صحيح البخاري
كِتَاب التَّوْحِيدِ -- کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں
31. بَابٌ في الْمَشِيئَةِ وَالإِرَادَةِ:
باب: مشیت اور ارادہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 7467
حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" وَهُوَ قَائِمٌ عَلَى الْمِنْبَرِ، يَقُولَ: إِنَّمَا بَقَاؤُكُمْ فِيمَا سَلَفَ قَبْلَكُمْ مِنَ الْأُمَمِ كَمَا بَيْنَ صَلَاةِ الْعَصْرِ إِلَى غُرُوبِ الشَّمْسِ أُعْطِيَ أَهْلُ التَّوْرَاةِ التَّوْرَاةَ، فَعَمِلُوا بِهَا حَتَّى انْتَصَفَ النَّهَارُ ثُمَّ عَجَزُوا، فَأُعْطُوا قِيرَاطًا قِيرَاطًا، ثُمَّ أُعْطِيَ أَهْلُ الْإِنْجِيلِ الْإِنْجِيلَ، فَعَمِلُوا بِهِ حَتَّى صَلَاةِ الْعَصْرِ ثُمَّ عَجَزُوا، فَأُعْطُوا قِيرَاطًا قِيرَاطًا، ثُمَّ أُعْطِيتُمُ الْقُرْآنَ، فَعَمِلْتُمْ بِهِ حَتَّى غُرُوبِ الشَّمْسِ، فَأُعْطِيتُمْ قِيرَاطَيْنِ قِيرَاطَيْنِ، قَالَ أَهْلُ التَّوْرَاةِ: رَبَّنَا هَؤُلَاءِ أَقَلُّ عَمَلًا وَأَكْثَرُ أَجْرًا، قَالَ: هَلْ ظَلَمْتُكُمْ مِنْ أَجْرِكُمْ مِنْ شَيْءٍ قَالُوا: لَا، فَقَالَ: فَذَلِكَ فَضْلِي أُوتِيهِ مَنْ أَشَاءُ".
ہم سے حکم بن نافع نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، کہا مجھ کو سالم بن عبداللہ نے خبر دی اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ منبر پر کھڑے فرما رہے تھے کہ تمہارا زمانہ گزشتہ امتوں کے مقابلہ میں ایسا ہے جیسے عصر سے سورج ڈوبنے تک کا وقت ہوتا ہے۔ توریت والوں کو توریت دی گئی اور انہوں نے اس پر عمل کیا، یہاں تک کہ دن آدھا ہو گیا۔ پھر وہ عاجز ہو گئے تو انہیں اس کے بدلے میں ایک قیراط دیا گیا۔ پھر اہل انجیل کو انجیل دی گئی تو انہوں نے اس پر عصر کی نماز کے وقت تک عمل کیا اور پھر وہ عمل سے عاجز آ گئے تو انہیں بھی ایک ایک قیراط دیا گیا۔ پھر تمہیں قرآن دیا گیا اور تم نے اس پر سورج ڈوبنے تک عمل کیا اور تمہیں اس کے بدلے میں دو دو قیراط دئیے گئے۔ اہل توریت نے اس پر کہا کہ اے ہمارے رب! یہ لوگ مسلمان سب سے کم کام کرنے والے اور سب سے زیادہ اجر پانے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر فرمایا کہ کیا میں نے تمہیں اجر دینے میں کوئی ناانصافی کی ہے؟ وہ بولے کہ نہیں! تو اللہ تعالیٰ فرمایا کہ یہ تو میرا فضل ہے، میں جس پر چاہتا ہوں کرتا ہوں۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7467  
7467. سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ منبر پر کھڑے فرما رہے تھے: تمہارا زمانہ امتوں کے مقابلے میں ایسا ہے جیسا کہ نماز عصر سے غروب آفتاب تک کا وقت ہے۔ اہل تورات کو تورات دی گئی اور انہوں نے اس پر عمل کیا یہاں تک کہ آدھا دن گزر گیا، پھر وہ عاجز آگئے۔ انہیں ایک ایک قیراط اجرت دی گئی۔ پھر انجیل والوں کو انجییل دی گئی۔ انہوں نے اس پر عصر کی نماز تک عمل کیا۔ پھر وہ اس پر عمل سے عاجز آگئے تو انہیں بھی ایک ایک قیراط دے دیا گیا۔ اس کے بعد تمہیں قرآن دیا گیا اور تم نے اس پر غروب آفتاب تک عمل کیا تو تمہیں دو دو قیراط دیے گئے۔ اہل تورات نے کہا: اے ہمارے رب! ان لوگوں نے کام تھوڑا کیا لیکن اجرت زیادہ پائی ہے۔ اللہ تعالیٰ نےفرمایا: میں نے تمہاری اجرت زیادہ پائی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں نے تمہاری اجرت میں کوئی کمی کی ہے؟ انہوں نے کہا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7467]
