صحيح البخاري
كِتَاب التَّوْحِيدِ -- کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں
31. بَابٌ في الْمَشِيئَةِ وَالإِرَادَةِ:
باب: مشیت اور ارادہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 7465
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ. ح وحَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنِي أَخِي عَبْدُ الْحَمِيدِ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي عَتِيقٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ، أَنَّ حُسَيْنَ بْنَ عَلِيٍّ عَلَيْهِمَا السَّلَام أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" طَرَقَهُ وَفَاطِمَةَ بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً، فَقَالَ لَهُمْ: أَلَا تُصَلُّونَ؟، قَالَ عَلِيٌّ: فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّمَا أَنْفُسُنَا بِيَدِ اللَّهِ، فَإِذَا شَاءَ أَنْ يَبْعَثَنَا بَعَثَنَا، فَانْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ قُلْتُ ذَلِكَ وَلَمْ يَرْجِعْ إِلَيَّ شَيْئًا، ثُمَّ سَمِعْتُهُ وَهُوَ مُدْبِرٌ يَضْرِب فَخِذَهُ، وَيَقُولُ: وَكَانَ الإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلا سورة الكهف آية 54.
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، (دوسری سند) اور ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے میرے بھائی عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے سلیمان نے، ان سے محمد بن ابی عتیق نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے علی بن حسین نے بیان کیا، حسین بن علی رضی اللہ عنہ نے انہیں خبر دی اور نہیں علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے اور فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر رات میں تشریف لائے اور ان سے کہا کیا تم لوگ نماز تہجد نہیں پڑھتے۔ علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہماری جانیں اللہ کے ہاتھ میں ہیں، جب وہ ہمیں اٹھانا چاہے گا اٹھا دے گا۔ جب میں نے یہ بات کہی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپس چلے گے اور مجھے کوئی جواب نہیں دیا۔ البتہ میں نے آپ کو واپس جاتے وقت یہ کہتے سنا۔ آپ اپنی ران پر ہاتھ مار کر یہ فرما رہے تھے «وكان الإنسان أكثر شىء جدلا‏» کہ انسان بڑا ہی بحث کرنے والا ہے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7465  
7465. سیدنا علی ؓ سے روایت ہے انہوں نے بتایا کہ ایک رات رسول اللہﷺ ان کے اور اپنی لخت جگر سیدہ فاظمہ‬ ؓ ک‬ے گھر تشریف لے گئے اور ان سے فرمایا: تم لوگ (تہجد کی) نماز کیوں نہیں پڑھتے؟ سیدنا علی بن ابی طالب ؓ کہتے ہیں کہ میں نے جواب دیا: اللہ کے رسول! ہمارے نفس اللہ کے ہاتھ میں ہیں وہ جب ہمیں اٹھانا چاہے گا اٹھا دے گا۔ جن میں نے یہ بات کہی تو رسول اللہ ﷺ واپس چلے گئے اور مجھے کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر میں نے آپ کو واپس جاتے ہوئے کہتے سنا جبکہ آپ اپنی ران پر ہاتھ مار کر یہ فرما رہے تھے: انسان ہمیشہ سے تمام چیزوں سے زیادہ جھگڑالو ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7465]
حدیث حاشیہ:
یہ سورۂ کہف کی آیت (وَكَانَ الْإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا) (الکهف: 54)
کا ترجمہ ہے حضرت علی کا جواب حقیقت کے لحاظ سے تو صحیح تھا۔
مگر ادب کا تقاضا یہ تھا کہ اس نماز کی توفیق کے لیے اللہ سے دعا کرتے اورآنخضرت ﷺ سےکراتے تو بہترہوتا اور رسول کریم ﷺ بھی خوش خوش لوٹتے مگر (وَكَانَ الْإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا)
باب اور جملہ احادیث سےحضرت امام بخاری  کا مقصد جبریہ قدریہ معتزلہ جیسے گمراہ فرقوں کی تردید کرنا ہے جو مشیت اور ارادہ الہی میں فرق کرتے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7465   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7465  
7465. سیدنا علی ؓ سے روایت ہے انہوں نے بتایا کہ ایک رات رسول اللہﷺ ان کے اور اپنی لخت جگر سیدہ فاظمہ‬ ؓ ک‬ے گھر تشریف لے گئے اور ان سے فرمایا: تم لوگ (تہجد کی) نماز کیوں نہیں پڑھتے؟ سیدنا علی بن ابی طالب ؓ کہتے ہیں کہ میں نے جواب دیا: اللہ کے رسول! ہمارے نفس اللہ کے ہاتھ میں ہیں وہ جب ہمیں اٹھانا چاہے گا اٹھا دے گا۔ جن میں نے یہ بات کہی تو رسول اللہ ﷺ واپس چلے گئے اور مجھے کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر میں نے آپ کو واپس جاتے ہوئے کہتے سنا جبکہ آپ اپنی ران پر ہاتھ مار کر یہ فرما رہے تھے: انسان ہمیشہ سے تمام چیزوں سے زیادہ جھگڑالو ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7465]
حدیث حاشیہ:

