صحيح البخاري
كِتَاب التَّوْحِيدِ -- کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں
22. بَابُ: {وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ} ، {وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ} :
باب: (سورۃ ہود میں اللہ تعالیٰ کا فرمان) ”اور اس کا عرش پانی پر تھا“، ”اور وہ عرش عظیم کا رب ہے“۔
حدیث نمبر: 7424
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ هُوَ التَّيْمِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: وَرَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم" جالس، فلما غربت الشمس دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ، قَالَ: يَا أَبَا ذَرٍّ هَلْ تَدْرِي أَيْنَ تَذْهَبُ هَذِهِ؟، قَالَ: قُلْتُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَإِنَّهَا تَذْهَبُ تَسْتَأْذِنُ فِي السُّجُودِ فَيُؤْذَنُ لَهَا وَكَأَنَّهَا قَدْ قِيلَ لَهَا ارْجِعِي مِنْ حَيْثُ جِئْتِ، فَتَطْلُعُ مِنْ مَغْرِبِهَا، ثُمَّ قَرَأَ: 0 ذَلِكَ مُسْتَقَرٌّ لَهَا 0 فِي قِرَاءَةِ عَبْدِ اللَّهِ".
ہم سے یحییٰ بن جعفر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابومعاویہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے اور ان سے ابراہیم تیمی نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابوذر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں مسجد میں داخل ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے، پھر جب سورج غروب ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوذر! کیا تمہیں معلوم ہے یہ کہاں جاتا ہے؟ بیان کیا کہ میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول زیادہ جاننے والے ہیں۔ فرمایا کہ یہ جاتا ہے اور سجدہ کی اجازت چاہتا ہے پھر اسے اجازت دی جاتی ہے اور گویا اس سے کہا جاتا ہے کہ واپس وہاں جاؤ جہاں سے آئے ہو۔ چنانچہ وہ مغرب کی طرف سے طلوع ہوتا ہے، پھر آپ نے یہ آیت پڑھی «ذلك مستقر لها‏» عبداللہ رضی اللہ عنہ کی قرآت یوں ہی ہے۔
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3199  
´ سورج کا مغرب سے طلوع ہونا`
«. . . قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَبِي ذَرٍّ حِينَ غَرَبَتِ الشَّمْسُ تَدْرِي . . .»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سورج غروب ہوا تو ان سے پوچھا کہ تم کو معلوم ہے یہ سورج کہاں جاتا ہے؟ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ: 3199]

