صحيح البخاري
كِتَاب التَّوْحِيدِ -- کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں
29. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {إِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَيْءٍ} :
باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ النحل میں) کہ ”ہم تو جب کوئی چیز بنانا چاہتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں ہو جا وہ ہو جاتی ہے“۔
حدیث نمبر: 7462
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ عَبْدِ الْوَاحِدِ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ:" بَيْنَا أَنَا أَمْشِي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ حَرْثِ الْمَدِينَةِ وَهُوَ يَتَوَكَّأُ عَلَى عَسِيبٍ مَعَهُ، فَمَرَرْنَا عَلَى نَفَرٍ مِنْ الْيَهُودِ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: سَلُوهُ عَنِ الرُّوحِ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَا تَسْأَلُوهُ أَنْ يَجِيءَ فِيهِ بِشَيْءٍ تَكْرَهُونَهُ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَنَسْأَلَنَّهُ، فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ مِنْهُمْ، فَقَالَ: يَا أَبَا الْقَاسِمِ مَا الرُّوحُ؟، فَسَكَتَ عَنْهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَعَلِمْتُ أَنَّهُ يُوحَى إِلَيْهِ، فَقَالَ: وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلا قَلِيلا سورة الإسراء آية 85، قَالَ الْأَعْمَشُ هَكَذَا فِي قِرَاءَتِنَا.
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے علقمہ بن قیس نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ کے ایک کھیت میں چل رہا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ کی چھڑی کا سہارا لیتے جاتے تھے، پھر ہم یہودیوں کی ایک جماعت کے پاس سے گزرے تو ان لوگوں نے آپس میں کہا کہ ان سے روح کے بارے میں پوچھو۔ کچھ یہودیوں نے مشورہ دیا کہ نہ پوچھو، کہیں کوئی ایسی بات نہ کہیں جس کا (ان کی زبان سے سننا) تم پسند نہ کرو۔ لیکن بعض نے اصرار کیا کہ نہیں! ہم پوچھیں گے۔ چنانچہ ان میں سے ایک نے اٹھ کر کہا: اے ابوالقاسم! روح کیا چیز ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس پر خاموش ہو گئے۔ میں نے سمجھ لیا کہ آپ پر وحی نازل ہو رہی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی «ويسألونك عن الروح قل الروح من أمر ربي وما أوتوا من العلم إلا قليلا‏» اور لوگ آپ سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ کہہ دیجئیے کہ روح میرے رب کے امر میں سے ہے اور تمہیں اس کا علم بہت تھوڑا دیا گیا ہے۔ اعمش نے کہا کہ ہماری قرآت میں اسی طرح ہے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 125  
´اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تشریح میں کہ تمہیں تھوڑا علم دیا گیا ہے`
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: بَيْنَا أَنَا أَمْشِي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي خَرِبِ الْمَدِينَةِ وَهُوَ يَتَوَكَّأُ عَلَى عَسِيبٍ مَعَهُ، فَمَرَّ بِنَفَرٍ مِنْ الْيَهُودِ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: سَلُوهُ عَنِ الرُّوحِ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَا تَسْأَلُوهُ، لَا يَجِيءُ فِيهِ بِشَيْءٍ تَكْرَهُونَهُ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَنَسْأَلَنَّهُ، فَقَامَ رَجُلٌ مِنْهُمْ، فَقَالَ: يَا أَبَا الْقَاسِمِ، مَا الرُّوحُ؟ فَسَكَتَ، فَقُلْتُ: إِنَّهُ يُوحَى إِلَيْهِ، فَقُمْتُ، فَلَمَّا انْجَلَى عَنْهُ، قَالَ: وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلا قَلِيلا . . .»
