صحيح البخاري
كِتَاب التَّوْحِيدِ -- کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں
28. بَابُ قَوْلِهِ تَعَالَى: {وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِينَ} :
باب: اللہ تعالیٰ کا فرمان (سورۃ والصافات میں) کہ ”ہم تو پہلے ہی اپنے بھیجے ہوئے بندوں کے باب میں یہ فرما چکے ہیں کہ ایک روز ان کی مدد ہو گی اور ہمارا ہی لشکر غالب ہو گا“۔
حدیث نمبر: 7456
حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:" كُنْتُ أَمْشِي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَرْثٍ بِالْمَدِينَةِ وَهُوَ مُتَّكِئٌ عَلَى عَسِيبٍ، فَمَرَّ بِقَوْمٍ مِنْ الْيَهُودِ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: سَلُوهُ عَنِ الرُّوحِ؟ وَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَا تَسْأَلُوهُ عَنِ الرُّوحِ، فَسَأَلُوهُ، فَقَامَ مُتَوَكِّئًا عَلَى الْعَسِيبِ وَأَنَا خَلْفَهُ، فَظَنَنْتُ أَنَّهُ يُوحَى إِلَيْهِ، فَقَال: وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلا قَلِيلا سورة الإسراء آية 85، فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: قَدْ قُلْنَا لَكُمْ لَا تَسْأَلُوهُ".
ہم سے یحییٰ بن جعفر نے بیان کیا، کہا ہم سے وکیع بن جراح نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے علقمہ نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ کے ایک کھیت میں جا رہا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک کھجور کی چھڑی پر ٹیکا لیتے جاتے تھے۔ پھر آپ یہودیوں کی ایک جماعت سے گزرے تو ان میں سے بعض نے بعض سے کہا کہ ان سے روح کے متعلق پوچھو اور بعض نے کہا کہ اس کے متعلق مت پوچھو۔ آخر انہوں نے پوچھا تو آپ چھڑی پر ٹیک لگا کر کھڑے ہو گئے اور میں آپ کے پیچھے تھا۔ میں نے سمجھ لیا کہ آپ پر وحی نازل ہو رہی ہے۔ چنانچہ آپ نے یہ آیت پڑھی «ويسألونك عن الروح قل الروح من أمر ربي وما أوتيتم من العلم إلا قليلا» اور لوگ آپ سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں، کہہ دیجئیے کہ روح میرے رب کے امر «مٰن» سے اور تمہیں علم بہت تھوڑا دیا گیا ہے۔ اس پر بعض یہودیوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ہم نے کہا نہ تھا کہ مت پوچھو۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 125  
´اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تشریح میں کہ تمہیں تھوڑا علم دیا گیا ہے`
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: بَيْنَا أَنَا أَمْشِي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي خَرِبِ الْمَدِينَةِ وَهُوَ يَتَوَكَّأُ عَلَى عَسِيبٍ مَعَهُ، فَمَرَّ بِنَفَرٍ مِنْ الْيَهُودِ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: سَلُوهُ عَنِ الرُّوحِ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَا تَسْأَلُوهُ، لَا يَجِيءُ فِيهِ بِشَيْءٍ تَكْرَهُونَهُ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَنَسْأَلَنَّهُ، فَقَامَ رَجُلٌ مِنْهُمْ، فَقَالَ: يَا أَبَا الْقَاسِمِ، مَا الرُّوحُ؟ فَسَكَتَ، فَقُلْتُ: إِنَّهُ يُوحَى إِلَيْهِ، فَقُمْتُ، فَلَمَّا انْجَلَى عَنْهُ، قَالَ: وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلا قَلِيلا . . .»
. . . عبداللہ بن مسعود سے روایت کیا، وہ کہتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ کے کھنڈرات میں چل رہا تھا اور آپ کھجور کی چھڑی پر سہارا دے کر چل رہے تھے، تو کچھ یہودیوں کا (ادھر سے) گزر ہوا، ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ آپ سے روح کے بارے میں کچھ پوچھو، ان میں سے کسی نے کہا مت پوچھو، ایسا نہ ہو کہ وہ کوئی ایسی بات کہہ دیں جو تمہیں ناگوار ہو (مگر) ان میں سے بعض نے کہا کہ ہم ضرور پوچھیں گے، پھر ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا، اے ابوالقاسم! روح کیا چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی اختیار فرمائی، میں نے (دل میں) کہا کہ آپ پر وحی آ رہی ہے۔ اس لیے میں کھڑا ہو گیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے (وہ کیفیت) دور ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (قرآن کی یہ آیت جو اس وقت نازل ہوئی تھی) تلاوت فرمائی (اے نبی!) تم سے یہ لوگ روح کے بارے میں پوچھ رہے ہیں۔ کہہ دو کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے۔ اور تمہیں علم کا بہت تھوڑا حصہ دیا گیا ہے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلاَّ قَلِيلاً: 125]

تشریح:
چونکہ توارۃ میں بھی روح کے متعلق یہ ہی بیان کیا گیا کہ وہ خدا کی طرف سے ایک چیز ہے، اس لیے یہودی معلوم کرنا چاہتے تھے کہ ان کی تعلیم بھی توراۃ کے مطابق ہے یا نہیں؟ یا روح کے سلسلہ میں یہ بھی ملاحدہ وفلاسفہ کی طرح دور از کار باتیں کہتے ہیں۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سوال آپ سے مکہ شریف میں بھی کیا گیا تھا، پھر مدینہ کے یہودی نے بھی اسے دہرایا۔ اہل سنت کے نزدیک روح جسم لطیف ہے جو بدن میں اسی طرح سرایت کئے ہوئے ہے، جس طرح گلاب کی خوشبو اس کے پھول میں سرایت کئے ہوتی ہے۔ روح کے بارے میں ستر اقوال ہیں۔

حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے کتاب الروح میں ان پر خوب روشنی ڈالی ہے۔ واقعہ یہی ہے کہ روح خالص ایک لطیف شئے ہے، اس لیے ہم اپنی موجودہ زندگی میں جو کثافت سے بھرپور ہے کسی طرح روح کی حقیقت سے واقف نہیں ہو سکتے، اکابر اہل سنت کی یہی رائے ہے کہ ادب کا تقاضا یہی ہے کہ روح کے بارے میں سکوت اختیار کیا جائے، بعض علماء کی رائے ہے کہ «من امر ربي» سے مراد روح کا عالم امر سے ہونا ہے جو عالم ملکوت ہے، جمہور کا اتفاق ہے کہ روح حادث ہے جس طرح دوسرے تمام اجزا حادث ہیں۔ حضرت امام قدس سرہ کا منشائے باب یہ ہے کہ کوئی شخص کتنا ہی بڑا عالم فاضل محدث مفسر بن جائے مگر پھر بھی انسانی معلومات کا سلسلہ بہت محدود ہے اور کوئی شخص نہیں کہہ سکتا کہ وہ جملہ علوم پر حاوی ہو چکا ہے۔ «الا من شاءالله»
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 125   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7456  
7456. سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ مدینہ طیبہ کے ایک کھیت میں جا رہا تھا جبکہ آپ ﷺ کھجور کی ایک چھڑی کے سہارے چل رہے تھے۔ آپ چند یہودیوں کے پاس سے گزرے تو انہوں نے ایک دوسرے سے کہا: ان سے روح کے متعلق دریافت کرو۔ ایک نے کہا: ان سے روح کے متعلق مت پوچھو۔ آخر انہوں نے آپ سے روح کے متعلق پوچھ ہی لیا تو آپ چھڑی پر ٹیک لگا کر کھڑے ہو گئے جبکہ میں آپ کے پیچھے تھا۔ میں سمجھ گیا کہ آپ پر وحی نازل ہو رہی ہے۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: اور لوگ آپ سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں۔ ان سے فرما دیں کہ روح تو میرے رب کا امر ہے اور تمہیں بہت کم علم دیا گیا ہے۔ پھر ان یہودیوں نے ایک دوسرے سے کہا: ہم نے تمہیں خبردار کر دیا تھا کہ ان سے کچھ نہ پوچھو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7456]
حدیث حاشیہ:
(تفصیل آئندہ آنے والی حدیث میں ملاحظہ ہو)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7456   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7456  
7456. سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ مدینہ طیبہ کے ایک کھیت میں جا رہا تھا جبکہ آپ ﷺ کھجور کی ایک چھڑی کے سہارے چل رہے تھے۔ آپ چند یہودیوں کے پاس سے گزرے تو انہوں نے ایک دوسرے سے کہا: ان سے روح کے متعلق دریافت کرو۔ ایک نے کہا: ان سے روح کے متعلق مت پوچھو۔ آخر انہوں نے آپ سے روح کے متعلق پوچھ ہی لیا تو آپ چھڑی پر ٹیک لگا کر کھڑے ہو گئے جبکہ میں آپ کے پیچھے تھا۔ میں سمجھ گیا کہ آپ پر وحی نازل ہو رہی ہے۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: اور لوگ آپ سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں۔ ان سے فرما دیں کہ روح تو میرے رب کا امر ہے اور تمہیں بہت کم علم دیا گیا ہے۔ پھر ان یہودیوں نے ایک دوسرے سے کہا: ہم نے تمہیں خبردار کر دیا تھا کہ ان سے کچھ نہ پوچھو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7456]
حدیث حاشیہ:

یہود نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جس روح کے متعلق سوال کیا تھا اس سے کیا مراد ہے؟ اس کے متعلق علمائے امت میں اختلاف ہے۔
مفسرین میں سے اکثریت کا کہنا ہے کہ اس سے مراد ارواح بنی آدم ہیں۔
جب وہ (روح)
اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو اسے عذاب کیوں ہوتا ہے؟ کچھ حضرات کا خیال ہے کہ اس سے مراد حضرت جبریل علیہ السلام ہیں بعض مفسرین کے خیال کے مطابق اس سے مراد وہ فرشتہ ہے جس کی جسامت تمام مخلوق کے برابر ہے۔
ہمارے نزدیک اس سے مراد وہ جان ہے جو ہر جاندار کے جسم میں ہوتی ہے اور جب تک وہ جسم میں موجود رہے جاندار زندہ رہتا ہے اور اس کے نکلنے سے وہ مر جاتا ہے انسان نے اس کے متعلق بہت تحقیق کی ہے تاہم ابھی تک اس کی حقیقت جاننے سے قاصر ہی رہا ہے۔

واضح رہے کہ قرآن نے اسے نفس سے تعبیر کیا ہے۔
اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ روح پر لفظ نفس کا اطلاق اس وقت ہوتا ہے جب وہ بدن میں موجود ہو اور جب نکل جائے تو اسے روح کہا جاتا ہے۔
آیت کریمہ میں "أمر" سے مراد مامور ہے۔
لغت عرب میں یہ استعمال عام ہے۔

اس حدیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ روح اللہ تعالیٰ کے امر سے ہے یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے پائی گئی ہے۔
امر اللہ روح نہیں بلکہ روح اس کی مخلوق ہے۔
اللہ تعالیٰ کا حکم روح سے پہلے ہے۔
اللہ تعالیٰ کے احکام کا تعلق اللہ کی صفات سے ہے جو قدیم ہیں البتہ روح سے اس کا تعلق حادث ہے اور روح اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے اور امر اللہ کے علاوہ ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7456