صحيح البخاري
كِتَاب التَّوْحِيدِ -- کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں
31. بَابٌ في الْمَشِيئَةِ وَالإِرَادَةِ:
باب: مشیت اور ارادہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 7469
حَدَّثَنَا مُعَلَّى بْنُ أَسَدٍ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،" أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ سُلَيْمَانَ عَلَيْهِ السَّلَام كَانَ لَهُ سِتُّونَ امْرَأَةً، فَقَالَ: لَأَطُوفَنَّ اللَّيْلَةَ عَلَى نِسَائِي، فَلْتَحْمِلْنَ كُلُّ امْرَأَةٍ وَلْتَلِدْنَ فَارِسًا يُقَاتِلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَطَافَ عَلَى نِسَائِهِ فَمَا وَلَدَتْ مِنْهُنَّ إِلَّا امْرَأَةٌ وَلَدَتْ شِقَّ غُلَامٍ، قَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَوْ كَانَ سُلَيْمَانُ اسْتَثْنَى لَحَمَلَتْ كُلُّ امْرَأَةٍ مِنْهُنَّ، فَوَلَدَتْ فَارِسًا يُقَاتِلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ".
ہم سے معلی بن اسد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا، ان سے ایوب نے بیان کیا، ان سے محمد نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اللہ کے نبی سلیمان علیہ السلام کی ساٹھ بیویاں تھیں تو انہوں نے کہا کہ آج رات میں تمام بیویوں کے پاس جاؤں گا اور ہر بیوی حاملہ ہو گی اور پھر ایسا بچہ جنے گی جو شہسوار ہو گا اور اللہ کے راستے میں لڑے گا۔ چنانچہ وہ اپنی تمام بیویوں کے پاس گئے۔ لیکن صرف ایک بیوی کے یہاں بچہ پیدا ہوا اور وہ بھی ادھورا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر سلیمان علیہ السلام نے ان شاءاللہ کہہ دیا ہوتا تو پھر ہر بیوی حاملہ ہوتی اور شہسوار جنتی جو اللہ کے راستے میں جہاد کرتا۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2819  
´سلیمان علیہ السلام کا فرمانا کہ آج رات اپنی سو بیویوں کے پاس جاؤں گا `
«. . . سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ عَلَيْهِمَا السَّلَام:" لَأَطُوفَنَّ اللَّيْلَةَ عَلَى مِائَةِ امْرَأَةٍ أَوْ تِسْعٍ وَتِسْعِينَ كُلُّهُنَّ يَأْتِي بِفَارِسٍ يُجَاهِدُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَقَالَ: لَهُ صَاحِبُهُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، فَلَمْ يَقُلْ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، فَلَمْ يَحْمِلْ مِنْهُنَّ إِلَّا امْرَأَةٌ وَاحِدَةٌ جَاءَتْ بِشِقِّ رَجُلٍ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَوْ قَالَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ لَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فُرْسَانًا أَجْمَعُونَ .»
۔۔۔ سلیمان بن داؤد علیہما السلام نے فرمایا آج رات اپنی سو یا (راوی کو شک تھا) ننانوے بیویوں کے پاس جاؤں گا اور ہر بیوی ایک ایک شہسوار جنے گی جو اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کریں گے۔ ان کے ساتھی نے کہا کہ ان شاءاللہ بھی کہہ لیجئے لیکن انہوں نے ان شاءاللہ نہیں کہا۔ چنانچہ صرف ایک بیوی حاملہ ہوئیں اور ان کے بھی آدھا بچہ پیدا ہوا۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے اگر سلیمان علیہ السلام اس وقت ان شاءاللہ کہہ لیتے تو (تمام بیویاں حاملہ ہوتیں اور) سب کے یہاں ایسے شہسوار بچے پیدا ہوتے جو اللہ کے راستے میں جہاد کرتے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ: 2819]