حدیث حاشیہ:
اس رویت میں اتنا ہے کہ توراۃ والوں نے یہ کہا اور ان کا وقت مسلمانوں کے وقت سے زیادہ ہونے میں کچھ شبہ نہیں جس روایت میں ہے کہ یہود اورنصاریٰ دونوں نے یہ کہا اس سے حنفیہ نے دلیل لی ہے کہ عصر کی نماز کا وقت دو مثل سایہ سے شروع ہوتا ہے مگر یہ استدلال صحیح نہیں ہے اور اس روایت کے الفاظ پر تو اس استدلال کا کوئی محل ہی نہیں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7467   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7467  
7467. سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ منبر پر کھڑے فرما رہے تھے: تمہارا زمانہ امتوں کے مقابلے میں ایسا ہے جیسا کہ نماز عصر سے غروب آفتاب تک کا وقت ہے۔ اہل تورات کو تورات دی گئی اور انہوں نے اس پر عمل کیا یہاں تک کہ آدھا دن گزر گیا، پھر وہ عاجز آگئے۔ انہیں ایک ایک قیراط اجرت دی گئی۔ پھر انجیل والوں کو انجییل دی گئی۔ انہوں نے اس پر عصر کی نماز تک عمل کیا۔ پھر وہ اس پر عمل سے عاجز آگئے تو انہیں بھی ایک ایک قیراط دے دیا گیا۔ اس کے بعد تمہیں قرآن دیا گیا اور تم نے اس پر غروب آفتاب تک عمل کیا تو تمہیں دو دو قیراط دیے گئے۔ اہل تورات نے کہا: اے ہمارے رب! ان لوگوں نے کام تھوڑا کیا لیکن اجرت زیادہ پائی ہے۔ اللہ تعالیٰ نےفرمایا: میں نے تمہاری اجرت زیادہ پائی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں نے تمہاری اجرت میں کوئی کمی کی ہے؟ انہوں نے کہا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7467]
حدیث حاشیہ:

قیراط ایک مقررہ حصے کا نام ہے جو نصف دانق اور موجودہ اعشاری نظام کے مطابق 1.255 ملی گرام کے برابر ہوتا ہے۔
بعض اوقات قیراط سے کثیر مقدار بھی مراد لی جاتی ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ جس نے جنازے میں شرکت کی اسے ایک قیراط اور جو دفن کرنے تک ساتھ رہا اسے دو قیراط ملیں گے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ دو قیراط کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
قیراط بڑے بڑے دو پہاڑوں کے برابر ہیں۔
(صحیح البخاري، الجنائز، حدیث: 1325)
اس حدیث کے آخر میں ہے کہ میں جس پر چاہتا ہوں اپنا فضل کرتا ہوں۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث کے اس حصے سے عنوان ثابت کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی مشیت نافذ ہو کر رہتی ہے۔
یہ کسی عرف یا قاعدے کی محتاج نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے اور جو نہیں چا ہتا وہ نہیں ہوتا لیکن معتزلہ اور ان کے ہم مسلک اللہ تعالیٰ پر اپنے عقلی فیصلے ٹھونسنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو ایسا کرنا چاہیے اللہ تعالیٰ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے یعنی اللہ تعالیٰ کو چاہیے کہ وہ گناہ گار کو سزا دے اور فرمانبردار کو جزا دے۔
حالانکہ یہ تمام باتیں اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہیں۔
وہ چاہے تو ایک نیک اور پارسا عورت کو بلا وجہ گھر میں بلی باندھنے کی وجہ سے جہنم میں بھیج دے اور اگر چاہے تو ایک بدکار عورت کو محض کتے کو پانی پلانے کی وجہ سے معاف کر دے اور جنت کا پروانہ عطا کر دے۔
بہر حال اللہ تعالیٰ کی مشیت تمام عالم رنگ و بو میں کار فرما ہے۔
اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے اسے کوئی روکنے یا عاجز کرنے والا نہیں ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7467