صحيح البخاري
كِتَاب التَّوْحِيدِ -- کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں
26. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {إِنَّ اللَّهَ يُمْسِكُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ أَنْ تَزُولاَ} :
باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ فاطر میں) یہ فرمان کہ ”بلاشبہ اللہ آسمانوں اور زمین کو تھامے ہوئے ہے وہ اپنی جگہ سے ٹل نہیں سکتے“۔
حدیث نمبر: 7451
حَدَّثَنَا مُوسَى، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:" جَاءَ حَبْرٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ إِنَّ اللَّهَ يَضَعُ السَّمَاءَ عَلَى إِصْبَعٍ، وَالْأَرْضَ عَلَى إِصْبَعٍ، وَالْجِبَالَ عَلَى إِصْبَعٍ، وَالشَّجَرَ وَالْأَنْهَارَ عَلَى إِصْبَعٍ، وَسَائِرَ الْخَلْقِ عَلَى إِصْبَعٍ، ثُمَّ يَقُولُ بِيَدِهِ: أَنَا الْمَلِكُ، فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ سورة الأنعام آية 91.
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابراہیم نے، ان سے علقمہ نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ ایک یہودی عالم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: اے محمد! قیامت کے دن اللہ تعالیٰ آسمانوں کو ایک انگلی پر، زمین کو ایک انگلی پر، پہاڑوں کو ایک انگلی پر، درخت اور نہروں کو ایک انگلی پر اور تمام مخلوقات کو ایک انگلی پر رکھے گا۔ پھر اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے کہے گا کہ میں ہی بادشاہ ہوں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس دئیے اور یہ آیت پڑھی «وما قدروا الله حق قدره» (جو سورۃ الزمر میں ہے)۔
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 7451  
´اللہ تعالیٰ کا (سورۃ فاطر میں) یہ فرمان کہ بلاشبہ اللہ آسمانوں اور زمین کو تھامے ہوئے ہے وہ اپنی جگہ سے ٹل نہیں سکتے`
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:" جَاءَ حَبْرٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ إِنَّ اللَّهَ يَضَعُ السَّمَاءَ عَلَى إِصْبَعٍ، وَالْأَرْضَ عَلَى إِصْبَعٍ، وَالْجِبَالَ عَلَى إِصْبَعٍ، وَالشَّجَرَ وَالْأَنْهَارَ عَلَى إِصْبَعٍ، وَسَائِرَ الْخَلْقِ عَلَى إِصْبَعٍ، ثُمَّ يَقُولُ بِيَدِهِ: أَنَا الْمَلِكُ، فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ سورة الأنعام آية 91 . . .»
. . . عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ ایک یہودی عالم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: اے محمد! قیامت کے دن اللہ تعالیٰ آسمانوں کو ایک انگلی پر، زمین کو ایک انگلی پر، پہاڑوں کو ایک انگلی پر، درخت اور نہروں کو ایک انگلی پر اور تمام مخلوقات کو ایک انگلی پر رکھے گا۔ پھر اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے کہے گا کہ میں ہی بادشاہ ہوں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس دئیے اور یہ آیت پڑھی «وما قدروا الله حق قدره» (جو سورۃ الزمر میں ہے)۔ [صحيح البخاري/كِتَاب التَّوْحِيدِ: 7451]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 7451باب: «بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {إِنَّ اللَّهَ يُمْسِكُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ أَنْ تَزُولاَ}