تخریج الحدیث:
یہ روایت صحیح بخاری میں چھ مقامات پر ہے: [2819، 3424، 5242، 6639، 6720، 7469]
صحیح بخاری کے علاوہ یہ روایت مختلف سندوں کے ساتھ درج ذیل کتابوں میں بھی موجود ہے:
صحيح مسلم [1654]
صحيح ابن حبان [4322، 4323 دوسرا نسخه: 4337، 4338]
سنن النسائي [7؍25 ح3862]
السنن الكبريٰ للبيهقي [10؍44]
مشكل الآثار للطحاوي [2؍377 ح1925]
شرح السنة للبغوي [1؍147 ح79 وقال: هذا حديث متفق على صحته]
حلية الاولياء لابي نعيم الاصبهاني [2؍279، 280 وقال: وهو صحيح ثابت متفق على صحته]
امام بخاری رحمہ اللہ سے پہلے درج ذیل محدثین نے اسے روایت کیا ہے:
أحمد بن حنبل [المسند 2؍299، 275، 506]
حميدي [المسند: 1174، 1175]
عبدالرزاق فى التفسير [1؍337 ح1668، 1669]
اس حدیث کو درج ذیل تابعین کرام نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے:
① عبدالرحمٰن بن ہرمز الاعرج [صحيح بخاري: 2819، 3424، 6639 وصحيح مسلم: 1654 وترقيم دارالسلام: 4289]
② طاؤس [صحيح بخاري: 5242، 6720 وصحيح مسلم: 1654 ودارالسلام: 4286]
↰ معلوم ہوا کہ یہ روایت بھی سابقہ روایات کی طرح بالکل صحیح ہے اور اسے بھی امام بخاری سے پہلے، ان کے زمانے میں اور بعد والے محدثین نے بھی روایت کیا ہے۔
جو لوگ صحیح بخاری کی حدیث پر طعن کرتے ہیں وہ درحقیقت تمام محدثین پر طعن کرتے ہیں کیونکہ یہی احادیث دوسرے محدثین کے نزدیک بھی صحیح ہوتی ہیں۔
تنبیہ ① : سیدنا سلیمان علیہ السلام نے دعویٰ غیب نہیں کیا تھا بلکہ یہ ان کا اجتہاد و اندازہ تھا۔
تنبیہ ②: ان روایات میں سلیمان علیہ السلام کی بیویوں کی تعداد ستر، نوے اور سو مذکور ہے۔ اس میں تطبیق یہ ہے کہ ستر آزاد بیویاں تھیں اور باقی لونڈیاں تھیں، دیکھئے: فتح الباری لابن حجر [6؍460 تحت ح3424]
تنبیہ ③: سابقہ شریعتوں میں چار سے زیادہ بیویاں رکھنے کی اجازت تھی جب کہ شریعت محمدیہ میں امت محمدیہ کے ہر شخص کو بیک وقت زیادہ سے زیادہ صرف چار بیویاں رکھنے کی اجازت ہے۔
تنبیہ ④: سلیمان علیہ السلام نے فرمایا: میں آج رات ستر عورتوں کے پاس جاؤں گا۔ إلخ
کسی حدیث میں یہ بالکل نہیں آیا کہ سلیمان علیہ السلام نے منبر پر لوگوں کے سامنے یہ اعلان کیا تھا بلکہ حدیث میں صحابی کا ذکر ہے جس سے مراد فرشتہ ہے۔ دیکھئے: صحیح بخاری [6720]
لہٰذا یہ اعتراض باطل ہے۔
دوسرا یہ کہ سلیمان علیہ السلام ان شاء اللہ کہنا بھول گئے تھے نا کہ انہوں نے اسے قصداً ترک کیا۔ دیکھئے: صحیح بخاری [6720]
   ماہنامہ الحدیث حضرو ، شمارہ 24، حدیث/صفحہ نمبر: 14   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7469  
7469. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی سیدنا سلیمان ؑ کی ساٹھ بیویاں تھیں۔ انہوں نے کہا: میں آج رات اپنی تمام بیویوں کے پاس ضرور جاؤں گا۔ ہر بیوی حاملہ ہوگی اور ایک ایک شہسوار کو جنم دے گی جو اللہ کے راستے میں جہاد کرے گا۔ پھر وہ اپنی بیویوں کے پاس گئے تو ان میں سے صرف ایک بیوی نے ناقص بچہ جنم دیا۔ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: اگر سلیمان ؑ ان شاء اللہ کہہ دیتے تو ہر بیوی حاملہ ہوتی اور شہسوار کو جنم دیتی جو اللہ کے راستے میں جہاد کرتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7469]
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب ان شاءاللہ سےنکلا کیونکہ اس میں مشیت الہی کا ذکرہے۔