. . . عبداللہ بن مسعود سے روایت کیا، وہ کہتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ کے کھنڈرات میں چل رہا تھا اور آپ کھجور کی چھڑی پر سہارا دے کر چل رہے تھے، تو کچھ یہودیوں کا (ادھر سے) گزر ہوا، ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ آپ سے روح کے بارے میں کچھ پوچھو، ان میں سے کسی نے کہا مت پوچھو، ایسا نہ ہو کہ وہ کوئی ایسی بات کہہ دیں جو تمہیں ناگوار ہو (مگر) ان میں سے بعض نے کہا کہ ہم ضرور پوچھیں گے، پھر ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا، اے ابوالقاسم! روح کیا چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی اختیار فرمائی، میں نے (دل میں) کہا کہ آپ پر وحی آ رہی ہے۔ اس لیے میں کھڑا ہو گیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے (وہ کیفیت) دور ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (قرآن کی یہ آیت جو اس وقت نازل ہوئی تھی) تلاوت فرمائی (اے نبی!) تم سے یہ لوگ روح کے بارے میں پوچھ رہے ہیں۔ کہہ دو کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے۔ اور تمہیں علم کا بہت تھوڑا حصہ دیا گیا ہے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلاَّ قَلِيلاً: 125]

تشریح:
چونکہ توارۃ میں بھی روح کے متعلق یہ ہی بیان کیا گیا کہ وہ خدا کی طرف سے ایک چیز ہے، اس لیے یہودی معلوم کرنا چاہتے تھے کہ ان کی تعلیم بھی توراۃ کے مطابق ہے یا نہیں؟ یا روح کے سلسلہ میں یہ بھی ملاحدہ وفلاسفہ کی طرح دور از کار باتیں کہتے ہیں۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سوال آپ سے مکہ شریف میں بھی کیا گیا تھا، پھر مدینہ کے یہودی نے بھی اسے دہرایا۔ اہل سنت کے نزدیک روح جسم لطیف ہے جو بدن میں اسی طرح سرایت کئے ہوئے ہے، جس طرح گلاب کی خوشبو اس کے پھول میں سرایت کئے ہوتی ہے۔ روح کے بارے میں ستر اقوال ہیں۔

حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے کتاب الروح میں ان پر خوب روشنی ڈالی ہے۔ واقعہ یہی ہے کہ روح خالص ایک لطیف شئے ہے، اس لیے ہم اپنی موجودہ زندگی میں جو کثافت سے بھرپور ہے کسی طرح روح کی حقیقت سے واقف نہیں ہو سکتے، اکابر اہل سنت کی یہی رائے ہے کہ ادب کا تقاضا یہی ہے کہ روح کے بارے میں سکوت اختیار کیا جائے، بعض علماء کی رائے ہے کہ «من امر ربي» سے مراد روح کا عالم امر سے ہونا ہے جو عالم ملکوت ہے، جمہور کا اتفاق ہے کہ روح حادث ہے جس طرح دوسرے تمام اجزا حادث ہیں۔ حضرت امام قدس سرہ کا منشائے باب یہ ہے کہ کوئی شخص کتنا ہی بڑا عالم فاضل محدث مفسر بن جائے مگر پھر بھی انسانی معلومات کا سلسلہ بہت محدود ہے اور کوئی شخص نہیں کہہ سکتا کہ وہ جملہ علوم پر حاوی ہو چکا ہے۔ «الا من شاءالله»
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 125   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7462  
7462. سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں ایک دفعہ مدینہ طیبہ کے ایک کھیت میں نبی ﷺ کے ہمراہ چل رہا تھا اور آپ اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی چھڑی کا سہارا لیے جا رہے تھے۔ اتنے میں ہم یہودیوں کی ایک جماعت کے پاس سے گزرے تو انہوں نے آپس میں کہا: ان سے روح کے متعلق پوچھو۔ان میں سے کچھ لوگوں نے کہا: ان سے نہ پوچھو، مبادا ایسا جواب دیں جو تمہیں ناگوار ہو، اس کے باوجود کچھ یہودیوں نے کہا: ہم ضرور پوچھیں گے چنانچہ ان میں سے ایک آدمی نے اٹھ کر کہا: ہم ضرور پوچھیں گے چنانچہ ان میں سے ایک آدمی نے اٹھ کر کہا: اے ابو القاسم! روح کیا چیز ہے؟ نبی ﷺ اس (کو جواب دینے) سے خاموش رہے تو مجھے معلوم ہو گیا کہ آپ پر وحی نازل ہو رہی ہے پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: وہ آپ سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں، کہہ دیجیے روح میرے رب کا امر ہے اور تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔ اعمش نے کہا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7462]