فہم الحدیث:
سورج کا مغرب سے طلوع ہونا قیامت کی دس بڑی بڑی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ وہ دس نشانیاں یہ ہیں: خروج دجال، ظہور مہدی، نزول عیسیٰ علیہ السلام، یاجوج ماجوج کا خروج، دھویں کا ظہور، دابة الارض کا خروج، مغرب سے طلوع شمس، تین خسف، آگ کا ظہور اور صرف بدترین لوگوں کا باقی رہ جانا۔ ایک روایت میں مغرب سے طلوع آفتاب کے ساتھ ساتھ دو اور نشانیوں کا بھی ذکر ہے کہ جب ان کا ظہور ہو گا تو کسی کو اس کا ایمان لانا فائدہ نہیں دے گا اور وہ دو نشانیاں دھوئیں کا ظور اور دابة الارض کا خروج ہے۔ [مسلم: كتاب الايمان: باب بيان الزمن الذى لا يقبل فيه الايمان: 396]
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 98   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3227  
´سورۃ یس سے بعض آیات کی تفسیر۔`
ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں مسجد میں سورج ڈوبنے کے وقت داخل ہوا، آپ وہاں تشریف فرما تھے۔ آپ نے فرمایا: ابوذر! کیا تم جانتے ہو یہ (سورج) کہاں جاتا ہے؟، ابوذر کہتے ہیں: میں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ہی کو معلوم، آپ نے فرمایا: وہ جا کر سجدہ کی اجازت مانگتا ہے تو اسے اجازت دے دی جاتی ہے تو ان اس سے کہا جاتا ہے وہیں سے نکلو جہاں سے آئے ہو۔ پھر وہ (قیامت کے قریب) اپنے ڈوبنے کی جگہ سے نکلے گا۔‏‏‏‏ ابوذر کہتے ہیں: پھر آپ نے «وذلك مستقر لها» یہی اس کے ٹھہرنے کی جگہ ہے پڑھا۔ راوی کہتے ہیں: یہی عبداللہ بن مسعود کی قرأت ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3227]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
مشہور قراء ت ہے ﴿وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَّهَا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ﴾  (يــس: 38)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3227   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4002  
´باب:۔۔۔`
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ردیف تھا آپ ایک گدھے پر سوار تھے اور غروب شمس کا وقت تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ یہ کہاں ڈوبتا ہے؟ میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «فإنها تغرب في عين حامية‏"‏» یہ ایک گرم چشمہ میں ڈوبتا ہے (سورۃ الکہف: ۸۶) ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الحروف والقراءات /حدیث: 4002]
فوائد ومسائل:
یہ حدیث صحیح الاسناد ہے اور سورہ کہف آیات: 82 میں مذکورہ (عَیِنُ میرے سے اگلا لفظ لکھا نہیں جارہا) کی دوسری قراءت (عَیِنُ میرے سے اگلا لفظلکھا نہیں جارہا) ہے۔
(دیکھیے گزشتہ روایت:3986)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4002   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7424  
7424. سیدنا ابو زر ؓ سے روایت ہے کہ میں (ایک مرتبہ) مسجد میں داخل ہوا تو رسول اللہ ﷺ وہاں تشریف فرما تھے۔ جب سورج غروب ہوا تو آپ نے فرمایا: اے ابو ذر! کیا تمہیں معلوم ہے کہ یہ (سورج) کہاں جاتا ہے؟ میں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ نےفرمایا: یہ جاتا ہے اور سجدے کی اجازت چاہتا ہے، پھر اسے اجازت دی جاتی ہے۔ گویا (ایک وقت آئے گا کہ) اسے کہا جائے گا: وہاں واپس جاؤ جہاں سے آئے ہو تو وہ مغرب کی طرف سے طلوع ہوگا۔ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: یہ اس کی گزرگاہ ہے سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ کی قراءت اسی طرح ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7424]
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث اوپرگزر چکی ہے۔
اس حدیث سے یہ نکلتا ہے کہ سورج حرکت کرتا ہے اورزمین ساکن ہے جیسے اگلے فلاسفہ کا قول تھا اور ممکن ہے کہ حرکت سے یہ مراد ہے کہ ظاہر میں جو سورج حرکت کرتا ہوا معلوم ہوتا ہے مگر اس صورت میں لوٹ جانے کا لفظ ذرہ غیر چسپاں ہوگا۔
دوسرا شبہ اس حدیث میں یہ ہےکہ طلوع اورغروب سورج کا باعتبار اختلاف اقالیم اور بلدان تو ہر آن میں ہو رہا ہے پھر لازم ہے کہ سورج ہرآن میں سجدہ کررہا ہو اوراجازت طلب کررہا ہو۔
اس کا جواب یہ ہےکہ بیشک ہر آن میں وہ ایک ملک میں طلوع دوسرے میں غروب ہو رہا ہے اور ہرآن میں اللہ تعالی کا سجدہ گزار اورطالب حکم ہے۔
اس میں کوئی استبعاد نہیں۔
سجدے سے سجدہ تھوڑے مراد ہے جیسے آدمی سجدہ کرتا ہے بلکہ سجدہ قہری اورحالی یعنی اطاعت اوامر خداوندی۔
دوسری روایت میں ہےکہ وہ عرش کےتلے سجدہ کرتا ہے۔
یہ بھی بالکل صحیح ہے۔
معلوم ہوا پروردگار کاعرش بھی کروی ہے اورسورج ہرطرف سےاسکے تلے واقع ہے کیونکہ عرش تمام عالم کے وسط اورتمام عالم کومحیط ہے۔
اب یہ اشکال رہےگا۔
فإنھا تعلب لي تسجد تحت العرش میں حتی کے کیا معنی رہیں گے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ حتی یہاں تعلیل کے لیے ہے یعنی وہ اس لیے چل رہا ہےکہ وہ ہمیشہ عرش کےتلے سربسجود اورمطیع اوامر خداوندی رہے۔
نوٹ:
سائنسدانوں اور جغرافیہ دانوں کے مفروضے آئے روز بدلتے رہتے ہیں ہمیں اسی چیز پرایمان رکھنا جاہیے کہ سورج حرکت کرتا ہے اورسجدہ بھی، کیفیت اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔
(محمود الحسن اسد)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7424   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7424  
7424. سیدنا ابو زر ؓ سے روایت ہے کہ میں (ایک مرتبہ) مسجد میں داخل ہوا تو رسول اللہ ﷺ وہاں تشریف فرما تھے۔ جب سورج غروب ہوا تو آپ نے فرمایا: اے ابو ذر! کیا تمہیں معلوم ہے کہ یہ (سورج) کہاں جاتا ہے؟ میں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ نےفرمایا: یہ جاتا ہے اور سجدے کی اجازت چاہتا ہے، پھر اسے اجازت دی جاتی ہے۔ گویا (ایک وقت آئے گا کہ) اسے کہا جائے گا: وہاں واپس جاؤ جہاں سے آئے ہو تو وہ مغرب کی طرف سے طلوع ہوگا۔ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: یہ اس کی گزرگاہ ہے سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ کی قراءت اسی طرح ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7424]
حدیث حاشیہ:

ایک روایت میں ہے۔
سورج جاتا ہے اور عرش کے نیچے سجدہ کرتا ہے پھر اجازت طلب کرتا ہے تو اسے طلوع ہونے کی اجازت دی جاتی ہے قریب ہے کہ وہ سجدہ کرے لیکن اس کا سجدہ قبول نہ کیا جائے اور وہ طلوع کی اجازت مانگے تو اسے اجازت نہ دی جائے اور اسے کہا جائے جہاں سے آئے ہو وہاں واپس چلے جاؤ۔
اس وقت وہ مغرب کی طرف سے طلوع ہو گا۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
(وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ) (یٰس: 36۔
38)