انسان کی یہ عادت ہے کہ وہ جس بات کو نہ ماننے کا تہیہ کر لے اس پر طرح طرح کے اعتراض وارد کرتا ہے اور مختلف حیلوں بہانوں سےعذ رگناہ بدتر از گناہ کے طور پر جواب پیش کرتا ہے۔
اس غرض کے لیے سب سے عمدہ بہانہ مشیت الٰہی کا ہوتا ہے۔
مشیت الٰہی کو اپنے بچاؤ کے لیے ڈھال بنانے والے عموماً یہ بات بھول جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت اور اللہ تعالیٰ کی رضا میں بہت فرق ہے۔
مثلاً:
اللہ تعالیٰ کی رضا اس بات میں ہے کہ سب لوگ اس کے فرمانبردار بن جائیں اور کوئی شخص بھی کفرو شرک اور ظلم و زیادتی کا راستہ اختیار نہ کرے مگر اس کی مشیت یہ ہے کہ اس دنیا میں لوگوں کا امتحان لیا جائے اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو قوت تمیز اور قوت ارادہ عطا فرمائی ہے پھر جو شخص اپنے اختیار و ارادے سے اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار ہوا اسے اچھا بدلہ دیا جائے گا۔
اور جس نے کفر وشرک کا راستہ اختیار کیا اسے سزا دی جائے گی۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ہدایت کے راستے پر چلنا مشیت الٰہی بھی ہے اور رضائے الٰہی بھی مگر کفر و شرک کا راستہ اختیار کرنا مشیت الٰہی تو ہے لیکن رضائے الٰہی نہیں۔
مشیت الٰہی کو بہانہ بنانے کی مثال مذکورہ حدیث میں بیان ہوئی ہے۔

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جواب حقیقت کے لحاظ سے تو صحیح تھا اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جواب نہیں دیا۔
البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات پر افسوس ہوا کہ عمل کرنے کا اختیار انسان کو دیا گیا ہے اسے کیوں نظر انداز کردیا گیا۔
ادب کا تقاضا یہ تھا کہ نماز تہجد کی توفیق کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اس دعا کی اپیل کرتے اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خوش خوش واپس ہوتے۔

اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ مشیت الٰہی کو بطور بہانہ استعمال کرنا صرف ضدی اور ہٹ دھرم لوگوں ہی کا کام نہیں بلکہ بعض دفعہ ایک نیکوکار مومن بھی اپنے آپ کو حق بجانب ثابت کرنے کے لیے اسے استعمال کر لیتا ہے حالانکہ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق مشرکین نے اپنے شرک کے جواز میں اسی مشیت الٰہی کو بطور بہانہ استعمال کیا تھا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
مشرک کہیں گے۔
اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم شرک کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہم کوئی چیز حرام ٹھہراتے۔
(الأنعام: 148)
بہر حال لوگوں پر شریعت کے احکام کی متابعت لازم ہے۔
اس متابعت کو مشیت الٰہی کی بھینٹ نہیں چڑھانا چاہیے۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے جبر یہ قدریہ اور معتزلہ کی تردید کی ہے جو مشیت اور ارادے میں فرق کرتے ہیں۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7465