حدیث حاشیہ:
مشہورقراءت میں وما أوتیتم ہے۔
روح کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا وہ حقیقت ہے کہ اس قدر کدو کاوش کے باوجود آج تک دنیا کو روح کا حقیقی علم نہ ہو سکا۔
یہودی اس معقول جواب کو سن کر بالکل خاموش ہوگئے کیونکہ آگے قیل وقال کا دروازہ ہی بند کر دیا گیا۔
آیت (قُلْ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي)
میں روح کی حقیقت کو واضح کر دیا گیا کہ وہ جاندار بے قدر و بے قیمت ہوکر رہ جاتا ہے۔
روح کے بارے میں فلاسفہ اور موجودہ سائنس دانوں نے حو کچھ کہا ہے وہ سب تخمینی باتیں ہیں چونکہ یہ سلسلہ ذکرروح حدیث میں امر رب کا ذکر ہے اسی لیے اس حدیث کو یہاں لایا گیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7462   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7462  
7462. سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں ایک دفعہ مدینہ طیبہ کے ایک کھیت میں نبی ﷺ کے ہمراہ چل رہا تھا اور آپ اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی چھڑی کا سہارا لیے جا رہے تھے۔ اتنے میں ہم یہودیوں کی ایک جماعت کے پاس سے گزرے تو انہوں نے آپس میں کہا: ان سے روح کے متعلق پوچھو۔ان میں سے کچھ لوگوں نے کہا: ان سے نہ پوچھو، مبادا ایسا جواب دیں جو تمہیں ناگوار ہو، اس کے باوجود کچھ یہودیوں نے کہا: ہم ضرور پوچھیں گے چنانچہ ان میں سے ایک آدمی نے اٹھ کر کہا: ہم ضرور پوچھیں گے چنانچہ ان میں سے ایک آدمی نے اٹھ کر کہا: اے ابو القاسم! روح کیا چیز ہے؟ نبی ﷺ اس (کو جواب دینے) سے خاموش رہے تو مجھے معلوم ہو گیا کہ آپ پر وحی نازل ہو رہی ہے پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: وہ آپ سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں، کہہ دیجیے روح میرے رب کا امر ہے اور تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔ اعمش نے کہا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7462]
حدیث حاشیہ:

مشہور قراءت میں (وَمَا أُوتِيتُم)
ہے یعنی تمھیں بہت تھوڑا علم دیا گیا البتہ امام اعمش کی قراءت میں (وَمَا أُوتُوا)
یعنی ماضی غائب کا صیغہ ہے اور یہ قراءت شاذ ہے۔

روح کے متعلق اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا ہے وہ حقیقت پر مبنی ہے۔
فلا سفہ نے اس کے متعلق جو کہا ہے وہ سب تخمینی جو کہا ہے وہ سب تخمینی باتیں ہیں موجود سائنس دانوں کو سخت محنت کے باوجود اس کے متعلق کوئی حقیقی علم نہیں ہو سکا۔
اس وقت کے یہودی اس معقول جواب کو سب کر بالکل خاموش ہو گئے کیونکہ اس جواب نے قیل و قال کا دروازہ ہی بند کر دیا آیت کریمہ میں روح کی حقیقت کو واضح کر دیا گیا ہے کہ وہ ایک امر رب ہے جب تک وہ کسی حیوان میں ہے اس کی قدر و قیمت ہے اور جب وہ اس سے الگ ہو جاتی ہے تو وہی حیوان بے قدر اور بے قیمت ہو کر رہ جاتا ہے۔
یہودیوں کا مقصد یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا امتحان لیا جائے کیونکہ ان کی کتابوں میں لکھا ہے کہ روح کی حقیقت کوئی شخص نہیں جانتا اگر یہ حضرت اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں تو روح کی حقیقت بیان نہیں کریں گے۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مذکورہ حدیث میں ذکر کردہ آیت کریمہ سے اپنا مدعا ثابت کیا ہے کہ روح کا وجود اللہ تعالیٰ کے امر کے مرہون منت ہے۔
اللہ تعالیٰ کا امر ایک الگ حقیقت ہے جو غیر مخلوق ہے اور روح جو اس کی وجہ سے معرض وجود میں آئی ہے وہ مخلوق ہے اور اللہ تعالیٰ کا امر اس روح کی تخلیق سے پہلے موجود تھا البتہ اس امر کا تعلق اس روح سے حادث ہے۔
اس روح کو اللہ تعالیٰ نے کلمہ کن سے ہی پیدا کیا ہے۔
یہی بات عنوان میں بیان کی گئی ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7462