اگر سلیمان ؑ مشیت الہی کا سہارا لیتے تو اللہ ضرور ان کی منشا پوری کرتا، مگر اللہ کو یہ منظور نہ تھا اس لیے وہ ان شاء اللہ کہنا بھی بھول گئے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7469   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7469  
7469. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی سیدنا سلیمان ؑ کی ساٹھ بیویاں تھیں۔ انہوں نے کہا: میں آج رات اپنی تمام بیویوں کے پاس ضرور جاؤں گا۔ ہر بیوی حاملہ ہوگی اور ایک ایک شہسوار کو جنم دے گی جو اللہ کے راستے میں جہاد کرے گا۔ پھر وہ اپنی بیویوں کے پاس گئے تو ان میں سے صرف ایک بیوی نے ناقص بچہ جنم دیا۔ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: اگر سلیمان ؑ ان شاء اللہ کہہ دیتے تو ہر بیوی حاملہ ہوتی اور شہسوار کو جنم دیتی جو اللہ کے راستے میں جہاد کرتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7469]
حدیث حاشیہ:

ایک روایت میں ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے جب اپنے عزم کا اظہار کیا تو ان کے ساتھی نے کہا:
ان شاء اللہ کہہ دیں لیکن اس یاد دہانی کے باوجود انھوں نے ان شاء اللہ نہ کہا۔
(صحیح البخاري، الجهاد والسیر، حدیث: 2819)
دوسری روایت میں ہے کہ فرشتے نے ان شاء اللہ کہنے کی یاد دہانی کرائی لیکن انھوں نے یہ کلمہ نہ کہا بلکہ بھول گئے۔
(صحیح البخاري، النکاح، حدیث: 5242)
دراصل انھیں اپنے آپ پر اس قدر خود اعتمادی تھی اور ظاہری اسباب پر بھروسا تھا کہ یاد دہانی کے باوجود اس پر عمل نہ کر سکے انھیں اپنی مراد میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو جس قدر بھی اسباب مہیا ہوں اسے اللہ تعالیٰ کی مشیت کا سہارا ضرور لینا چاہیے کیونکہ اس کے بغیر کوئی کام بھی پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا۔
اگر حضرت سلیمان علیہ السلام مشیت الٰہی کا سہارا لیتے تو اللہ تعالیٰ ضرور ان کی منشا پوری کرتا مگر اللہ تعالیٰ کو یہ منظور نہ تھا اس لیے یاد دہانی کے باوجود وہ ان شاء اللہ کہنا بھول گئے۔

اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا۔
کسی چیز کے متعلق یہ کبھی نہ کہیں کہ میں یہ ضرور کروں گا الا یہ کہ اللہ چاہے۔
(الکھف18۔
23)

مطلب یہ ہے کہ ہر کام اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تحت ہی ہوتا ہے لہٰذا اس قاعدے کو ہر وقت کو ہرملحوظ رکھنا چاہیے کیونکہ کسی کو یہ معلوم نہیں کہ وہ فلاں وقت کام کر سکے گا یا نہیں اور نہ کوئی اپنے افعال میں خود مختار ہی ہے کہ جو چاہے کر سکے لہٰذا کوئی شخص خواہ پورے صدق دل اور سچی نیت سے بھی کوئی وعدہ یا مستقبل سے متعلق کوئی بات کرے تو اسے ان شاء اللہ ضرور کہہ لینا چاہیے مگر افسوس کہ کچھ بد نیت قسم کے لوگوں نے ان شاء اللہ کو اپنی بدینتی پر پردہ ڈالنے کے لیے ڈھال بنا رکھا ہے۔
ان کے دل میں یہ بات ہوتی ہے کہ اپنا کام چلائیں بعد میں جو ہوگا دیکھا جائے گا۔
ان لوگوں نے اس بابرکت کلمے کو اس قدر بد نام کردیا ہے کہ جب کوئی اپنے وعدےکے ساتھ ان شاء اللہ کہتا ہے تو سننے والا فوراً سمجھ جاتا ہے کہ اس کی نیت میں فتور ہے ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کی آیات کے ساتھ بدترین قسم کا مذاق ہے جس کا ایمان دار آدمی تصور بھی نہیں کر سکتا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7469