اور سورج اپنی مقررہ گزر گاہ پر چل رہا ہے یہی زبردست علیم ہستی کا مقرر کردہ اندازہ ہے۔

ایک روایت میں ہے۔
"سورج کی گزر گاہ عرش کے نیچے ہے۔

اس حدیث سے دو باتوں کا پتا چلتا ہے۔
سائنس دانوں کا نظریہ ہے کہ سورج اور دوسرے سیاروں کی گردش کشش ثقل (Gravitation)
وہ قوت ہے جس سے زمین تمام اجسام کو اپنی طرف کھنچتی ہے)
اور مرکز گریز قوت (Centrifugal Force)
ایسی قوت ہے جو گردش سے پیدا ہوتی ہے اور ہر گھومتے ہوئے جسم کو محسوس ہوتی ہے اور یہ گردش کے مرکز کی مخالف سمت میں ہوتی ہے)
کا نتیجہ ہے جبکہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سیاروں کی گردش میں تصادم کا نہ ہونا اس بنا پرہے کہ اس نظام پر اللہ حکیم و خبیر کا کنٹرول ہے۔
یہ سب اجرام فلکی اللہ تعالیٰ کے حکم کے تحت گردش کر رہے ہیں اور ان کی مقررہ گردش میں کمی بیشی نہیں ہوتی۔
قیامت سے پہلے ایک ایسا وقت آنے والا ہے جب ان سیاروں کی گردش کا نظام تہ و بالا ہو جائے گا اور سورج مشرق کی بجائے مغرب سے طلوع ہوگا۔
اس کے بعد کائنات کا نظام ایک دھماکے سے دوچار ہو جائے گا۔
اور زمین و آسمان ٹکرا کر تباہ ہو جائیں گے۔
اس حدیث سے اللہ تعالیٰ کے عرش کی عظمت و رفعت اور وسعت کا پتا چلتا ہے کہ ایک سورج کی کیا بات ہے بلکہ کائنات کی ایک ایک چیز اس کے عرش تلے ہے اور اس کے نیچے اللہ کے حضور سجدہ ریز ہے نیز اللہ تعالیٰ کی طرف سے سپرد کردہ خدمت سر انجام دینے پر لگی ہوئی ہے۔
صحیح مسلم میں حدیث صحیح بخاری ذرا تفصیل سے آئی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں۔
حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تم جانتے ہو یہ سورج کہاں جاتا ہے؟ صحابہ نے کہا:
اللہ اور اس کے رسول ہی خوب جانتے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
یہ چلتا رہتا ہے یہاں تک کہ اپنے ٹھہرنے کی جگہ پر عرش کے نیچے آتا ہے وہاں سجدے میں گر پڑتا ہے۔
پھر اسی حال میں رہتا ہے حتی کہ اسے اٹھنے کا حکم ہوتا ہےاور کہا جاتا ہے کہ جہاں سے آیا وہیں لوٹ جا۔
وہ لوٹ جاتا ہے اور اپنے نکلنے کی جگہ سے طلوع ہوتا ہے پھر چلتا رہتا ہے یہاں تک کہ اپنے ٹھہرنے کی جگہ پر عرش کے نیچے آتا ہے اور سجدہ کرتا ہے پھر اسی حالت میں رہتا ہے یہاں تک کہ اس سے کہا جاتا ہے کہ اُٹھ جا اور جہاں سے آیا ہے وہیں لوٹ جا۔
وہ حسب معمول مشرق سے طلوع ہوتا ہے۔
لوگ اس کی چال میں کوئی فرق محسوس نہیں کرتے یہاں تک ایک ایسا دن آئے گا۔
کہ وہ عرش کے نیچے اپنے ٹھہرنے کی جگہ پر آئے گا تو اس سے کہا جائے گا۔
کہ اُٹھ جا اور مغرب کی طرف سے طلوع ہو پھر وہ مغرب کی طرف سے ہوگا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تم جانتے ہو ایسا کب ہو گا؟ یہ اس وقت ہو گا جب کسی کو جو پہلے ایمان نہ لایا ہو گا اس کا ایمان لانا فائدہ نہ دے گا اور جس نے اپنے ایمان کے زمانے میں اس سے پہلے نیک عمل نہ کیے ہوں گے تو اس وقت نیک عمل کرنا بھی فائدہ مند نہ ہو گا۔
(صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 399۔
(159)
قرآن کریم میں سورج کے علاوہ وہ چاند تاروں، پہاڑوں اور دوسری چیزوں کے سجدہ کرنے کا بھی ذکر ہے۔
اس سجدے کی کیفیت اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے ہمیں اس پر صرف ایمان لانا چاہیے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7424