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ کا بظاہر باب سے کیا مراد ہے اس کی وضاحت اس باب میں نہیں ہے اور نہ اس جگہ پر موجود ہے، دراصل امام بخاری رحمہ اللہ «امساك السمٰوٰت» یعنی آسمانوں کا تھامنا سابقہ باب سے ثابت فرمارہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا آسمانوں اور زمینوں کو تھامنا دراصل اس کی رحمت کے ساتھ ملحق ہے، سابقہ باب جو اللہ تعالیٰ کی رحمت پر قائم فرمایا ہے ممکن ہے کہ اس باب میں اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہو کیوں کہ سابقہ باب صفۃ الرحمۃ کے ساتھ دلیل رکھتا ہے، اس مناسبت کی توجیہ کا اشارہ قرآن مجید کی آیت کے ذریعے بھی ممکن ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
« ﴿وَيُمْسِكُ السَّمَاءَ أَنْ تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ إِلَّا بِإِذْنِهِ إِنَّ اللّٰهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَحِيمٌ﴾ » [الحج: 65]
وہی آسمان کو تھامے ہوئے ہے کہ زمین پر اس کی اجازت کے بغیر گر نہ پڑے، بے شک اللہ تعالیٰ لوگوں پر شفقت اور نرمی کرنے والا اور مہربان ہے۔
آیت مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں کو اپنی رحمت سے تھامے ہوئے ہے، اور یہ بھی احتمال ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ امساک کی تفسیر جو آیت میں ہے حدیث کے ذریعے کر رہے ہوں۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 323   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7451  
7451. سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ایک یہودی عالم رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا: اے محمد! قیامت کے دن اللہ تعالیٰ آسمانوں کو ایک انگلی پر زمین کو ایک انگلی پر، پہاڑوں کو ایک انگلی پر رکھے گا پھر اپنے ہاتھ سے اشارہ کرنے کہے گا: میں ہی بادشاہ ہوں۔ اس پر رسول اللہﷺ ہنس دیے اور (بطور تصدیق) یہ آیت پڑھی: اور انہوں نے اللہ کی قدر نہیں کی جس طرح اس کی قدر کرنے کا حق ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7451]
حدیث حاشیہ:
اللہ کے لیے انگلی کا اثبات ہواجس کی تاویل کرنا طریقہ سلف صالحین کے خلاف ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7451   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7451  
7451. سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ایک یہودی عالم رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا: اے محمد! قیامت کے دن اللہ تعالیٰ آسمانوں کو ایک انگلی پر زمین کو ایک انگلی پر، پہاڑوں کو ایک انگلی پر رکھے گا پھر اپنے ہاتھ سے اشارہ کرنے کہے گا: میں ہی بادشاہ ہوں۔ اس پر رسول اللہﷺ ہنس دیے اور (بطور تصدیق) یہ آیت پڑھی: اور انہوں نے اللہ کی قدر نہیں کی جس طرح اس کی قدر کرنے کا حق ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7451]
حدیث حاشیہ:

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کی عنوان سے مطابقت ان الفاظ میں بیان کی ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے جس کے الفاظ ہیں۔
"اللہ تعالیٰ قیامت کے دن آسمانوں کو ایک انگلی سے روک لے گا اور زمینوں کو دوسری انگلی پر۔
" (صحیح البخاري، التوحید، حدیث: 7414)
یعنی آیت اور حدیث میں آسمانوں اور زمین کو روک لینے کا ذکر ہے۔
(فتح الباري: 541/13)

ہمارے نزدیک امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بعض صفات ایسی ہیں جن سے باری تعالیٰ ازل سے ابد تک متصف ہے جیسا کہ سمع بصر اور علم وغیرہ اور بعض صفات ایسی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی مشیت اور ارادے پر موقوف ہیں۔
ان میں سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک صفت کا ذکر کیا ہے کہ وہ زمین و آسمان کو تھامے ہوئے ہے۔
پھر ایک وقت آئے گا کہ انھیں اپنی انگلیوں پر رکھ کر جھٹکا دے گا اور کہے گا۔
میں ہی بادشاہ ہوں آج متکبر و جبار اور بادشاہ کہاں ہیں؟3۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی صفات کا بیان برسر عام کرتے تھے اور سامعین کو سمجھانے کے لیے عملی مظاہرہ بھی کرتے تھے جبکہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ صفات کا بیان عام لوگوں کے سامنے نہ کیا جائے حالانکہ یہ موقف سیرت نبوی کے خلاف ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت کریمہ یہودی عالم کے بیان کی تصدیق کے لیے تلاوت فرمائی کیونکہ اس آیت میں قیامت کے دن زمین و آسمان کی وہی کیفیت بیان ہوئی ہے جسے یہودی عالم نے اپنے انداز سے بیان کیا تھا۔
(شرح کتاب التوحید للغنیمان: 202/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7451