد کرے تو میں اسے اس سے بہتر محفل میں یاد کرتا ہوں۔ اگر وہ میری طرف ایک بالشت آئے تو میں اس کی جانب ایک گز نزدیک ہو جاتا ہوں۔ اور اگر وہ ایک گز مجھ سے قریب ہو تو میں دو گز اس سے نزدیک ہو جاتا ہوں۔ اگر وہ میری طرف چلتا ہوا آئے تو میں دوڑتا ہوا اس کے پاس آتا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7405]
حدیث حاشیہ:
یعنی میرا بندہ میرے ساتھ جیسا گمان رکھے گا میں اسی طرح اس سے پیش آؤں گا۔
اگر یہ گمان رکھے گا کہ میں اس کے قصور معاف کر دوں گا تو ایسا ہی ہوگا۔
اگر یہ گمان رکھے گا کہ میں اس کو عذاب کروں گا تو ایسا ہی ہوگا۔
حدیث سے یہ نکلا کہ رجا کا جانب بندے میں غالب ہونا چاہئے اور پروردگار کے ساتھ نیک گمان رکھنا چاہئے۔
اگر گناہ بہت ہیں تو بھی یہ خیال رکھنا چاہئے کہ وہ غفور الرحیم ہے۔
اس کی رحمت سے مایوس نہ ہونا چاہئے۔
(إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ) (الزمر: 53)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7405   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7405  
7405. سیدنا ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ نےفرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوتا ہوں جو وہ میرے ساتھ گمان رکھتا ہے۔ جب وہ مجھے یاد کرتا ہے میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ اگر وہ مجھے اپنے نفس میں یاد کرے تو میں بھی اسے اپنے نفس میں یاد کرتا ہوں۔ اگر وہ مجھے بھری محفل میں یاد کرے تو میں اسے اس سے بہتر محفل میں یاد کرتا ہوں۔ اگر وہ میری طرف ایک بالشت آئے تو میں اس کی جانب ایک گز نزدیک ہو جاتا ہوں۔ اور اگر وہ ایک گز مجھ سے قریب ہو تو میں دو گز اس سے نزدیک ہو جاتا ہوں۔ اگر وہ میری طرف چلتا ہوا آئے تو میں دوڑتا ہوا اس کے پاس آتا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7405]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر میرا بندہ میرے متعلق یہ گمان رکھتا ہے کہ میں اس کے گناہ معاف کر دوں تو اس کے گمان کے مطابق بندے کے تمام گناہ معاف کر دیتا ہوں اور اگرمیرے متعلق اس کے برعکس یہ گمان رکھتا ہے کہ میں اسے سزا دوں تو میں اسے سزا دیتا ہوں۔
اس میں یہ اشارہ ہے کہ خوف کی بجائے امید کا پہلو غالب رہنا چاہیے۔
(فتح الباري: 472/13)

اس حدیث میں بھی لفظ نفس کو ذات باری تعالیٰ کے لیے ثابت کیا گیا ہے۔
اس حدیث کے مطابق اگر ہندہ پوشیدہ طور پر اپنے رب کو اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس مجلس سے اعلیٰ اور افضل مجلس میں اس کا تذکرہ کرتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کے معزز فرشتے ہیں جواللہ تعالیٰ کی لمحہ بھر بھی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ وہی کچھ کرتے ہیں جو انھیں حکم دیا جاتا ہے۔
بندے کی طرف سے بڑا گناہ یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی زمین پر اپنے آپ کو بڑا اونچا خیال کرے اور اپنے رب کو فراموش کردے، اس کے برعکس جب بندہ اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہوکر خود کو گرا دیتا ہے تو اس سجدے کی حالت میں اللہ تعالیٰ سے بہت قریب ہو جاتا ہے جیسا کہ حدیث میں اس کی صراحت ہے، جس قدر بندہ اپنے رب کی طرف رجوع کرے گا اسی قدر وہ اللہ تعالیٰ کے قریب ہوگا۔
اگرچہ اس کا بدن زمین پر ہوتا ہے لیکن اس کا دل اللہ تعالیٰ کےقرب وجوار میں پہنچ جاتا ہے۔
ایک دوسرے کے قریب ہونے کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ دونوں اپنے بدن سے حرکت کریں بلکہ ایک کا دوسرے سے قریب ہونا اس بات کو لازم ہے کہ دوسرا بھی اس کے قریب ہو جائے جیسا کہ انسان جب مکے کے قریب پہنچ جاتا ہے تو یوں کہا جاتا ہے کہ مکہ اس کے بالکل قریب آگیا ہے۔
بہرحال اس قسم کے قرب کے لیے دونوں جانب سے حرکت ضروری نہیں۔
(شرح کتاب التوحید للغنیمان: 269/1)

مختلف احادیث کے پیش نظر بندے سے اللہ تعالیٰ کے قرب کی دو قسمیں ہیں:
۔
اللہ تعالیٰ کا اہل ایمان کے دلوں کے قریب ہونا اور اہل ایمان کے دلوں کا اللہ تعالیٰ کےقریب ہونا۔
یہ ایسی حقیقت ہے کہ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
دلوں میں جس قدر ایمان، معرفت الٰہیہ اور اللہ تعالیٰ کی خشیت ہوگی اسی قدر وہ اللہ تعالیٰ کے قرب کی منازل طے کریں گے۔
۔
اس حدیث سے اللہ تعالیٰ کا ایک خاص قرب معلوم ہوتا ہے جس طرح عرفہ کے دن اور ہررات کے آخری حصے میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے قریب ہوتا ہے۔
یہ ایسا قرب ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر مستوی رہتے ہوئے بندوں کے قریب ہو جاتا ہے جہمیہ، معتزلہ اور اشاعرہ اس قرب خاص کا انکار کرتے ہیں اور ان کے انکار کی کوئی علمی بنیاد نہیں ہے۔
(شرح کتاب التوحید للغنیمان: 270/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7405