صحيح البخاري
كِتَاب التَّوْحِيدِ -- کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں
31. بَابٌ في الْمَشِيئَةِ وَالإِرَادَةِ:
باب: مشیت اور ارادہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 7470
حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" دَخَلَ عَلَى أَعْرَابِيٍّ يَعُودُهُ، فَقَالَ: لَا بَأْسَ عَلَيْكَ طَهُورٌ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، قَالَ: قَالَ الْأَعْرَابِيُّ: طَهُورٌ، بَلْ هِيَ حُمَّى تَفُورُ عَلَى شَيْخٍ كَبِيرٍ تُزِيرُهُ الْقُبُورَ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَنَعَمْ إِذًا".
ہم سے محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالوہاب ثقفی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے خالد حذاء نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے بیان کیا اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک اعرابی کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے اور اس سے کہا کہ کوئی مضائقہ نہیں یہ (بیماری) تمہارے لیے پاکی کا باعث ہے، اس پر اس نے کہا کہ جناب یہ وہ بخار ہے جو ایک بڈھے پر جوش مار رہا ہے اور اسے قبر تک پہنچا کے رہے گا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر یونہی ہو گا۔
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3616  
´نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان`
«. . . عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَى أَعْرَابِيٍّ يَعُودُهُ، قَالَ: وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ عَلَى مَرِيضٍ يَعُودُهُ، قَالَ:" لَا بَأْسَ طَهُورٌ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، فَقَالَ لَهُ: لَا بَأْسَ طَهُورٌ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، قَالَ: قُلْتُ: طَهُورٌ كَلَّا بَلْ هِيَ حُمَّى تَفُورُ أَوْ تَثُورُ عَلَى شَيْخٍ كَبِيرٍ تُزِيرُهُ الْقُبُورَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَعَمْ إِذًا . . .»
. . . عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک اعرابی کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی کسی مریض کی عیادت کے لیے تشریف لے جاتے تو فرماتے کوئی حرج نہیں، ان شاءاللہ یہ بخار گناہوں کو دھو دے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اعرابی سے بھی یہی فرمایا کہ کوئی حرج نہیں ان شاءاللہ (یہ بخار) گناہوں کو دھو دے گا۔ اس نے اس پر کہا: آپ کہتے ہیں گناہوں کو دھونے والا ہے۔ ہرگز نہیں۔ یہ تو نہایت شدید قسم کا بخار ہے یا (راوی نے) «تثور» کہا (دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے) کہ بخار ایک بوڑھے کھوسٹ پر جوش مار رہا ہے جو قبر کی زیارت کرائے بغیر نہیں چھوڑے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا تو پھر یوں ہی ہو گا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَنَاقِبِ: 3616]

باب اور حدیث میں مناسبت
صحیح بخاری کا باب: «بَابُ عَلاَمَاتِ النُّبُوَّةِ فِي الإِسْلاَمِ:»
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں علامات نبوت پر اشارہ فرمایا اور نبوت کے دلائل پر روشنی ڈالی، مگر حدیث جو پیش فرمائی اس میں بظاہر کوئی بھی ایسی نبوت کی خاص نشانی نظر نہیں آتی جس حدیث کا ترجمتہ الباب سے تعلق بنتا ہو، ترجمتہ الباب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وجه دخوله فى هذا الباب: اٴن فى بعض طرقة زيادة تقتضي ايراده فى علامات النبوة، وهى قوله صلى الله عليه وسلم اما اذا أبيت فهي كما تقول، قضاء (الله) كائن فما أمسي من الغد ألا ميتا وبهذه الزيادة يظهر دخول هذا الحديث فى هذا الباب .» [فتح الباري لابن حجر: 521/7]
یعنی ترجمۃ الباب کی حدیث سے مناسبت اس طرح ہے کہ اس کے بعد طرق میں علامات نبوت کی نشانی ہے۔ (اس کا بعض طرق) جیسے طبرانی نے روایت کیا ہے، ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، جس کے آخری الفاظ یوں ہیں، «فما أمسي من الغد الا ميتا» پس وہ دوسرے روز مر گیا۔ لہٰذا ایسا ہی ہوا، جیسا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا، لہٰذا یہی سے ترجمہ الباب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔
