صحيح البخاري
كِتَاب التَّوْحِيدِ -- کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں
31. بَابٌ في الْمَشِيئَةِ وَالإِرَادَةِ:
باب: مشیت اور ارادہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 7475
حَدَّثَنَا يَسَرَةُ بْنُ صَفْوَانَ بْنِ جَمِيلٍ اللَّخْمِيُّ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ رَأَيْتُنِي عَلَى قَلِيبٍ، فَنَزَعْتُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ أَنْزِعَ، ثُمَّ أَخَذَهَا ابْنُ أَبِي قُحَافَةَ، فَنَزَعَ ذَنُوبًا أَوْ ذَنُوبَيْنِ وَفِي نَزْعِهِ ضَعْفٌ وَاللَّهُ يَغْفِرُ لَهُ، ثُمَّ أَخَذَهَا عُمَرُ، فَاسْتَحَالَتْ غَرْبًا فَلَمْ أَرَ عَبْقَرِيًّا مِنَ النَّاسِ يَفْرِي فَرِيَّهُ حَتَّى ضَرَبَ النَّاسُ حَوْلَهُ بِعَطَنٍ".
ہم سے یسرہ بن صفوان بن جمیل اللحمی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے سعید بن مسیب نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں سویا ہوا تھا کہ میں نے اپنے آپ کو ایک کنویں پر دیکھا۔ پھر میں نے جتنا اللہ تعالیٰ نے چاہا اس میں سے پانی نکالا۔ اس کے بعد ابوبکر بن ابی قحافہ رضی اللہ عنہ نے ڈول لے لیا اور انہوں نے بھی ایک دو ڈول پانی نکالا البتہ ان کے کھینچنے میں کمزوری تھی اور اللہ انہیں معاف کرے۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے اسے لے لیا اور وہ ان کے ہاتھ میں ایک بڑا ڈول بن گیا۔ میں نے کسی قوی و بہادر کو اس طرح ڈول پر ڈول نکالتے نہیں دیکھا، یہاں تک کہ لوگوں نے ان کے چاروں طرف مویشیوں کے لیے باڑیں بنا لیں۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7475  
7475. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہﷺ نے فرمایا: میں ایک وقت سو رہا تھا کہ خود کو ایک کنویں پرد یکھا۔ میں نے اس سے، جتنا اللہ نے چاہا، پانی نکالا۔ اس کے بعد ابن قحافہ نے ڈول پکڑ لیا اور انہوں نے ایک یا دو ڈول نکالے البتہ ان کے ڈول کھنچنے میں کمزوری تھی۔ اللہ تعالیٰ انہیں معاف فرمائے۔ پھر اسے عمر نے لے لیا تو وہ ان کے ہاتھ میں ایک بڑا ڈول بن گیا۔ میں نے لوگوں میں سے کوئی باکمال و بے مثال نہیں دیکھا اس طرح ڈول پر ڈول نکالتا ہو یہاں تک کہ لوگوں نے اس کنویں کے ارد گرد گھاٹ بنالیے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7475]
حدیث حاشیہ:
رسول کریم ﷺ نےقدم قدم پرلفظ ان شاء اللہ کا استعمال فرما کر مشیت باری تعالیٰ پر ہر کام کو موقوف رکھا۔
ڈول کھینچنے کی تعبیر امور خلافت کو انجام دینے سے ہے۔
عہدصدیقی بھی کامیاب رہا مگر عہد فاروقی میں اسلام کوجو وسعت ہوئی اور امر خلافت مستحکم ہوا اور ظاہر ہے۔
اسی پراشاد ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7475   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7475  
7475. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہﷺ نے فرمایا: میں ایک وقت سو رہا تھا کہ خود کو ایک کنویں پرد یکھا۔ میں نے اس سے، جتنا اللہ نے چاہا، پانی نکالا۔ اس کے بعد ابن قحافہ نے ڈول پکڑ لیا اور انہوں نے ایک یا دو ڈول نکالے البتہ ان کے ڈول کھنچنے میں کمزوری تھی۔ اللہ تعالیٰ انہیں معاف فرمائے۔ پھر اسے عمر نے لے لیا تو وہ ان کے ہاتھ میں ایک بڑا ڈول بن گیا۔ میں نے لوگوں میں سے کوئی باکمال و بے مثال نہیں دیکھا اس طرح ڈول پر ڈول نکالتا ہو یہاں تک کہ لوگوں نے اس کنویں کے ارد گرد گھاٹ بنالیے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7475]
حدیث حاشیہ:

ابن ابی قحافہ سے مراد حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔
انھوں نے دو ڈول نکالے۔
ڈول نکالنے کی تعبیر امور خلافت انجام دینے سے ہے۔
حدیث میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف منسوب کمزوری سے مراد مال غنیمت کی کمی ہے کیونکہ ان کے دور میں کچھ لوگ مرتد ہوگئے تھے۔
آپ انھیں دین اسلام کی طرف واپس لانے کے لیے ان کی سرکوبی میں لگے رہے۔
یہ عمل فتوحات اور ان کے نتیجے میں مال غنیمت سے کہیں بڑھ کر درجہ رکھتا ہے۔
چونکہ ارتداد کا عمل ان کے دور حکومت میں ہوا تھا، اس لے مذکورہ کمزوری کو ان کی طرف منسوب کیا گیا، پھر اسے معاف کر دیا گیا کیونکہ سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انھیں اسلام کی طرف واپس لانے میں پوری توانائیاں صرف کر دیں۔

ان کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جس قدر طاقت اور مہارت سے ڈول کھینچے یہ بھی ان کے کامیاب دورحکومت کی طرف اشارہ ہے۔
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو پانی کھینچا اسے اللہ تعالیٰ کی مشیت سے منسلک کیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی مشیت سے کوئی چیز بھی باہر نہیں۔
انسان کی اپنی چاہت بھی ہوتی ہے لیکن وہ بھی اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تحت ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اور تم نہیں چاہتے مگر یہ کہ اللہ چاہے۔
(الدھر 30)
اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی اپنی چاہت ہی سب کچھ نہیں جب تک اللہ تعالیٰ کی چاہت شامل حال نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کی چاہت اندھیر نگری نہیں ہے بلکہ اس کی بنیاد اس کی حکمت اور وسیع علم ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7475