علامہ عینی رحمہ اللہ نے فرمایا:
«مطابقة للترجمة تؤخذ من قوله: فنعم اذا فذالك من حيث ان الاعرابي لما رد على النبى صلى الله عليه وسلم قوله: لا بأس طهور ان شاءالله مات على وفق ما قاله صلى الله عليه وسلم، وهذا معجزاته صلى الله عليه وسلم .» [عمدة القاري للعيني: 149/16]
ترجمۃ الباب اور حدیث میں ان الفاظ سے مطابقت لی جائے گی، اچھا تو پھر یوں ہی ہو گا، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعرابی سے فرمایا، «لا باس طهور انشاءالله» تو اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس جملے کا رد کیا تو پھر وہ اسی طرح سے مرا جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا تھا اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا، (اس کی موت کی پیشن گوئی کا)۔
علامہ عینی رحمہ اللہ کے مطابق باب اور حدیث میں مناسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشن گوئی کی وجہ سے ہوتی ہے، کیونکہ پیشن گوئی کرنا یہ نبی کا معجزہ ہوتا ہے اور ترجمۃ الباب میں بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے اسی چیز کو ظاہر فرمایا ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 37   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7470  
7470. سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ ایک دیہاتی کی بیمار پرسی کرنے کے لیے تشریف لے گئے تو آپ نے اس سے فرمایا: کوئی حرج نہیں، ان شاء اللہ یہ بیماری تمہارے لیے پاکیزگی کا باعث ہوگی۔ دیہاتی نے کہا: بلکہ یہ تو وہ بخار ہے جو ایک بوڑھے پر جوش مار رہا ہے اور اسے قبر تک پہنچا کر چھوڑے گا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ہاں تب ایسا ہی ہوگا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7470]
حدیث حاشیہ:
طبرانی کی روایت میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جب تو ہماری بات نہیں مانتا تو جیسا کہ تو سمجھتا ہے ویسا ہی ہوگا اور اللہ کا حکم پورا ہو کر رہےگا۔
پھر دوسرے دن شام بھی نہیں ہونے پائی کہ وہ دنیا سے گزر گیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7470   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7470  
7470. سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ ایک دیہاتی کی بیمار پرسی کرنے کے لیے تشریف لے گئے تو آپ نے اس سے فرمایا: کوئی حرج نہیں، ان شاء اللہ یہ بیماری تمہارے لیے پاکیزگی کا باعث ہوگی۔ دیہاتی نے کہا: بلکہ یہ تو وہ بخار ہے جو ایک بوڑھے پر جوش مار رہا ہے اور اسے قبر تک پہنچا کر چھوڑے گا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ہاں تب ایسا ہی ہوگا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7470]
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اللہ تعالیٰ کی مشیت کے حوالے سے بتایا کہ یہ بیماری تجھے گناہوں سے پاک کر دے گی۔
لیکن اس دیہاتی نے اسے بعید خیال کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اگر تجھے ہماری بات پر یقین نہیں ہے تو ویسے ہی ہوگا جیسا تو خیال کرتا ہے تیرے متعلق اللہ تعالیٰ کا حکم ضرور پورا ہو کر رہے گا۔
چنانچہ دوسرے دن شام بھی نہ ہونے پائی تھی کہ وہ دنیا سے چل بسا۔
(المعجم الکبیر للطبراني: 306/7)
رقم 7213 وفتح الباري: 763/6)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دنیا میں مصائب و آلام گناہوں کے لیے کفارہ ہیں لیکن یہ سب اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تحت ہوتا ہے لہٰذا انسان کو چاہیے کہ انتہائی عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور اس کے فضل و کرم کی دعا کرے۔
تمام معاملات اسی کے ہاتھ میں ہیں وہ اپنی مرضی اور مشیت کے مطابق ان میں تصرف کرتا ہے تمام انسان اس کے محتاج اور غلام ہیں۔
اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7470